انتخابات سے تحریک لبیک نے کیا پایا:
ہمارے جنرلوں نے کبھی فکرنہیں کی،کہ ان کے کسی اقدام سے عوام میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ہوجائے گا۔ وہ اپنی گروہی طاقت اور مفادات کو محفوظ کرنے کے علاوہ کسی چیز کوسامنے نہیں رکھتے۔۔ سارا پاکستان جانتا ہے کہ ختم نبوت کے نام پرمولوی خادم حسین اوراس کی پارٹی کو ہماری اسٹیبلش منٹ نے تھوڑے ہی عرصے میں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ حالانکہ ختم نبوت پرسیاست کرنے والوں کی اس ملک میں پہلے ہی کوئی کمی نہ تھی۔
کراچی میں 82 لاکھ ووٹ تھے، صرف 32 لاکھ نے ووٹ ڈالا۔ تحریک انصاف کو ساڑھے دس لاکھ ووٹ ملا ہے۔ تحریک لبیک کو کراچی میں تقریبا 4 لاکھ ووٹ پڑے ہیں۔ کراچی میں یہ تیسری بڑی پارٹی کے طورپرابھری ہے۔ تمام دیگرمذہبی سیاسی جماعتوں کے ووٹ اکھٹے کرلئے جائیں تب بھی اس کے ووٹ زیادہ ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے بھی زیادہ۔
ملک بھرمیں تحریک لبیک چھٹے نمبرپرآئی ہے۔ اس طرح کی انتہا پسند مذہبی جماعتوں کو اقتدار دینے کے لئے نہیں بنایا جاتا۔۔ ان سے کسی کو بھی بلیک میل کرانے کے لئے پریشرگروپ کے طورپرہماری لمبرون استعمال کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کوقیامت تک کبھی اقتدار نہیں ملے گا۔۔ لیکن وہ اس کے لئے ہے ہی نہیں۔ اس کا فنکشن ہے کہ ملک میں پڑھے لکھے طبقے میں اسلامی بنیاد پرستی کو گھر کرنا۔۔ تاکہ بیوروکریسی ہو، تعلیمی ادارے ہوں، عدالتیں ہوں ، ہرجگہ 'اسلام اورنظریہ پاکستان' کے محافظوں کو فٹ کرنا۔۔تاکہ مجموعی طورپرپاکستانی ریاست اورسماج کا رح سیکولر اورلبرل ازم کی طرف نہ جاسکے۔۔ مذہبی جماعتیں اسٹیبلش منٹ کی بی ٹیم ہوتی ہے۔ یہ ان کے بیانئے کوزہنی اورنظریاتی سطح پر عوام میں پختہ کرتے رہتے ہیں۔
یہ بڑا بے وقوفانہ سوال یا خوش فہمی ہوتی ہے کہ پاکستان کے عوام نے کبھی مذہبی جماعتوں کو ووٹ دے کراقتدار میں نہیں لائے۔۔ ایسا سوچنا ہی غلط ہے۔ اگرمولوی برسراقتدار آ جائے گا، تو جنرلوں کی جگہ بھی کوئی نہ ہوگی۔ امیرالمومنین کے آگے توپھر کوئی نہیں ہوسکتا۔۔وہ سیدھا اللہ رسول کا نمائندہ ہوگا۔۔ جنرلوں کی بھی پین دی سری کردے گا۔ ان کا کام صرف جنرلوں کے راج کی نظریاتی رکھوالی رکھنا ہے اور پاکستانی ریاست کواسلامسٹ نظریئے میں بندھے رہنے دینا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“