مقدمے کے دوران نچلی عدالت میں بھگت سنگھ سے پوچھا گیا کہ ’انقلاب‘ سے آپ کیا سمجھتے ہیں، اس کے جواب میں انھوں نے جو کچھ کہا اس کا ترجمہ ذیل میں پیش ہے:
(1)
”انقلاب قطعی ضروری نہیں کہ خوں ریزی کا پیش خیمہ ہو۔ نہ ہی اس میں کسی ذاتی چپقلش اور خاندانی عداوتوں کا حساب چکتا کرنے کی گنجائش ہے۔ یہ بموں اور پستولوں میں عقیدہ رکھنے کا نام بھی نہیں ہے۔ ”انقلاب“ سے ہم یہ معنی مراد لیتے ہیں کہ موجودہ نظام جس کی اساس ناانصافی پرقائم ہے، بہرصورت بدلنا چاہیے۔ کسان اور مزدور اس سماج کا سب سے اہم عنصر ہیں۔ اس کے باوجود استحصال کرنے والا طبقہ ان کی محنت پر ڈاکہ ڈالتا ہے، ان کو بنیادی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ کسان جو سب کے لیے اناج اگاتا ہے، اپنے خاندان کے ہمراہ بھوکوں مرتا ہے، بُنکر جو ساری دنیا کے بازار کو کپڑا فراہم کرتا ہے، اس کے پاس اپنا اور اپنے بچوں کا تن ڈھکنے تک کے لیے کپڑا نہیں ہوتا۔ معمار، لوہار، بڑھئی جو عالیشان محل تعمیر کرتے ہیں، اپنی جھونپڑ پٹّیوں میں اچھوتوں کی سی زندگی گزارتے ہیں۔ استحصال کرکے اور جونک کی مانند سماج کا خون چوس کر زندہ رہنے والے سرمایہ دار من مانیاں کرتے ہیں اور اپنی بے جا خواہشوں پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ یہ ہولناک عدم مساوات اور مواقع کی نابرابری جو ہم پر زبردستی مسلط کر دی گئی ہے، سماج میں سخت بدنظمی اور انتشار پیدا کرے گی۔ یہ صورتِ حال زیادہ دن برقرار نہیں رہ سکتی۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ عیش کوشی پر مبنی یہ موجودہ نظام آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔
تہذیب و تمدن کی اس شاندار عمارت کی اگر وقت رہتے حفاظت نہ کی جاسکی تو یہ دھڑدھڑا کر زمیں بوس ہوجائے گی۔ اسی لیے اس سماجی نظام میں، یکسر اور بنیادی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جو لوگ اس ضرورت کو محسوس کررہے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ سماج کی تنظیمِ نو اشتراکی بنیادوں پر کریں۔ جب تک یہ نہ ہوگا، جب تک آدمی کے ذریعے آدمی کے استحصال، قوموں کے ذریعے قوموں کے استحصال پر بندش نہیں لگے گی، تب تک ان مصیبتوں اور خوں ریزیوں کا خاتمہ نہیں ہوگا جن سے انسانیت آج دوچار ہے۔ جنگ بندی کی تمام باتیں اور امنِ عالم کے قیام کے ساتھ ایک نئے عہد میں داخلے کی باتیں نری منافقت اور کھلاڈھکوسلا ہیں۔
”انقلاب“ سے ہماری مراد ہے ایسے سماجی نظام کا قیام جسے انتشار کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، جس میں پرولتاریہ کی حاکمیت اور اقتدار (Sovereignty) کو تسلیم کیا جائے گا اور ایک عالمی وفاق کے ذریعے عالمِ انسانیت کو سرمایہ داری اور سامراجی جنگوں کے پنجے سے نجات دلائی جائے گی۔ یہی ہمارا نصب العین ہے اور یہی آئیڈیولوجی ہماری تحریک کا باعث ہے جس کے لیے ہم نے خاصی ایمان داری اور ذمّے داری کے ساتھ اعلانِ جنگ بھی کر دیا ہے۔
اس کے باوجود اگر ہماری بات نہیں سنی جاتی اور موجودہ سیاسی نظام ان فطری قوّتوں کے لیے سدِّراہ بنتا ہے جو تیزی سے پھیل رہی ہیں، تو پھر ایک شدید قسم کی جدوجہد زیادہ دور نہیں جس میں سبھی رکاوٹوں کو ہٹا دیا جائے گا اور پرولتاریہ ڈکٹیٹرشپ انقلاب کے نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے قائم کر دی جائے گی۔
انقلاب عالمِ انسانیت کا ایسا حق ہے جسے انسانیت سے کسی صورت میں جدا نہیں کیاجاسکتا۔ آزادی سبھی لوگوں کا ایسا پیدائشی حق ہے جس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ محنت ہی واحد ذریعہ ہے جو سماج کو سہارا دے گی، اسے زندہ رکھے گی۔ عوام کی حاکمیت اقتدارِ اعلا محنت کشوں کا مقدّر ہے جو انھیں حاصل ہوکر ہی رہے گا۔
ان مقاصد کے لیے، اپنے اس عقیدے کے لیے ہم ہر قسم کی مصیبتوں کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ انقلاب کی قرباں گاہ پر ہم اپنی جوانیوں کی قربانی پیش کرنے آئے ہیں، کیوں کہ کسی بھی قسم کی قربانی اس عظیم نصب العین کے سامنے
کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہم مطمئن ہیں اور ہمیں انقلاب کی آمد کا انتظار ہے۔ انقلاب زندہ باد۔
بھگت سنگھ اور بی کے دت کی طرف سے یہ بیان عدالت میں آصف علی نے 6جون 1929 کو پڑھ کر سنایا)
(2)
لفظ ”انقلاب“ کی تشریح اس کے لغوی معنوں میں نہیں کی جانی چاہیے۔ اس لفظ کے ساتھ کئی قسم کی معنویتیں اور اہمیتیں وابستہ ہیں، خصوصاً ان لوگوں کی نظر میں جو اس لفظ کا صحیح یا غلط استعمال کرتے ہیں۔ استحصال کرنے والی جمی جمائی ایجنسیوں کے یہاں انقلاب کا لفظ خونچکاں حکایتوں کے ہولناک محسوسات کو انگیختہ کرتا ہے لیکن انقلابیوں کے لیے یہ ایک بہت ہی پاک لفظ ہے۔ اسمبلی بم کیس میں دہلی کے سیشن جج کے سامنے اپنے بیان میں ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ لفظ ”انقلاب“ سے ہم کیا معنی مراد لیتے ہیں۔
ہم نے اس بیان میں کہا تھا کہ انقلاب ضروری نہیں کہ خوں ریزی کی داستان سے عبارت ہو، نہ ہی یہ پستول اور بم میں عقیدے کا نام ہے۔ البتہ یہ چیزیں کبھی کسی انقلاب کے حصول کا ذریعہ ضرور بن سکتی ہیں۔ بلاشبہ کچھ تحریکوں میں ان کا رول بہت اہم ہوتا ہے لیکن صرف اسی افادیت کے سبب وہ انقلاب کی ہم معنی یا متبادل نہیں ہوجاتیں۔ بغاوت، انقلاب نہیں ہے، لیکن بغاوت انقلاب کا ذریعہ ضرور بن سکتی ہے۔
لفظ ”انقلاب“ کا استعمال جب ہم کرتے ہیں تو اس میں پنہاں جو روح ہے وہ ہے بہتر مستقبل کے لیے بنیادی تبدیلی کی شدید خواہش کی۔ لوگ عام طور سے حالتِ موجودہ (Status quo)کے عادی ہوجاتے ہیں اور تبدیلی کے خیال سے ہی وہ کانپنے لگتے ہیں۔ لوگوں کی اس سست گامی کو بدلنا اور ان میں انقلابی روح پھونکنا بے حد ضروری ہے، بہ صورتِ دیگر تنزل ان کا مقدر ہوجاتا ہے اور رجعت پسند قوتیں انسانیت کو گمراہ کر دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں انسانی ارتقا جمود اور لقوے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی لیے انقلاب کا ولولہ ہمیشہ انسانیت کی روح میں سرایت کیے رہے، یہ ضروری ہے تاکہ رجعت پسند قوتیں اتنی طاقت ور نہ ہوجائیں کہ وہ انقلاب کی رفتار کو روک دیں۔ پرانا نظام، نئے نظام کے حق میں ہمیشہ اور ہمیشہ کے لیے بدلنا چاہیے، تاکہ کوئی ”اچھا“ سماجی نظام دنیا کو آلودہ اور برباد نہ کردے۔ اسی فہم کے ساتھ ہمارا نعرہ ہے، انقلاب زندہ باد۔
(ماڈرن ریویو کو بھیجے گئے بھگت سنگھ کے ایک خط سے اقتباس۔ اس میگزین نے انقلاب زندہ باد کے نعرے کی تضحیک کرنے کی کوشش کی تھی۔ بعد میں یہ خط The Tribune میں 24دسمبر 1929 کو شائع ہوا۔)
(3)
ایک آدمی مارا گیا، اس کا ہمیں افسوس ہے۔ لیکن اس شخص کے ساتھ ہی ایک ایسے ادارے کے نمائندے کا خاتمہ ہوا ہے جو بے رحم اور اتنا رذیل ہے کہ اس کا خاتمہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اس شخص کے روپ میں ہندستان میں برٹش حاکموں کا ایک ایجنٹ مارا گیا۔ اس حکومت کا ایجنٹ جو دنیا کی ساری حکومتوں میں سب سے زیادہ مطلق العنان اور جابر ہے۔
ایک آدمی کے خون کے زیاں کا ہمیں افسوس ہے۔ لیکن انقلاب کی قربان گاہ پر ایسی انفرادی قربانیاں بے حد ضروری ہیں جن کے سبب سب کو آزادی ملے گی اورجن کے سبب آدمی کا آدمی کے ذریعے استحصال ختم ہوجائے گا- انقلاب زندہ باد۔
۔ (”بیوروکریسی !ہوشیار باش“ (Beware Ye Bureaucracy) کے عنوان سے لکھے ایک دستی اشتہار (Leaflet) سے اقتباس جو 18-19دسمبر 1928 کی رات میں لاہور کی بہت سی سڑکوں پر جے پی سانڈرس کے قتل کے بعد چسپاں کیا گیا۔ لیف لیٹ پر ’بلراج‘ کے دستخط تھے جس کے نیچے ”کمانڈرانِ چیف آف "HSRA درج تھا۔ یہ پمفلٹ بھگت سنگھ نے لکھا تھا۔ سانڈرس نے اینٹی سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں لالہ لاجپت راے شہید ہوگئے تھے۔)
(4)
عوامی نمائندے اپنے اپنے حلقوں میں واپس لوٹیں اور عوام کو آنے والے انقلاب کے لیے تیا رکریں؛ اور مطلق العنان سامراج کو یہ بتا دیں کہ ہم حفاظتِ عامہ (Public Safety) اور تجارت کے نزاعی بِلوں (Traders Disputes Bills) کے خلاف اور لالہ لاجپت راے کے بے رحمانہ قتل کے خلاف ہندستانی عوام کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے اس تاریخی سچائی پر زور دیتے ہیں کہ آپ فردِ واحد کاقتل کرسکتے ہیں لیکن آپ تصورات کا قتل نہیں کرسکتے، نصب العین کو نہیں مار سکتے۔ عظیم سلطنتیں مٹ گئیں لیکن تصورات زندہ رہے، بور بونوں اور ژاروں کا زوال ہوا لیکن انقلاب فتح و نصرت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔
ہمیں افسوس ہے کہ ہمیں انسانی خون سے ہاتھ رنگنا پڑے، اس کے باوجود کہ ہم انسانی زندگی کو سب سے محترم گردانتے ہیں، اس کے تابناک مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں جس میں ہر طرف امن و آشتی ہوگی، ہر شخص پوری طرح آزاد ہوگا۔ ان تصورات کے امین ہونے کے باوجود ہمیں خون بہانا پڑا اس کا افسوس ہے ۔صد افسوس! لیکن عظیم انقلاب کی قربان گاہ پر یہ انفرادی قربانی سبھی کے لیے آزادی کا پروانہ ثابت ہوگی۔ آدمی کے ذریعے آدمی کا استحصال اب ناممکن ہوجائے گا۔ ایسا ہوگا اور ضرور ہوگا-انقلاب پائندہ باد!!
(دستی اشتہار ”بہروں کو سنانے کے لیے“ (To make the Deaf Hear ) سے اقتباس۔ 8اپریل 1929 کو سینٹرل اسمبلی میں بم دھماکا کرنے کے بعدبھگت سنگھ اور بٹوکیشور دتّ نے یہ لیف لِٹ اسمبلی میں پھینکا تھا۔ اس پر بھی ”بلراج“ کے دستحظ تھے اور متن بھگت سنگھ کا تھا)۔
(5)
ہمیں یقین ہے کہ ہندستان کا برٹش راج اور اس جیسی سبھی حکومتیں جو ہندستان جیسے بے سہارا ملکوں پر تھوپ دی گئی ہیں، ڈاکووں کے منظم گروہ سے کسی طرح کم نہیں۔ عوام کا استحصال کرنے والے یہ گروہ خوں ریزی اور تباہی کے ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ نظم و ضبط کے نام پر یہ ہراس آواز کا گلا دبا دیتے ہیں جو ان کو للکارتی ہے، ان کے کالے کرتوتوں پر سے پردہ اٹھانے کی جرات کرتی ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ سامراجی نظام لوٹ اور غارت گری کے لیے بنائی گئی ایک منظم سازش کا نام ہے۔ سامراجیت انسان کے ذریعے انسانوں کے استحصال، قوموں کے ذریعے قوموں کے عیارانہ استحصال کا آخری پڑاو ہے۔ سامراجی قوتیں اپنے ذلیل مقاصد کو پورا کرنے کے لیے نہ صرف عدلیہ کے ذریعے قتل و غارت کرتی ہیں بلکہ وہ بڑے پیمانے پر خونِ ناحق، غارت گری اور جنگ جیسے خوفناک جرائم کی مرتکب ہوتی ہیں۔ ایسے معصوم اور نہتھّے لوگوں پر گولیاں برسانے میں ان کو کوئی عار نہیں جو ان کے استحصال اور غارت گری کے مقاصد کے آگے جھُکنے سے انکار کر دیتے ہیں۔نظم و ضابطے کے ٹھیکے دار بن کر سامراجی قوتیں امن و آشتی کا خاتمہ کرتی ہیں، معصوم لوگوں کا قتل کرتی ہیں اور ایسے سبھی جرائم ان کے لیے جائز ہوتے ہیں جو تصورِ انسانی میں آسکتے ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ آزادی ہر شخص کا حق ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی محنت کا پھل کھانے کا حق ہے، اور یہ کہ ہر قوم اپنے پیداواری ذرائع کی بلاشرکتِ غیرے مالک ہوتی ہے۔ اگر کوئی حکومت لوگوں کو ان بنیادی حقوق سے محروم کرتی ہے تو عوام کو حق ہے بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسی جابر حکومت کا خاتمہ کر دیں۔ کیوں کہ برٹش حکومت ان اصولوں اور مقاصد کی انکاری ہے جن کے ہم حامی ہیں اس لیے یہ ہمارا پختہ عہد ہے کہ ہم مکمل انقلاب لانے اور اس حکومت کو ختم کرنے کی اپنی کوششوں میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے، اور ایسا کرنا اخلاقی طور پرغلط بھی نہ ہوگا۔ ہم بدلاو کے حامی ہیں۔ ہم موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے متبادل نظام کی حمایت کرتے ہیں جس میں کوئی شخص کسی کا استحصال نہ کرسکے گا اور ہر شخص کو اپنے تمام ترشعبہ ہاے زندگی میں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر یہ نظام نہیں بدلے گا، اگر اس کی جگہ اشتراکی سماج وجود میں نہیں آئے گا، تو تمام دنیا کو تباہ کن صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جہاں تک انقلاب کے حصول کے لیے اختیار کی جانے والی حکمتِ عملی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ہمارا اعلان یہ ہے کہ برسرِاقتدار لوگ اس کا فیصلہ کریں کہ وہ پُرامن تبدیلی چاہتے ہیں یا خوں ریز۔ اپنے بے لوث مقاصد کی بنا پر انقلابی امن پسند ہوتے ہیں- سچے، برحق اور ایک ایسے مستقل امن کے حامی جس کی بنیاد انصاف اور مساوات پر ہو، باطل اور پُرفریب امن نہیں جس کی بنیاد بزدلی اور نیزے کی نوک پر اٹھائی گئی ہو۔ اگر انقلابی اپنے ہاتھ میں ہتھیار اٹھاتا ہے تو وہ ایسا ضرورت کے تحت بہ حالتِ مجبوری کرتا ہے۔
ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ”قانون اور ضابطے انسانوں کے لیے بنے ہیں، نہ کہ ضابطوں اور قانونوں کے لیے انسان۔“ قانون کا احترام تبھی تک ممکن ہے جب تک وہ عوامی ذہن کا ذریعہ¿ اظہار بنا رہے۔ اگر قانون استحصال کرنے والے طبقے کے ہاتھ کا کھلونا بن جاتا ہے تو اس کی حرمت و اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ انصاف کا بنیادی اور پہلا اصول ہر قسم کے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھنا ہے۔ جیسے ہی قانون اور سماجی ضرورتوں میں مطابقت اور ہم آہنگی کا رشتہ ختم ہوتا ہے، ویسے ہی وہ ناانصافی اور استبداد کے ارتکاب کا موجب بن جاتا ہے۔ ایسے قانون کا نفاذ بے معنی ہے یہ عمومی مفادات کے خلاف اور شخصی مفادات کے منافقانہ اظہار کے سواکچھ اور نہیں رہتا۔
(بلا حمایتی ملزم (Undefended Accused) کے عنوان سے ایک بیان کا متن۔ 30مئی 1930 کو برٹش حکومت کے اس خصوصی ٹریبیونل کے سامنے یہ بیان دیا گیا جو دوسرے لاہور سازش کیس کے سلسلے میں قائم کیا گیا تھا۔ اس بیان پر جے این سانیال، مہندر سنگھ، بی کے دتّ، ڈاکٹر گیا پرساد اور کندن لال کے دستخط تھے۔ اس کا ڈرافٹ بھی بھگت سنگھ نے تیار کیا تھا۔)
(6)
میں کہہ چکا ہوں کہ موجودہ جدوجہد (کانگریس کی) ہر صورت میں یا تو مفاہمت پر ختم ہوجائے گی یا اسے مکمل ناکامی نصیب ہوگی۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ جدوجہدِ آزادی کے اس اکھاڑے میں حقیقی انقلابی قوتوں کو اترنے سے روک دیا گیا ہے۔
اس جدوجہد کی ساری بنیادیں متوسط طبقے کے دوکانداروں اور چند سرمایہ داروں کے مفادات پر کھڑی ہیں۔ یہ دونوں ہی، خصوصاً آخرالذکر کسی بھی قسم کی جدوجہد میں اپنے اثاثے اور سرمایے کو گنوانے کا خطرہ کبھی مول نہیں لیں گے۔ انقلاب کے حقیقی مردِ میداں ہمارے دیہاتوں کے کسان اور فیکٹریوں کے مزدور ہیں لیکن ہمارے بورژوا لیڈر نہ تو ان کو منظم کرتے ہیں اور نہ ایسا کرنے کا ان میں بوتا ہی ہے۔ سوتے ہوئے شیر کو اگر جگا دیا گیا تو پھر وہ قابو سے باہر ہوجائے گا۔ احمد آباد میں مزدوروں کے تعلق سے پیش آنے والے اپنے تجربے کے بارے میں مہاتما گاندھی نے 1920 میں کہا تھا: ”ہمیں مزدوروں کو نہیں چھیڑنا چاہیے۔ فیکٹری پرولتاریہ کو سیاست میں استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں۔“ (دی ٹائم، مئی (1921 ۔ تب سے اب تک انھوں نے مزدوروں سے مخاطب ہونے کی ہمّت کبھی نہیں جُٹائی۔ اب رہی کسانوں کی بات۔ 1922 کی بردولی کی قرارداد میں بالکل واضح طورپر اس خوف و ہراس کا ذکر ہے جو سیاسی لیڈروں نے اس وقت محسوس کیا جب انھوں نے کسان طبقے کے جنّاتی وجود کو نہ صرف ایک اجنبی قوم کے اقتدار سے چھٹکارا حاصل کرنے پر آمادہ دیکھا بلکہ زمین داروں کے لادے ہوئے جُوے کو اتار پھینکنے کے لیے بھی کمربستہ دیکھا۔
اور یہی بنیادی نکتہ ہے کہ ہمارے لیڈروں کو کسانوں کے آگے جھکنے کی بہ نسبت برٹش حکومت کے آگے جھکنا پسند ہے۔ پنڈت نہرو کی بات تو جانے دیں، کیا آپ کسی ایک بھی ایسے لیڈر کا نام لے سکتے ہیں جس نے کبھی بھی کوئی کوشش کسانوں یا مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے کی ہو؟ نہیں، وہ آخر ایسا خطرہ کیوں مول لیں؟ یہی ان کی کمزوری ہے۔ اسی سبب سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ مکمل انقلاب کے حامی نہیں ہیں۔ ان کا مقصد معاشی اور انتظامی امور کے سلسلے میں حکومت پر دباو بڑھا کر ہندستانی سرمایہ داروں کے حق میں چند اصلاحات اور چند مراعات حاصل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہی سبب ہے کہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ تحریک مرجائے گی- شاید کوئی مفاہمت کرکے یا پھر اس کے بغیر ہی ختم ہوجائے گی۔ یہ نوجوان کارکن جو پورے اعتماد کے ساتھ انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، ابھی اتنے منظم اور مستحکم نہیں ہیں کہ وہ خود اپنے بوتے پر تحریک کو آگے بڑھائیں۔ سچائی یہ ہے کہ ہمارے سب سے بڑے لیڈر تک بھی، شاید پنڈت موتی لال نہرو اس سے مستثنیٰ ہیں، اپنے کاندھوں پر کسی قسم کی ذمّے داری لینے کو آمادہ نہیں، اور اسی وجہ سے آئے دن وہ گاندھی کے آگے ہتھیار ڈالتے رہتے ہیں۔ گاندھی کے ساتھ اختلافِ راے کے باوجود وہ اس کی حکمتِ عملی کی کبھی سنجیدگی سے مخالفت نہیں کرتے اور یوں قرار دادیں گاندھی کے حق میں منظور ہوتی رہتی ہیں۔
ایسے حالات میں میں ان سنجیدہ نوجوان کارکنوں کو آگاہ کرتا ہوں جو انقلاب لانے میں یقین رکھتے ہیں کہ آگے آنے والا وقتان کے لیے مشکل تر ہے۔ وہ خبردارر ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان حالات سے ان کے حوصلے پست ہوجائیں یا پھر وہ بے سمتی کا شکار ہوجائیں۔
عظیم گاندھی کی دو تحریکوں کے تجربے نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے اور اب ہم زیادہ بہتر طور سے اپنے موجودہ حالات اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں غوروفکر کرسکتے ہیں۔
اب میں اس ساری بحث کو آسان ترین الفاظ میں سمیٹتا ہوں۔ آپ انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ چلیے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ آپ حقیقتاً انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ ہمارے عقیدے کے مطابق لفظ انقلاب کے معنی ہیں موجودہ سماجی نظام کو مکمل طور پر بدل کر اشتراکی سماجی نظام قائم کرنا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہماری فوری ضرورت اقتدار کا حصول ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اسٹیٹ گورنمنٹ مشینری برسرِاقتدار طبقے کے مفادات کے تحفظ کا آلہ کار ہے۔ ہمیں اقتدار کے اس ہتھیار پر قبضہ کرنا ہے تاکہ اس کے ذریعے ہم اپنے نصب العین کو حاصل کرسکیں۔ ہمارا نصب العین ہے مارکسی بنیاد پر نئے سماجی ڈھانچے کی تشکیل۔ اسی مقصد کے لیے ہم گورنمنٹ مشینری پر قابو پانے کی جنگ کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عام لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانا اور اپنی سماجی حکمتِ عملی کے لیے حالات کو سازگار کرنا ہے۔اسی جدوجہد کے ذریعے ہم عام لوگوں کو تعلیم بھی دے سکتے ہیں اور ان کی تربیت بھی کرسکتے ہیں۔
لیکن اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ آپ کسانوں اور مزدوروں کی مستعد حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس جائیں گے، تو پھر یہ جان رکھیے کہ جذباتی تقریروں سے آپ انھیں بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ وہ آپ سے صاف صاف پوچھیں گے: آپ کے اس انقلاب سے ہمیں کیا فائدہ ہونے والا ہے جس کے لیے آپ ہم سے قربانی دینے کی بات کہہ رہے ہیں؟ اس سے ہم پر کیا فرق پڑے گا کہ حکومتِ ہند کا سربراہ لارڈ ریڈنگ ہے یا سرپروشوتّم داس ٹھاکر داس؟ کسان کے حالات میں کون سی تبدیلی آجائے گی اگر لارڈ اِروِن کی جگہ سرتیج بہادر سپرو بیٹھے ہوں؟ کسان کے قومی جذبے کو ابھارنے کی کوشش بے کار ہی ثابت ہوگی۔ آپ اسے اپنے مقاصد کے حصول کا ”ذریعہ“ نہیں بنا سکتے۔ آپ کو حقیقی انقلاب کے بارے میں سوچنا ہی پڑے گا اور تب کسان کو سمجھانا ہوگا کہ یہ انقلاب کسانوں مزدوروں کے لیے اور ان کے مفاد میں ہوگا۔ انقلاب پرولتاریہ کاہے، پرولتاریہ کے لیے ہے۔
جب آپ اپنے نصب العین کے خطوط بالکل واضح طور پر کھینچ چکیں تبھی آپ پوری قوت کے ساتھ میدانِ عمل میں اتریں، اپنی ان انقلابی قوتوں کو مجتمع اور منظم کرکے ایکشن کے لیے تیار کریں۔ اس موقعے پر آپ کو دو مختلف طرح کی صورتِ حالات کا سامنا کرنا پڑے گا: پہلی صورتِ حال کا نام ہے ”تیاری“ اور دوسری ہے ”عمل آوری“۔
موجودہ تحریک کے خاتمے کے بعد آپ سنجید ہ انقلابی کارکنوں میں یاسیت اور غم و غصے کی کیفیت محسوس کریں گے۔ اس سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اس جذباتیت پسندی کو گولی ماریں اور حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ انقلاب ایک بہت ہی دشوار گزار راہ ہے۔ انقلاب لانا کسی ایک شخص کے بس میں نہیں۔ نہ ہی کسی طے شدہ تاریخ میں انقلاب کو لاکر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ انقلاب کو تو مخصوص سماجی اور معاشی حالات کے نتیجے میں آنا ہے۔ ایک منظم سیاسی جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ ان مخصوص حالات میں کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور اس کا استعمال اپنے نصب العین کے حصول کے لیے کرے۔ عوام کو انقلاب کے لیے تیار کرنے اور انقلابی قوتوں کو منظم کرنے کا یہ کام بے حد دشوار گزار ہے۔ یہ کام انقلابی کارکنوں سے عظیم قربانیوں کی مانگ کرتا ہے۔ یہ بات بالکل صاف صاف طور پر آپ سے کہہ دوں کہ اگر آپ تاجر ہیں، اگر آپ دنیاداری میں یقین رکھتے ہیں یا پھر آپ کے پیچھے آپ کا خاندان ہے تو پھر مہربانی کرکے آگ سے نہ کھیلیں۔ لیڈر کے طور پر آپ صرف اور صرف پارٹی کے لیے ہیں۔ ہمارے پاس پہلے ہی ایسے بہت سے لیڈر ہیں جو اپنی شاموں کے چند گھنٹے تقریر بازی میں گزارنے کے لیے قربان کرتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے، مجھے لینن کی محبوب ترین اصطلاح استعمال کرنے دیں، ”پروفیشنل انقلابیوں“ کی۔ ایسے کُل وقتی کارکنوں کی جن کو زندگی میں انقلاب کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں، کوئی دوسری تمنّا نہیں۔ آپ کی تنظیم میں جتنے زیادہ ایسے کارکن ہوں گے اسی تناسب سے کامیابی کی شرحِ امّید بڑھ جائے گی۔منظم طریقے سے کام کرنے کے لیے ہمارے لیے سب سے زیادہ ضرورت ایسی جماعت کے قیام کی ہے جس میں مذکورہ بالا خصوصیتوں کے حامل کارکن ہوں، تصورات و مقاصد بالکل واضح ہوں، جن کی قوتِ ارادی اورقوتِ فیصلہ بصیرت افروز ہو۔ اس جماعت کے ضوابط لوہے کی طرح سخت ہوں گے اور یہ بالکل ضروری نہیں کہ وہ انڈرگراو¿نڈ پارٹی بنے، بلکہ ضروری یہ ہے کہ یہ اس کی ضد ہو۔ رضاکارانہ طور پر جیل جانے کی حکمتِ عملی کو یکسر ترک کر دینا ہوگا۔ ایسا کرنے سے ایسے بہت سے کارکن سامنے آجائیں گے جن کو انڈرگراو¿نڈ زندگی جینے کے لیے مجبور کردیا گیا ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھیں۔ کارکنوں کے اسی گروہ میں سے وہ قابل لیڈر پیدا ہوں گے جو حقیقی مواقع کا بروقت استعمال کریں گے۔
(2 فروری 1931 کو نوجوان سیاسی کارکن کے نام لکھے گئے ایک خط سے اقتباس۔ یہ خط اس موقع پر تحریر کیا گیا جب انڈین نیشنل کانگریس برٹش حکومت کے ساتھ بات چیت کررہی تھی۔ 23مارچ 1931 کو بھگت سنگھ، سُکھ دیو اور راج گرو کی پھانسی کے بعد یہ خط کئی رسالوں اور اخباروں میں شائع تو ہوا لیکن کتربیونت کے بعد۔ اس میں سے مارکس، لینن، سوویت یونین اور کمیونسٹ پارٹی سے متعلق اندراجات حذف کر دیے گئے تھے۔ بھگت سنگھ کے ساتھی کامریڈ شِوورما نے اس خط کی کاپی تلاش کی۔)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“