مسلم دنیا کے ان دونوں مسائل کی ہینڈلینگ میں بڑی مماثلت ہے۔ ان دونوں مسائل میں ایک تو وہاں کے عوام پارٹی تھے، اور دوسرے ان دونوں مسئلوں کے ٹھیکیدار۔۔۔ ان کی سپانسرز ریاستیں تھی۔۔ مسئلہ کشمیر کی سپانسر ریاست پاکستان تھا۔۔ مسئلہ کشمیر میں پاکستان زبردستی اسے اسلامی دنیا کا مسئلہ کہہ کرپیش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔۔ جسے اسلامی اور عرب دنیا نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، اب تو او آئی سی اسے ایجنڈے سے بھی نکال گئی ہے۔ مسئلہ فلسطین میں جہاں تک عرب ممالک اور عرب فرنٹ لائن عرب ریاستوں کا تعلق ہے، جن میں مصر، اردن اور شام پیش پیش تھے۔۔ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنے سے انکار کردیا۔۔ اور اسرائیل پر بار بار جنگ مسلط کی۔۔ نتیجہ زلت کی حد تک منہ کی کھائی۔۔۔ عرب ہم جنوبی ایشائی مسلمانوں سے زیادہ پریکٹیکل ہیں۔۔ مصر، اردن، شام نے جنگوں میں بدترین شکستوں کے بعد توبہ کرلی۔۔۔ اور اسرائیل سے امن کے معاہدے کرلئے، رہ گے گلف کی تیل کی دولت والی ریاستیں۔۔۔ انہوں نے بھی اب سعودیہ کی سرکردگی میں مسئلہ فلسطین سے منہ موڑ لیا ہے۔۔ انہوں نے اعلان کردیا کہ ان کی اسرائیل سے کوئی دشمنی نہیں۔۔ اور وہ آگے کو بڑھ گے۔۔۔
رہ گیا ہمارا نام نہاد مسئلہ کشمیر۔۔۔ اس میں بھی 72 سال پہلے ہم نے وہی فلسطین والا کردار ادا کیا۔۔ یعنی اس وقت جب ایک بہتر حل نکل سکتا تھا، تو ہم نے اس میں کئی طرح کے پنگے ڈال کراور بات چیت کے پراسسس کا خاتمہ کرکے۔۔ فیصلے کی گھڑی کو کھو دیا۔۔۔۔ اسی طرح ہم نے بھی یعنی پاکستانی ریاست نے سارا کشمیر ہمارا ہے کہہ کر لٹکا دیا۔۔۔ کشمیر کو فتح کرنے کے لئے دو تین بار جنگی مہم جوئی بھی کی، اور ہم نے بھی فلسطینیوں اور عربوں کی طرح منہ کی کھائی۔۔ خود اپنے زخم چاٹنے پرہی اکتفا کیا۔ لیکن ہماری اسٹیبلش منٹ نے مسئلہ کشمیر کو انڈیا دشمنی، ہندو نفرت، اور اسلامی انتہا پسندی اور جہادی نظریات کو فروغ دینے کا ' مفید ' زریعہ سمجھ لیا۔۔ اس طرح وہ کشمیر کا ایک انچ کبھی فتح نہ کرسکے۔۔ لیکن پاکستانی ریاست، وسائل سیاست، معاشرت، سرزمین پرہماری فوج یعنی جنرلوں کا قبضۃ ہوتا چلا گیا۔۔۔ ان کے لئے مسئلہ کشمیر اور انڈیا دشمنی کو زندہ رکھنا ۔۔۔ اپنے ہی ملک پاکستان پرقبضۃ کرنے کا زریعہ ہے۔۔۔ مسئلہ کشمیر ویسے مکمل طور پر مردہ ہوچکا ہے۔ دنیا میں کہیں سے بھی ہمیں کوئی سپورٹ ، ہمدردی حاصل نہیں۔ یہ صرف ہمارے جنرلوں کا واویلہ ہے۔۔ جو انہوں نے پاکستانی ریاست اور معاشرے کو بھی اس میں لگا رکھا ہے۔
امن کے ساتھ آپ ابدی طورپررہ سکتے ہیں، لیکن جنگ، دشمنی اور نفرت کے ساتھ آپ ابدی طور پر نہیں سکتے۔ سرینگرکے ہمارے پالتو کشمیریوں کو اور خود ہمیں اس تاریخی حقیقت کا ادراک نہیں۔ بے نتیجہ جنگیں یا جنگی حالت۔۔ خود کش حملہ ہوتا ہے۔۔۔ پاکستان اور کشمیری اسی خود کش راہ پرگامزن ہیں۔ پاکستان ترقی، امن، خوشحالی کے معاملے میں دنیا اور اپنے خطے میں ایک مذاق بنتا جا رہا ہے۔ غربت، آبادی، جہالت میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ انا کے مارے جرنیل پوری طرح اندھے ہیں۔ انہیں صرف اپنی ذات کے کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ کہنا غلط ہے، 'امن تب ہوگا، جب 'انصاف' ہوگا۔۔ یہ کشمیریوں سمیت 22 کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کا زریعہ ہے۔ یہ نظریہ 'ظالموں' کے لئے تو مفید ہے، مظلوموں کے لئے نہیں۔ امن عدم جنگ کو کہتے ہیں۔ اورجب امن ہوتا ہے، تو پھر ترقی، خوشحالی، انصاف کا دروازہ بھی کھلنے لگتا ہے۔
فلسطینی، سرینگرکے کشمیری، اور پاکستانی خاکی قیادت بے لچک رویہ رکھ کر مسلسل خود کشی کی کیفیت میں ہیں۔
“