تاریخ کا استحصال:
سومنات پرمحمود غزنوی کے حملے کے بارے میں سب سے پہلے برطانوی نوآبادیاتی حکومت میں اس واقع کی تفصیل انگریزمورخوں نے بتائی۔۔ یہ اس سے کوئی 800 سال پہلے کا واقعہ تھا۔۔ مسلمانوں یا ہندووں میں سے کسی نے اس واقعہ کے تاریخی سورسز پرنہ کوئی سوال اٹھایا نہ کوئی آگے تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ مسلمانوں اور ہندووں دونوں نے اسے اپنے اپنے مطلب میں قبول کرلیا۔۔ اور ان دونوں کمیونٹیوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن گیا۔ ہندو کمیونٹی میں اس داستان نے مسلمانوں کے بارے شدید نفرت اورجارحیت کے جذبات پیدا کردیئے۔ ظاہر ہے جب کوئی ایک مذہب والے دوسرے مذہب کے شہرپردھاوا بولیں اور ان کی مقدس ترین عبادت گاہ کو لوٹ لیں۔۔ تواس ٹراما کا کیا حال ہوگا۔۔۔ ادھرمسلمانوں نے اسے 'بت شکن'، بہادری اور غلبہ اسلام کے فخرکے طور پرلے لیا۔۔ تاریخ کے اس طرح کے واقعات میں دونوں طرف سے مبالغہ آمیزی لازمی ہوتی ہے۔ (ساری اسلامی تاریخ اسی طرح کی اوٹ پٹانگ مبالغہ آمیزی سے بھری ہوئی ہے)، انڈیا کے ایک مورخ رومیلا تھاپرنے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو سنسکرت میں تاریخی مواد ہے اور جو فارسی، ترکی زبانوں میں مواد ہے ان دونوں میں واقعات اور Period کا اختلاف ہے۔
اس کے بقول جس دور کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے، سومنات کی مقامی آبادی کسی ٹراما کا شکار نظر آنے کی بجائے وہ عربوں اور ایرانیوں کے ساتھ منافع بخش تجارت کے پھیلاو سے خوش نظر آتے ہیں۔۔۔
لیکن کیا کیا جائے اس واقعے کا ذکرپہلی دفعہ 1843 میں برطانیہ کے ہاوس آف کامنز میں ایک مباحثے میں کیا گیا ۔ اس حملے کے نتیجے میں ہندووں پرہونے والے ٹراما کا زکرکیا گیا۔۔۔ اور پھر اس واقعے نے دونوں طرف ایسی نفرت پیدا کی۔۔ کہ بابری مسجد کے مسمارکرنے کو سومنات کے بدلے سے منسوب کیا گیا۔۔۔ اور ہماری پاکستان کی نصابی کتابوں میں محمود غزنوی کے 17 حملوں اورسومنات میں بت توڑنے کے عمل کو گلوری فائی کیا جاتا ہے۔۔۔
The Past as Present ..Romila Thapar
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“