دورِحاضر میں معاشرتی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ کسی ریاست کے ریاستی قوانین کی پاسداری نہ کرنا ہے ۔ اس ضمن میں اسلامی ریاستیں بڑی آسانی سے اپنے معاشرے کی اصلاح کر سکتی ہیں گر وہ اسلامی شریعت کی پاسداری کریں ۔ ہمارا ملک اسلامی جہموری ملک کہلاتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حالات اس کے برعکس نظر آ رہے ہیں ۔ یہ درست کہ پاکستان عقیدہ ء توحید کے تحت وجود میں آیا مگر ہمارا وطن آج تک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست نہ بن پایا جس کی سب سے بڑی وجہ یہاں اسلامی شریعت کا نفاذ نہ ہونا ہے ۔ بدامنی ۔۔ انتشار ۔۔۔ بدنظمی اور دھوکہ دہی و فراڈ ہمارے معاشرے میں رچ بس گیا ہے اور اس معاشرتی بگاڑ میں عوام ، حکومت اور عدالت سب شامل ہیں اور ان برائیوں سے نجات کا واحد حل اسلامی شریعت کے مکمل نفاذ میں ہی ہے ۔ نفاذِ شریعت اب انتہائ ضروری امر ہو چلا ہے ۔ جب تلک یہ لاگو نہیں ہو گا ۔۔۔ لاتعداد معاشرتی مسائل مزید مسائل در مسائل کا سامنا ہوتا رہے گا ۔ کسی معاشرے کو متوازن رکھنے اور درست طور پر چلانے کے لیے ریاست حد و حدود یعنی قوانین بناتی ہے جس کی پاسداری کرنا ریاست کے ہر فرد کا فرض ہوتا ہے ۔۔ گر ریاست کا کوئ فرد ان قوانین کی پاسداری نہیں کرتا تو اس کے لیے ریاست کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ ایسے فرد کو ریاستی قانون کے مطابق سزا دے ۔ ایسے قوانین ہر ریاست میں رائج ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مزہب سے تعلق رکھتے ہوں ۔ اسلام دینِ فطرت ہے جس میں زندگی گزارنے کے مکمل اصول و ضوابط موجود ہے ۔ قرآن مجید مکمل ضابطہء حیات ہے جس میں زندگی کے تمام مسائل اور ان کے حل کرنے کے طریقے سمجھا دئیے گئے ہیں ۔ جرم و سزا سے متعلق بھی سب کچھ قرآن پاک میں درج ہے مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان اسلامی جمہوری ملک ہونے کے باوجود اپنے عدالتی نظام میں مکمل طور پر شرعی سزائیں لاگو نہیں کر پایا ہے ۔یہ شرعی سزائیں گر ہماری ریاست کے عدالتی نظام میں لاگو کر دی جائیں تو وہ دن دور نہیں ہو گا جب ہمارا ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا ۔ ہونا تو ایسا ہی چاہیے تھا ۔ مگر افسوس مکمل طور پر ایسا نہ ہو پایا جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ صحیح طور پر اسلامی معاشرہ نہیں بن پایا ۔ اس سلسلے میں بہت سی مثالیں ہم لے سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر پچھلے سال زینب نامی بچی کے قتل کا معاملہ سامنے آیا جس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔۔ اسی طرح حال ہی میں دس سالہ ننھی فرشتہ ایک جنونی شخص کے ظلم کی بھینٹ چڑھی ۔ گر ایسے جرم کے مرتکب ظالم شخص کو اسی اسلامی شریعت کے مطابق فوری سزا دے دی جائے اور اسے مقامِ عبرت بنا دیا جائے تو معاشرے کی اصلاح جلد بلکہ فوری ہو سکتی ہے ۔ اس ضمن میں ایک بہترین مثال ضیاءالحق کے دور میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب ایک ظالم شخص نے پپو نامی کم عمر بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر مارا ڈالا ۔ ۔۔. اس وقت کی حکومت نے فوری کاروائ کرتے ہوئے مجرم کو فوری سزا سنا ڈالی اور مجرم کو سرِعام پھانسی پہ چڑھا دیا گیا اور عبرت کا مقام بنانے کے لیے اس کی لاش تین دن تک لٹکائے رکھی گئ ۔ لاہور میں اپنی نوعیت کا یہ ایک انوکھا واقعہ تھا ۔ لوگوں نے اس سے عبرت حاصل کی اور لاہور میں 10 سال تک زنا با لجبر کا کوئ کیس رجسٹر نہ ہوا۔ اس مثال سے ثابت ہوا کہ گر ہر جرم کرنے والے کو فوری اس کے جرم کی سزا ریاستی قانون کے مطابق دے دی جائے تو معاشرے کو بگاڑ سے بچایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح گر عدالتی نظام مکمل طور پر اسلامی شریعت کے مطابق ڈھال دیا جائے تو کوئ بھی مجرم چاہے وہ عوام میں سے ہو یا حکومتِ وقت میں سے ہو قانون کی گرفت میں سے بچ ہی نہیں پائے گا ۔ اس طرح حکومتی مشینری اور عوام الناس اپنے اپنے حقوق و فرائض بجا طور پر انجام دینے کے پابند ہو جائیں گے اور جلد ہی ایک مثالی اسلامی معاشرے کی زندہ مثال بن جائیں گے ۔ کسی بھی اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے سب سے پہلے تو اسلامی روح کو سمجھنا ضروری ہے جس کے لیے عقیدے کی پختگی اور ایمان کی مضبوطی بنیادی شرط ہے اس کے بعد حقوق و فرائض کا سمجھنا اور ان پہ عمل پیرا ہونا لازمی امر ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمیں اشرف المخلوق اسی لیے بنایا ہے کہ ہم بحیثیتِ انسان عقل و شعور رکھتے ہیں نیز بحثیت مسلمان ہمیں قرآن و سنت کے ذریعے حد حدود کا بھی شعور دے دیا گیا ہے تاکہ ہم اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کآ خیال رکھیں اور اپنے فرائض سے غفلت نہ برتیں ۔ اس کے بعد اللہ نے قرآن پاک میں بڑی وضاحت کے ساتھ ان شرعی سزاوں کی نشاندہی کی ہے جو کہ کسی اسلامی معاشرے کی اصلاح اور اسے احسن طریقے سے چلانے کے لیے از حد ضروری ہیں ۔ ان سزاوں سے متعلق مکمل تفصیل کا معلوم ہونا ہر مسلمان شہری کا فرض ہونا چاہیے ۔
شریعتِ اسلامیہ میں جرائم کی سزاوں کی تین اقسام ہیں
١۔حد شرعی ٢۔قصاص ٣۔تعزیرات
حدِشرعی سے مراد ایسی اسلامی سزائیں ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہوئ ہوں ۔ یہ سزائیں ریاست کا حکمران یا ریاست کی عدالت راِئج کرتی ہیں لیکن ان سزاوں میں کمی بیشی کا حق نہ تو حاکم کو ہوتا ہے اور نہ ہی ریاست کی عدالت کو ہوتا ہے ۔
قصاص سے مراد ایسی سزا جس میں حقوق العباد غالب ہوتے ہیں ۔ اس میں سب سے بڑی مثال خون کا بدلہ خون ہے گر متاثرہ خاندان سے قاتل کے لواحقین بات کر کے قتل کے بدلے رقم یا جائداد مانگ لیں تو یہ حق مقتول کے گھر والوں کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ جو فیصلہ کرنا چاہیں کر سکتے ہیں ۔ قصاص میں کان کے بدلے کان کا کاٹنا ۔ہاتھ کے بدلے ہاتھ کا اور اسی طرح جسم کے کسی حصے کے بدلے اسی حصے کے کاٹنے کی سزا شامل ہے ۔ تعزیرات میں اسلامی حکومت کی عدالت کو کسی مصلحت کی بنا پر کسی مجرم کی سزا میں کمی بیشی کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ یاد رہے یہ حق فقط حکومتی عدالت کو حاصل ہوتا ہے ۔۔
شریعتِ اسلام میں حدود شرعی کی چھ اقسام ہیں ۔
١۔حدِحرابہ ۔۔۔ حدِحرابہ سے مراد ایسی سزائیں ہیں جو ان لوگوں کے لیے مخصوص کی جاتی ہیں جو معاشرے میں فساد اور بگاڑ کا باعث بنتے ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے جیسے دوسرے افراد کے حقوق چھین لیتے ہیں ۔ ان میں فردِ واحد بھی ہو سکتا ہے اور جماعت و گروہ بھی ہو سکتا ہے ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ " جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ سے لڑائ کرتے ہیں اور زمین پہ فساد مچاتے پھرتے ہیں ۔ انہیں قتل کر دیا جائے یا سولی پہ چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ پاوں مخالف سمت سے کاٹ دئیے جائیں یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔ اسی سزا کا اطلاق ان حکومتوں پہ بھی کیا جا سکتا ہے جو معاشرے اور ریاست کو تباہ و برباد کرنے کوشش کرتے ہیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے ۔
٢۔۔۔ حد سرقہ یعنی چوری کی سزا ۔۔ اس سزا کے لیے قرآن میں بہت سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔اسلامی شریعت میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے کہ " اور جو چوری کرے مرد و عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو ، یہ ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے اور خدا زبردست اور صاحبِ حکمت ہے ۔
٣۔۔۔ حدِ زنا ۔ اسلامی شریعت میں زنا ایک قبیح فعل ہے ۔ جس کی سزا سنگسار کرنا ہے ۔ سورت نساء آیت نمبر ١۵،١٦ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تمھاری عورتوں میں سے جو بے حیائ کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو اگر گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے یا اللہ ان کے لیے کوئ اور راستہ نکالے ۔ تم میں سے دو افراد گر ایسا کام کریں تو انہیں ایزا دو گر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے منہ پھیر لو ،بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے "۔ زنا مذہب اسلام میں قطعاً حرام وناجائز ہے خواہ زبردستی کیا جائے یا باہمی رضامندی سے، اور دونوں صورتوں میں زنا کی سزا حسب ثبوت وشرائط ۸۰/ کوڑے یا سنگسار ہے ۔
۴۔۔۔۔حدِ خمر یعنی نشہ کرنے کی سزا ۔۔۔ حضور پاک ؐ کا ارشاد ہے کہ " ہر نشہ آور چیز حرام ہے " .نشے کی حالت میں انسان اپنے ہوش و حواس پہ قابو نہیں پا سکتا ہے اور نتیجتاً بعض ایسے جرم بھی سرزد کر جاتا ہے جو باہوش و حواس وہ قطعاً کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔
۵۔۔ حدِ قزف یعنی جھوٹی تہمت لگانا ۔۔۔ کسی پر جھوٹی تہمت لگانا مطلب وہ غلط کام جو کسی فرد نے کیا نہ ہو مگر کوئ دوسرا فرد بغض میں جھوٹا الزام لگا دے کہ یہ غلط کام اسی فرد نے کیا ہے تہمت لگانا ہے ۔ جو شخص تہمت لگائے اسے چار گواہان اسلامی شریعت کے مطابق پیش کرنے ہوتے ہیں ۔ گر چار گواہ نہ لا سکے ایسا شخص تو عدالت اسے ١٠٠ کوڑوں کی سزا دینے کی پابند ہوتی ہے ۔
٦۔۔ حدِ ارتداد ۔۔ یعنی اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کی سزا ۔۔۔ یہ حد ایسے لوگوں پر عائد کی جاتی ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے روگردانی کرتے ہوئے پھر سے کافر بن جاتے ہیں ایسے شخص کو مرتد کہا جاتا ہے ۔
مرتد کے لیے حضور پاک ؐ نے فرمایا ہے کہ " جو مذہب تبدیل کرے ۔ اسے قتل کر دو " ۔
مرتد دو قسم کے ہوتے ہیں ایک فطری مرتد اور دوسرا ملی مرتد
فطری مرتد وہ ہوتا ہے جو پیدائشی طور پر مسلمان ہو اور ملی مرتد وہ ہوتا ہے جو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہے اور پھر کچھ وقت کے بعد کفر کی طرف واپس لوٹ آتا ہے ۔ یہ تمام شرعی سزائیں اگر ہمارے ملک میں رائج ہو جائیں اور ان پہ سختی سے عمل بھی کیا جائے تو ہمارا ملک ایک مثالی اسلامی ملک بن جائے گا اور ہماری موجودہ حکومتِ وقت کی خواہش کے مطابق ہمارا وطن ریاستِ مدینہ کی مانند بن جائے گا اور دنیا بھر میں امن کا گہوارہ بن کر ابھرے گا ۔
“