ضروری ہے کہ امیر معاویہ کے بارے بھی فیکٹس شیٹ دیکھ لیں۔ ابو سفیان کے بیٹے تھے۔ معاویہ کی بہن حضرت ام حبیبہ رسول پاک کی زوجہ تھی۔ گویا معاویہ رسول پاک کے سالے تھے۔ یہ معاویہ ہی تھے جن کی قیادت میں دوردراز براعظموں میں اسلامی فتوحات ہوئی جس کے نتیجے میں (بنو امیہ خاندان کے تحت) پہلی عظیم اسلامی سلطنت قائم ہوئی۔ انہوں نے پہلی بار بزنطینی سلطنت کے مقابلے میں ایک بڑا بحری بیڑہ بنایا تھا۔ اس نوزائیدہ بحری بیڑے نےاپنے وقت کی سلطتنوں کو مصیبت میں ڈال دیا اور اسلامی سلطنت سپین، افریقہ، قسطنطنیہ تک پھیل گئی۔ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام کے بیٹے جنگجو، کمانڈرز تھے، جنگی مہموں اور سیاسی کشمکش اور خانہ جنگیوں میں سینئر صحابہ کرام (عمر، ابو بکر، عثمان، علی، ابو سفیان وغیرہ) کے بیٹوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر فرض کرلیں، کہ اقتدار کی جیت انٹی امیہ گروپ کے حق میں ہوجاتی، تو پھر امکانی طور پردنیا میں اسلامی عظیم سلطنت بھی وجود میں نہ آتی۔۔۔کیونکہ ان میں ایمپائر بنانے کی صلاحیت اور وژن بنو امیہ کےمقابلے جیسا دکھائی نہیں دیتا۔ اس بات کا تعین ہم ان کی سوچ، فکر اور پالیسیوں کو سامنے رکھ کرکرسکتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان جنگ جمل اور جنگ سفیان کی صورت خون ریز جنگیں ہو چکی تھی، جس میں ظاہر ہے دونوں طرف مسلمانوں کا خون ہی بہا۔ حضرت حسن مزید خون ریزی سے بچنے کے لئے ایک معاہدے کے تحت اقتدار کے حق سے دستبردار ہوگے۔ (ظاہر ہے اس کے بدلے ان کو بڑے مالی وظائف ملے)، (مجھے ابھی تک وہ معاہدہ پڑھنے کو نہیں ملا) کہتے ہیں، کہ اس میں معاویہ سے وعدہ لیا گیا تھا، کہ وہ اپنے بیٹے کو خلیفہ نامزد نہیں کرے گا۔۔ لیکن اقتدار میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔۔۔کہ اس طرح کے معاہدوں پر عمل ہو، آپ آج سعودیہ عرب کی مثال لے لیں۔ شاہ سلمان اور اس کا بیٹا اقتدار پر قبضہ کرچکا ہے۔ حالانکہ اقتدار کے بڑے شریک کار اور حق دار دوسرے بھائیوں کی اولادیں تھی۔ جن سب کو اقتدار کی راہداریوں سے چالاکی کے ساتھ نکال باہر کیا گیا ہے۔ ۔شاہ سلمان کو تو اتفاقیہ اقتدار ملا، کہ یک بعد دیگرے برادر بادشاہ فوت ہوتے گے۔ ولی عہد دوسرے بھائی کا بیٹا تھا، لیکن اسے مکھن سے بال کی طرح نکال باہرکیا۔ اور اپنے بیٹے کو ولی عہد بنا دیا۔ اقتدار کی جنگ میں اس طرح کے معائدے محض وقتی کمپرومائز ہوتا ہے۔ آخر صلح حدیبیہ بھی تو توڑ دیا گیا تھا۔۔ توجہیات بعد میں بنا لی جاتی ہیں۔ اصل شکل توازن طاقت متعین کرتا ہے۔ وہ کس کے حق میں ہے۔۔ اور وہ پھر پوری سفاکی سے دکھاتا ہے۔ پاکستان میں دیکھ لیں۔ فوج اور سویلین شراکت اقتدار کی لڑائی۔۔ کیا عمرانی معائدے (آئین) کی کبھی پاس داری کی گئی ہے؟۔۔سپریم کورٹ ،نیب سب قانون، اصول ، انصاف کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ الیکشن کے دن بدمعاشی کے ساتھ 4 لاکھ فوج اتار دینا۔۔۔ کہنے کا مطلب ہے اقتدار کی جنگ میں معاہدے اور شرافت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔۔لہذا جذباتی ہو کر اس کا ماتم نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ پاور گیم میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہوتی ہے۔
ابوسفیان کا سارا خاندان بشمول امیر معاویہ یہ آخری وقت فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ اس سے قبل ساری زندگی وہ رسول پاک کی مخالفت کرتے اور غزوات میں ان کے خلاف لڑتے رہے۔ اس پر اگرچہ حیرانی سی ہوتی ہے۔۔ لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا اسلام کے دائرے میں داخلہ خود رسول پاک ص نے نہ صرف قبول کیا بلکہ ان کو اس حد تک عزت و تکریم دی کہ خانہ کعبہ اور ابو سفیان کا گھر۔ دونوں امان کی برابر جگہ قرار دے دیئے گے۔۔۔ ! یہ عزت ساری زندگی ساتھ دینے والے کسی اور کو کیوں نہ ملی۔۔ اس کا مطلب ہے۔ یہ گھرانہ سیاسی لحاظ سے بہت اہم اور طاقت ور تھا۔۔۔ یہ اسی وقت واضح ہوگیا تھا، کہ آئیندہ اسلامی حکومت اور ریاست میں اس خاندان کی خصہ داری کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔۔ خلفائے راشدین کے دوران یہ خاندان اسلامی توسیع کی جنگوں میں برابر حصہ لیتا رہا۔ شہنشاہ ہرکولیس کے ساتھ جنگ یرموک میں خالد بن ولید اور ابو عبیدہ جیسے کمانڈروںکی قیادت میں دوسرے نمبر کی جنگی قیادت کے طور پر معاویہ ، اور کے بھائی اور دیگر خاندان کے افراد شامل رہے۔ معاویہ کو شام کا گورنر حضرت عمر فاروق رض نے ہی بنایا تھا۔۔ اس سے قبل معاویہ کا دوسرا بھائی شام کا گورنر تھا۔ معاویہ کی شادی بھی شام کے کرسچن خاندان میں ہوئی تھی۔۔اور اسی کا نتیجہ تھا کہ امیر معاویہ نے رومنوں کے خلاف جنگوں میں شامی کرسچن کمیونٹی کو بھی استعمال کیا۔ شام کی گورنری کے دوران معاویہ نے بہترین اسلامی فوج بنائی۔ مختلف قبائل سے قابل جنگجووں کو فوج میں اعلی عہدے دیئے۔ اس نے فوج کی تنخواہیں، فوج کا سازو سامان، فوج کی ٹرینگ اور ان کے آرام پر توجہ دی۔ اس نے ملڑی ٹیکنالوجی میں کئی جدتیں کی۔ توپ کی پہلی شکل 'منجیق' کا استعمال معاویہ دور کی ہی ایجاد ہے۔ اس نے بری فوج، صحرائی فوج، برف کے علاقے کی فوج، بحری فوج کے الگ الگ شعبے بنائے۔ اس نے مفتوحہ بزنطینی اور فارس سلطنتوں کے بنیادی ڈھانچے کو ویسا کا ویسا ہی رہنے دیا، تاکہ مقامی لوگوں کی بغاوتیں نہ ہوں۔ فلسطین ، شام، مصر، قبرض تک بحری بیڑوں کو بھیجا۔۔ اس نے ایک دفعہ مدینے میں تقریر کرتے کہا تھا۔ "میں عمر اور ابوبکر کے راستے پرچلنا چاہتا تھا۔ لیکن جو دولت اور فوائد دوسرے راستے پر تھے وہ پھر نہ ملتے۔۔ " معاویہ کا دور 20 سال رہا، اور اسلامی سلطنت مسلسل پھیلتی رہی۔ یہی سے استحکام کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے چند سالہ ہی حکومتیں رہتی تھی۔ اس کی ریاست کو فلاحی ریاست بھی کہا جاتا ہے۔ عوامی بہبود کا بھی وہ خاص خیال رکھتا تھا۔ چونکہ یہ خاندان ساری زندگی اسلام کے خلاف لڑتا رہا تھا اور آخری وقت پر ایمان لایا تھا۔ اس لئے بھی پرانے مسلمانوں میں ان کے بارے میں شکوک تھے۔ اس وقت کی عالمی طاقتوں کو چیلنج کرنا، ان کے ساتھ کامیاب مذاکرات اور ڈیلز کرنی اسے خاص مہارت تھی۔ اس کی ذاتی بہت بڑی لائبریری تھی، جس کا نام بیت الحکمہ تھا۔ جس میں آسٹرالوجی ، طب، ملڑی سائنس، کیمسٹری، اور دیگر علوم پر وسیع ذخیرہ کتب تھا۔
“