ان میں امریکی شہریت یا رہائشی ویزہ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد کینیڈا، برطانیہ، دوسرے ممالک ہیں۔ ندیم بابر، معید یوسف، شہباز گل، شہزاد قاسم، تانیہ ایدروس، زلفی بخاری اور مختارے کے دوست ندیم افضل چن بین۔ کچھ کے بیویاں اور بچے غیرملکی شہری ہیں (جیسے عبدالحفیظ شیخ )
اس کے ساتھ ان معاونین میں جو معیشت، پٹرولیم، قومی سلامتی، سیاحت اور بیرون ملک پاکستانیوں کے معاملات، سیاسی مشاورت، قانون وغیرہ کے اہم شعبوں پر قائم و قابض ہیں ان کے اثاثوں کی فہرستیں بھی سامنے آئی ہیں۔ اکثر ارب پتی ہیں جنہوں نے اپنا مال یا تو ملک سے باہر رکھا ہوا ہے یا پھر ملک میں غیرملکی کرنسی کی صورت میں۔ سید قاسم، زلفی بخاری، سردار رند غیرملکی اکاؤنٹس میں پہلے تین نمبروں پر ہیں۔ ہماری معیشت کے محافظ ڈاکٹر حفیظ شیخ، پٹرولیم کے بادشاہ ندیم بابر، قومی سلامتی کے معاملات پر دن رات ایک کرنے والے معید یوسف اور سٹیٹ بینک کے سابق گورنر اور ملکی اداروں کو ازسر نو بنانے والے عشرت حسین اس لسٹ میں آتے ہیں۔
سیاسی امور و ابلاغ کے سجیلے سپاہی شہباز گل کے ساتھ شہزاد اکبر، عبدالرزاق داؤد اور ملک امین اسلم سب نے اکاؤنٹس ملک سے باہر رکھے ہیں۔ اور تو اور جنرل عاصم باجوہ کو بھی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ کی ضرورت ہے۔ مگر جنرل صاحب کے اثاثے ویسے بھی غیر معمولی ہیں۔ پلاٹوں اور زمینوں کے باوجود محض کروڑوں روپے ہی ہیں۔ ان کو لگ بھگ تین کروڑ کی جیپ بھی 30 لاکھ میں ملتی ہے۔ کل ملا کر ڈیڑھ ارب کے قریب اثاثے 20 میں سے 14 معاونین و مشیران کے اکاؤنٹس میں پڑے ہیں جس میں سے 70 فیصد ملک سے باہر ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے 13 کروڑ 50 لاکھ میں سے صرف 25 ہزار قومی کرنسی میں رکھ چھوڑے ہیں۔ ان کو روپے کے مستقبل کا خوب پتہ ہے۔ اس کے علاوہ شہزاد اکبر سمیت ان مشیران، معاونین کے اثاثے پڑھ کر یہ بھی سمجھ آیا کہ جائیدادیں تحفے میں بھی مل سکتی ہیں اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔
شہزاد اکبر، جو جسٹس قاضی فائز عیسی کیس پر معمور کیے گئے ہیں، گجر خان کی دیہاتی یا نیم شہری ماحول سے لے کر سپین کے دور دراز کے علاقے میں جائیدادیں رکھتے ہیں، تین ورثے میں ملی ہیں، ایک والد صاحب نے تحفے میں دی۔ اب والد صاحب کیا کام کرتے تھے اس کا پتا نہیں ہے اور نہ ہی یہ جاننے کی ضرورت ہے۔
“