غلامی کا نظام 1865 میں امریکہ میں ختم کیا گیا، ظاہر ہے غلام سب کالے تھے۔ لیکن کالوں کو آئینی اور قانونی برابر شہری کے حقوق ایک سو سال تک نہ مل سکے۔۔ دوبارہ سخت جدوجہد کرنی پڑی۔۔ پھر جا کروہ حقوق تسلیم کئے گے، لیکن پھر بھی معاشرتی سطح پر کالوں کے ساتھ امتیازی سلوک آج بھی قائم ہے، جب کہ نسلی امتیاز قانون کے مطابق نہ صرف سختی سے غیرقانونی ہے بلکہ سماجی سطح پر کوئی ایسی کھلم کھلا حرکت نہیں کرسکتا۔۔۔ پھر مزید 60، 70 سال بعد ' کالوں کی زندگی اہم ہے' کی تحریک چلانی پڑی ہے۔۔۔ اب مزید کالوں کے ساتھ کچھ بہتر سلوک کی روائت پختہ ہوگی۔۔۔ لیکن کچھ فرق ابھی بھی رہ جائے گا۔۔۔۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔ کہ ہم انسان نظریاتی اور خیالی سطح پر ایک بات کو تسلیم کرلیتے ہیں۔۔ اسے ویلیو بنا لیتے ہیں۔۔ لیکن عملی طور پرایسا برتنا مشکل رہتا ہے۔۔۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔۔ یہ امتیازیات شعور کی گہری تہہ میں پرنٹ ہوئے ہوتے ہیں۔۔ 'اصولی اور قانونی ' طور پر ہم مان لیتے ہیں۔ لیکن عملی سوشل زندگی میں مشکل رہتا ہے۔۔ کہ وہ جو صدیوں کی عادت تھی۔۔۔ اس سے جان نہیں چھوٹتی۔۔ عمل اور آئیڈیل ازم کا یہی فرق ہوتا ہے۔۔ عمل مفادات سے ہوتا ہے۔۔ نظریوں سے نہیں۔۔۔ انسان افکار عالیہ کے ساتھ باتیں بڑی اونچی اونچی کرلیتا ہے۔۔ عمل میں رہ جاتا ہے۔۔ (تازی مثال عمران نیازی اوریوتھیوں کی ہے)۔ اسی طرح اسلام کی 'سنہری روایات' کا بڑا زکرہوگا۔۔ لیکن مسلمانوں کی عملی زندگی میں حرام ہے۔۔ ان کا شائبہ بھی موجود ہو۔۔
نظریئے اور عمل میں فاصلہ رہ جانا ہوتا ہے۔۔ فکری سطح پر ہم جلد کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن عملی زندگی میں ایسا ناممکن ہوتا ہے۔ عمل میں سست ارتقا ہوتا ہے۔۔ ہم انسان ایک فکری گول سیت کرلیتے ہیں۔۔ پھر اس کے بعد لمبے عرصے میں آہستہ آہستہ کوششوں سے بدلتے ہیں۔۔ اور اپنے آئیڈیل کی طرف بڑھتے ہیں۔۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے۔۔ کہ عملی طور پر صرف اسی وقت بدلا جاسکتا ہے جب زمینی حقیقتیں بھی بدل جائیں۔۔۔ مثلا ' کالے گورے میں کوئی فرق نہیں'۔۔ اصولی طور پر مان لیا، سب انسان برابر اور قابل تکریم ہیں۔۔ لیکن عملی طور پر کالا وہی پس ماندہ ، غربت زدہ، جاہل ، تہذیب و آداب، اعلی تعلیم سے محروم ہے۔۔ بچے بے مقصد زیادہ پیدا کرکے اپنی زندگی ترقی میں خود ہی رکاوٹ ہے۔۔ غریب ہے تو غریب بستیوں میں رہے گا۔۔ وہاں اچھے اسکول ہی نہ ہونگے۔۔ دیگر شہری سہلوتیں بھی کم تر ہونگی۔۔ چنانچہ کالوں اور گوروں کی عملی زندگی میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔ ایک طرف غربت ہوگی، دوسری طرف امارت۔۔ غریب و جاہل۔۔۔ تو کرائم بھی کرے گا۔۔ بول چال اور فطرت میں بھی ۔۔۔ ادب و آداب کوئی نہ ہوگا۔۔ جب تک کم تر طبقات کے حالات نہیں بدلتے، وہ خود نہیں بدلتے۔۔ اور سوسائٹی ریاست ان کو بہتر مواقع نہیں دیتی۔۔۔۔ قانون کچھ بھی بنا لیں۔۔ عملی زندگی میں فرق اور امتیاز رہ جانا ہے۔۔
میں بڑا ماڈرن آدمی ہوں۔ جدید تہذیب و آداب کا دلدادہ۔۔ لیکن عملی زندگی میں مجھ سے توقع مت رکھیں۔۔ کہ میں غریب کو جھک کر سلام کروں گا۔۔یا وہ مقام دوں گا جو کسی اپنے جیسے یا اپنے سے اوپر والے کو دیتا ہوں۔ ۔ میرا 'انسان برابر ہیں'۔ بس خیالی اور نظری ہی رہے گا۔۔ میں نے لفظ ' مراثی ' استعمال کیا تو کچھ دوست ٹوٹ پڑے۔۔ میں 'مراثیوں ' کی گستاخی کردی ہے۔۔ لیکن مجھے بھی blunt جواب دینا پڑا۔ کہ مجھے وہ آ کرٹوکے۔۔ جس نے کسی مراثی کو داماد بنایا ہو۔۔!! سب بھاگ گے۔۔ جب تک مادی حالات برابر نہ ہوں ،کوئی برابر نہیں ہوسکتا۔
آئیڈیل ازم اور عملی زندگی کے تقاضوں اور ان کی ارتقائی حرکیات کی سائنس کو سمجھنا ضروری ہے۔۔
“