پشاور (پھولوں کا شہر)
پشاور پہنچا تو صفی سرحدی نے 40 سینٹی گریڈ گرمی میں جلیل کبابی کے ہاں چپلی کباب کھانے کی دعوت دی۔ میں نے پوچھا کہ صفی بھائی وہاں سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کتنے فاصلے پر ہے۔ پوچھا کیوں؟ جواب دیا تاکہ دعوت کے بعد مجھے ایڈمٹ کرنے میں آسانی ہو۔
وسیم خٹک کا فون آیا کہ لالہ رنگ روڈ پر کڑاہی کھانی ہے۔ میری طرف سے دعوت ہے۔ میں نے خوشی خوشی صفی کو بھی دعوت دی۔
ٹیکسی پکڑی اور رنگ روڈ کی طرف رواں دواں ہوگیا۔ آدھے رستے میں مجھے ٹیکسی ڈرائیور پر کچھ شک گزرا اور اپنے ہولسٹر پر ہاتھ رکھ دیا۔ مہران گاڑی کو وہ ٹوٹے پوٹے سڑکوں پر لینڈ کروزر کی طرح بھگا رہا تھا۔ اعتراض مجھے اس کی گاڑی بھگانے پر نہیں تھا۔کیونکہ گاڑی اس کی اپنی تھی۔ اعتراض مجھے خود پر تھا کہ میں شلوار قمیض میں بغیر انڈر ویئر کے بیٹھا تھا اور گرمی بھی کمال کی تھی سو ناہموار سڑک اور بیچ سڑک گہرے گڑھے میرے آلات حرب وضرب کو شدید متاثر کررہے تھے۔جب چوٹیں ناقابل برداشت ہوگئیں تو میں نے سسکتے ہوئے ڈرائیور سے پوچھا بھائی کون سا نشہ کیا ہوا ہے؟ مسکراتے ہوئے اس نے فورا کہا سر آئس پی ہے تاکہ جم کر بچوں کیلئے مزدوری کرسکوں۔
رنگ روڈ کے مطلوبہ ریسٹورانٹ پہنچا اور ایک جگہ براجمان ہوا۔ الحمداللہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد وسیم خٹک آئے اور ڈھائی گھنٹے بعد صفی سرحدی تشریف لائے۔
وسیم خٹک سرحد یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں مگر چار گھنٹوں میں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ پڑھاتے کیا ہیں اور لوگ ان سے پڑھتے کیوں ہیں۔ بقول صفی سرحدی کے آج تک پڑھنے والوں اور پڑھانے والے کو خود نہیں معلوم کہ جو وہ پڑھاتے ہیں یا پڑھتے ہیں۔ انہیں پڑھنا پڑھانا بھی کہا جاتا ہے۔ لہذا ہم نے بھی پوچھنا چھوڑ دیا کہ پڑھائی کس بلا کا نام ہے۔
وسیم بھائی پیدائشی جرنلسٹ ہے۔ بقول صائمہ ملک کے کہ وسیم کو کپڑے کا کام کرنا چاہیئے اور انھیں لکھنے کا۔ ملاقات کے بعد میں واقعی اس بات کا قائل ہوگیا کہ دونوں کو ایک دوسرے کے مشوروں پر عمل کر ہی لینا چاہیئے۔
وسیم خٹک کے بقول کہ اس نے آج تک کسی لڑکی کو غلط نظر سے نہیں دیکھا۔ یہ کہہ کر وہ ستائشی نظروں سے حاضرین کو دیکھنے لگے۔ بالآخر میں نے جواب دیا کہ واقعی ایسے مرد کو پہلی فرصت میں کسی اچھے سے ڈاکٹر سے رجوع کرلینا چاہیئے۔ کیونکہ ایسے مرد کیلئے پشتو میں ایک بہت ہی برا لفظ ہے۔
صفی سرحدی فلموں کے بڑے شوقین ہیں۔ بلکہ ہندوستانی سنیما کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ وسیم خٹک کہتے ہیں جتنا وقت صفی نے چترالی میگزین پر صرف کیا ہے۔ اس کی دس فیصد توجہ پڑھائی دیتئ تو اج کسی پولیس تھانے کا ہیڈ محرر ہوتے۔ صفی نے مجھ سے میرے پسندیدہ اداکار کا پوچھا تو بتایا کہ اداکاراوں میں منداکنی مجھے بہت پسند ہے۔ صفی نے فرط جذبات سے کہا واہ کیا اداکارہ تھی۔ کلاسیکل فلموں کیلئے قدرت کیطرف سے بالی سنیما کیلئے عطیہ خداوندی تھی۔ وہ کمرشل فلموں کی بھی اشد ضرورت تھی۔ مجھ سے پوچھا کہ کون سی فلم میں سب سے زیادہ اس کی اداکاری نے مجھے متاثر کیا؟ جواب دیا کہ "رام تیری گنگا میلی" میں مجھے اس کا بچے کو دودھ پلانے والا سین بہت متاثر کرچکا ہے۔ صفی بھائی کا منہ بن گیا۔ صفی سرحدی نے سیاست پر بڑی جامع گفتگو کی اور بالآخر منظور پشتین پر آکر وہ شدید جذباتی ہوگئے۔ کہنے لگا کہ منظور پشتین پشتونوں کی آخری امید ہے۔ اور لوگوں کو اسے ہر صورت سپورٹ کرنا چاہیئے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ اس کاز کیلئے قربانی دے سکتے ہو؟ کہنے لگا بالکل دے سکتا ہوں۔ آدھے گھنٹے کے بعد صفی سرحدی نے پی ٹی ایم پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اب پی ٹی ایم کو ان سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہوگا کیونکہ فوج ہماری اپنی ہے اور دہشت گردی کی اس جنگ میں عوام سے زیادہ فوج نے زیادہ قربانیاں دیں ہیں۔
کھانا لگا اور میں نے نہیں کھایا کیونکہ تھال کے بیچ برائل مرغی میرا منہ چڑا رہی تھی۔ وسیم کو بتایا کہ میں مرغی کھانا حرام سمجھتا ہوں۔ وہ بھی پشاور جیسے جانور خور شہر میں جہاں کے سو فی صد بکرے بنا غسل فرض ہوئے پشاور کے پٹھانوں پر قربان ہوجاتے ہیں۔ لہذا کسی فاتح خان نامی بندے کا مٹن چانپ آڈر کینسل ہوا اور مجھے اسی کینسل شدہ آڈر کا ڈنر کرنا پڑا۔
واپسی پر ٹیکسی ڈرائیور کی عجیب و غریب ڈرائیونگ دیکھ کر میں نے پھر پوچھا بھائی جان کیا آئس پی ہے؟ وہ شرماتے ہوئے بولا بس سر کیا کریں کھبی کھبار پی لیتے ہیں۔ تاکہ جم کر بچوں کیلئے مزدوری کرسکیں۔
واضح رہے صفی سرحدی آئس نشے کیلئے تحریک انصاف بالخصوصا پرویز خٹک کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کہ اس منفرد نشے کو دوام اسی کے دور بادشاہت میں ملا۔
عصمت اللہ معاویہ بھائی کے ساتھ ملاقات نہیں ہوسکی کیونکہ میں اس بات کی تاب لانے کی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں تھا کہ آگے سے وہ اس بات کا اقرار کرلیں کہ عارف بھائی کھبی کھبار لبرلوں کو برداشت کرنے کیلئے تھوڑا سا آئس پی لیتا ہوں۔
چہ کیمہ دو
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“