مطالعہ پاکستان سے لے کرپاکستانیوں میں عمومی پائی جانے والی رائے عامہ ہمیشہ سے یہ رہی ہے، کہ ہندووں اور سکھوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم اور قتل عام کے واقعات کئے تھے۔۔۔ اسی یک طرفہ نفرت کو بڑھانے کے لئے واہگہ بارڈر پرہماری سیکورٹی اسٹیبلش منٹ نے دیواروں پر اسکیچ، تصویریں (میورل) بنوائی۔۔ جس میں ہندووں اور سکھوں کو مسلمانوں کو مارتے دکھایا گیا ہے۔۔ چونکہ مطلب ہندو نفرت اور انڈیا دشمنی کو ابدیت عطا کرنا مقصود ہے۔۔ ورنہ جہاں امن درکار ہو،ماضی کے تلخ اور زہر بھرے واقعات کو دہرایا نہیں جاتا۔ اور پھر وہ قتل و غارت گری۔۔۔ جو سب نے سب کے ساتھ کی ہو۔۔۔ جب فسادات لاکھوں کروڑوں لوگوں کی آبادی پر محیط ہوں، لاکھوں لوگوں کو ان کے آبائی اور وراثتی گھروں، محلوں، بستیوں ، دیہاتوں ، شہروں سے ان کے سب مال و متاع چھین کر بے دخل کردیا گیا ہو۔۔۔
تقسیم کے اردگرد پھوٹ پڑنے والا تشدد ۔۔ وطن کی تقسیم اور ہجرت بہت ظالمانہ فعل ہوتا ہے۔ ایسے جیسے ماں باپ کو چیرا جا رہا ہو۔ چنانچہ وہ فسادات بدقسمتی سے فطری نتیجہ تھا۔ جس نے فری فار آل کی شکل اختیار کرلی۔۔۔ مغربی پنجاب سے جو اب پاکستان ہے، وہاں سے ہندووں اور سکھوں کو نکالنا ، بے دخل کرنا۔۔۔۔ پاکستان اور اور یہاں کے مسلمان باشندوں کے لئے ضروری تھا۔۔۔ جتنے زیادہ فسادات، لوٹ مار، آگ و خون کا کھیل ہوتا۔۔۔ انگریز اور کانگریس اتنی جلدی پاکستان کا مطالبہ مانتے۔۔۔ تو یہ ایک دو دھاری تلوار تھی۔۔ مغربی پنجاب سے ہندووں سکھوں کی جائدادوں اور مال و متاع پر قبضہ کرنا تھا، مسلمان اشرافیہ، زیمیندار/جاگیر دار ہندو ساہوکاروں کے مقروض بھی تھے۔۔ ہندووں کو نکالنے اور مارنے کے بعد ان قرضوں سے بھی جان چھوٹنی تھی۔۔۔ ادھر مشرقی پنجاب (جو انڈیا کے حصے آیا)، میں مسلمان کافی بڑی تعداد میں رہتے تھے۔۔ چونکہ پہلے فسادات مغربی پنجاب اور پنڈی / جہلم/ لاہور کے علاقوں میں ہوئے۔۔ یہاں ہندووں سکھوں کو قتل کیا گیا اوران کی جائدادوں کو آگ لگائی تھی۔۔ تو اس کے ردعمل میں مشرقی پنجاب میں سکھوں کی اکثریت نے مسلمانوں کو زیادہ بے دردی اور زیادہ تعداد کے ساتھ تہہ تیغ کیا۔۔
بہرحال۔۔۔ اگر دونوں طرف کی سیاسی قیادت واقعی انسان دوست اور سمجھدار ہوتی۔۔۔ تو تقسیم پربہنے والے بے حساب ظلم پر دو طرفہ معافی ایک دوسرے سے معافی مانگی جاتی۔۔ ایسے وسیع فسادات بے قابو ہوتے ہیں۔ انسانوں کی وحشی جبلتیں وحشیانہ ناچ ناچتی ہیں۔۔ چنانچہ سب فریق ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھتے، جو ہو گیا ، وہ واپس نہیں آتا، نہ اسے درست کیا جا سکتا ہے۔۔ تاریخ سے صرف سیکھا ہی جا سکتا ہے۔۔ کہ بے رحمی کا یہ کھیل پھر وارد نہ ہو۔۔ لیکن ہماری سائڈ والوں کو یہ قبول نہ تھا۔ ۔ان کے مفاد میں تھا۔۔ کہ 1947 کی کمیونل نفرتوں کو برقرار بلکہ ہردم تیز کیا جاتا رہے۔۔۔ میں اپنی سائڈ کی بات کروں گا۔۔ ہم نے تو اس نفرت کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنے کا عہد کیا ہوا ہے۔۔
میرے پاس دو کتابیں ہیں، ایک پروفیسر اشتیاق احمد صاحب کی 'پنجاب کا بٹوارا' اور دوسری انڈیا کی کتاب From the ashes of 1947 کیمرج سے شائع شدہ ہے۔۔ میں کچھ واقعات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔۔ تاکہ پرانی اور خاص طور پر پاکستان کی نوجوان نسل کو تصویر کے دوسرے رخ کا بھی پتا چل سکے۔۔ کہ الحمداللہ ہم مسلمانوں نے بھی ان قتل و خون، بربریت، اور وحشت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔۔۔ تاکہ اس فکر کو اندھا ہوکرفالو نہ کریں۔۔ جو ہماری سیکورٹی اسٹیبلش منٹ اور دائیں بازو کے لوگوں کو عام کررکھا ہے۔۔ جن کا مقصد جنگی اور مذہبی جنونیت کو برصغیر میں قائم دائم رکھنا ہے۔۔۔
“