اسلامی مغالطے، جن کے زور پر عظمت اسلام کا سارا مہابیانیہ کھڑا کیا جاتا ہے
بہت غوغا رچایا جاتا ہے، اولین خلفا کی سادہ طرز زندگی پر۔۔۔کوئی پروٹوکول نہیں، کوئی سیکورٹی نہیں، وہی سادہ سا رہن سہن گھر، مسجد ہی خلیفہ وقت کا آفس۔۔۔خود ہی نماز پڑھانی۔۔کیا بات ہے، اسلام ہی ہے، جو 'جمہوریت' ، مشاورتی طرز یعنی مجلس شوری اور بیعت کا تصور دیتا ہے۔ جہاں عام آدمی بھی خلیفہ سے مل سکتا ہے، سوال کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب ہم یہ باتیں کرتے ہیں، تو ہم اس وقت کے سارے تناظر کو نظر انداز کردیتے ہیں، جہاں یہ سب کچھ ہورہا تھا۔ یہ ساری باتیں اور روایات قبل اسلام بھی ایسی ہی تھی اس معاشرے میں۔ معاشی اور سماجی لحاظ سے نہائت پس ماندہ صحرائی قبائلی نظام تھا۔ آج بھی ہمارے ہاں جہاں قبائلی نظام ہیں، وہاں قبیلے کے چیف کے دروازے عام آدمی کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ ان کا اپنے لوگوں کے ساتھ قریبی تعلق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جو ماڈرن سٹیٹ کا تصور ہے، ہمیں اس کو سامنے رکھ کر ان کا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے۔ وہاں تو ابھی 'ریاست' کا بیج بویا جانے لگا تھا۔ پیداواری زرائع اور دولت کی اقسام انتہائی سادہ نوعیت کی تھی۔ چنانچہ جس 'طرز حکومت' کو آج کے ماڈرن پچیدہ نظام سے برتر قرار دیا جاتا ہے۔ آج وہ ممکن ہی نہیں، اسلام کے اس دور کی 'سنہری طرز حکومت' لانے کے لئے ہمیں اسی پس ماندہ صحرائی قبائلی ماحول میں واپس جانا ہوگا۔۔۔ مکہ ، مدینہ اس وقت ہمارے آج کے دور کے کسی پس ماندہ گاوں کی طرح تھے۔ چنانچہ جب وہ ابتدائی خلیفا راشدین بنے۔۔فتوحات (لوٹ مار اور قبضہ گری کے طریقے سے۔۔اسلام لے آو، یعنی اطاعت کرو، ورنہ جنگ کے لئے تیار ہوجاو۔۔یا ٹیکس ادا کرو۔۔اس کا مطلب بھی زیرنگیں ہونا ہوتا تھا) سے مال و دولت اسباب اکٹھے ہونا شروع ہو گے تھے۔۔زیر اثر علاقوں میں پھیلاو ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے، یہ مکے اور مدینے کے پس ماندہ باسی راتوں رات قیصر و کسری جیسے نہ محل بنا سکتے تھے، نہ اس عیش کی زندگی کا تصور تھا، نہ انہوں نے وہ چمکتی دھمکتی دولت کے ذرائع کبھی دیکھے تھے۔ نہ کوئی ریگولر فوج اور پولیس کا کوئی تصور تھا۔ وسائل تھے نہ تصور تھا، مکہ، مدینہ کوئی تاریخی روائیتی سلطنت نہ تھی۔۔۔ ان کو تو پتا ہی نہیں تھا، کہ شاہانہ عیش و عشرت ہوتی کیا ہے۔انتہائی سادہ لوح اور پس ماندہ زندگی گزارنے والے اچانک ایک سلطنت کے عمل کے آغاز میں پڑ گے۔۔۔چنانچہ میرے کہنے کا مطلب ہے، ابتدائی خلفا کی جو سادہ لوحی تھی، اس کا 'اسلامی' سپرٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اپنے وقت کی سادہ طرز زندگی اور قبائلی حالات کے ماتحت تھے۔ چاروں خلفا راشدین کا زمانہ ایک عبوری transitional تھا۔ اسی لئے وہ بہت بحرانی نوعیت کا بھی رہا۔ کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ کیا کرنا ہے۔ اسی لئے باہمی لڑائی مارکٹائی بہت ہوئی۔ پاور گیم شروع ہوگئی۔ قبائلی، نسلی اور خاندانی بنیادوں پر۔۔ اسلام جس کے بارے کہا جاتا ہے، قبائلی، نسلی، خاندانی امتیازات کو توڑتا ہے۔ جب کہ خلفائے راشدین کے درمیان ساری کشمکش نسلی، قبائلی، خاندانی بنیادوں پر لڑی گئی۔خاندان رسول پر بنو امیہ کی برتری اور کامیابی بھی فطری تاریخی ارتقا تھا۔ بنو امیہ اپنے وقت کے visionary دور اندیش سیاست دان تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے، کہ ایک بڑی اسلامی سلطنت بننے جارہی ہے۔۔جسے قیصر وکسری کی طرز پر ہی چلایا جاسکتا ہے۔۔نہ کہ دہہاتی اور قبائلی طرز پر۔ چنانچہ پرانے قبائلی نظام اور طرز زندگی پر زور دینے والوں کو شکست ہوئی۔ چنانچہ مولوی اور اسلام پسند جو ابتدائی اسلام کی سادہ طرز حکمرانی کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک تو اس کا 'اسلام' سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسرے ایسا آج ممکن نہیں ہے، وہ تو اس وقت بھی ممکن نہ رہا۔ چار میں سے تین جید خلفا بہت برے طریقے سے قتل ہوئے۔ چنانچہ سنہرے اسلامی دور کے نام پر مولوی قبائلی جمہوریت اور قبائلی مزاج کے مساوات کا رومانس پیدا کرتا ہے۔ 'شوری' اور 'بیعت' کا نظام بھی 'اسلامی' نہیں۔ یہ پہلے سے ہی قبائلی روائت تھی۔ یعنی چند بڑے، بزرگ،اہم اور طاقت ور لوگون سے بعیت کرانی۔۔۔یا ان کا مشاورتی اسٹیٹس بنانا۔۔۔یہ جو ہمیں بتایا جاتا ہے، کہ خلیفہ عام لوگوں کے بیچ اور انہی کی طرح رہتا تھا، اور عام آدمی بھی خلیفہ سے سوال پوچھ سکتا تھا، یہ سب قبائلی مزاج اور قبائلی اقدار تھیں۔ ایک چھوٹی سی پس ماندہ بستی، جس میں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔۔۔قبیلہ کا سردار اپنے لوگوں سے جدا ہو کر نہیں رہتے، ہر کوئی اپنے سردار کے پاس آ سکتا ہے۔۔ چنانچہ اس کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ان کا قبائلی کلچر تھا۔ اور جونہی اسلام نے ایک سلطنت کی صورت اختیار کی۔۔۔یہ سب 'سنہری' اسلامی روایات اپنی موت آپ مر گئیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“