غالب اکیڈمی کے بانی حکیم عبد الحمید کے ایک سو تیرہویں یوم پیدائش کے موقع پر گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ جلسے کا افتتاح کرتے ہوئے ڈاکٹر جی آر کنول نے کہا کہ غالب حکیم عبد الحمید کے پسندیدہ شاعر تھے لیکن ان کی پوری زندگی اقبال سے متاثر نظر آتی ہے۔وہ ہر وقت باعمل رہتے تھے ہر وقت کچھ نیا کام کرنے کی فکر کرتے تھے۔انھوں نے جو کام کیا ہے جو تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں ان کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گئے۔انھیں پدم بھوشن اورابن سینا ایوارڈ بھی ملا تھا حکیم صاحب غریب پرور تھے۔انھیں خدا کے بندوں سے پیار تھا۔وہ یقین محکم عمل پیہم والے تھے۔اس موقع پر مشہور صحافی وویک شکلا نے حکیم عبدالحمید کی تعلیمی خدمات پر ایک لیکچر دیا انھوں نے اپنے لیکچر میں کہا کہ حکیم صاحب تعلیم کی روشنی پھیلاتے رہے۔انھیں بیسویں صدی کی دلی کی سب سے بلند شخصیت مانا جا سکتا ہے۔وہ زندگی بھر تعلیمی ادارے کھولتے رہے تاکہ ملک اور سماج علم کی روشنی سے جگمگاتا رہے۔دھیرے دھیرے وہ تعلیمی ادارے کھولتے رہے۔ہمدرد نگر میں پہلے ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اسٹڈیز اینڈ میڈیکل ریسرچ اور اسلامیات کا شعبہ قائم کیا اسکول آف فارمیسی،طبیہ کالج وغیرہ کو ملاکر1989میں حکومت ہند نے جامعہ ہمدرد کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔1953میں حکیم صاحب نے یونانی طریق علاج کے ساتھ میڈیکل کالج کا منصوبہ بنایا تھا جو ان کی زندگی میں پورا نہیں ہوا لیکن ان کے بیٹے عبد المعید نے حکیم صاحب کے اس منصوبے کو پورا کیا۔حکیم صاحب تعلیم نسواں کے لیے فکر مند تھے انھوں نے پرانی دہلی میں رابعہ گرلس پبلک اسکول کھولا۔وہ گنگا جمنی تہذیب کی مثال تھے ہر سال اپنے گھر پر عید ملن اور ہولی ملن کیا کرتے تھے۔حکیم صاحب نے اردو کے فروغ کے لیے مزار غالب کے پاس غالب اکیڈمی قائم کی۔حکیم صاحب وقت کے بہت پابند تھے۔مہاتما گاندھی سے بہت متاثر تھے۔اس موقع پر سید محمد نظامی نے کہا کہ حکیم صاحب ولی تھے بچپن میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا ان کی والدہ نے ان پرورش کی تھی۔ان کی شخصیت شجر سایہ دار تھی۔اس موقع پر پر عقیل احمد نے کہا کہ حکیم صاحب گاندھی جی سے بہت متاثر تھے ان کی ہندوستانی یعنی آسان ہندی اور آسان اردو زبان کے حامی تھے۔جلسے میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسرشریف حسین قاسمی نے کہا کہ حکیم عبدالحمید دلی کے لیجنڈ تھے۔سب سے بڑے دلی والے تھے ان کا کام صرف دہلی تک محدود نہیں تھا۔برہان پور میں طبیہ کالج اسپتال بھی ان کوشش سے قائم ہوئے۔جب ایران کے سفر پر تھے تہران سے شیزار کے لیے جہاز سے سفر کررہے تھے اس جہاز میں ایک آدمی بیہوش ہوگیا،ڈاکٹر طلب کیا گیا لیکن کوئی ڈاکٹر نہیں آسکا۔عبدالودود اظہر صاحب کے کہنے پر حکیم صاحب نے مریض کی نبض دیکھی ایک چمچ لیمو کے عرق میں کچھ سفوف ملا کر مریض کو پلایا گیا وہ چند منٹ میں ہوش میں آگیا پھر کیا تھا حکیم صاحب کی شخصیت جلوہ گر ہوگئی۔شیراز میں ان سے ملنے لوگ آنے لگے۔پروفیسر قاسمی نے کہا کہ حکیم صاحب نے جو کچھ کیا ہے اسے ہندوستان بھلانہیں سکتا۔آخر میں سکرٹیری غالب اکیڈمی کے شکریہ کے ساتھ جلسہ ختم ہوا۔ جلسے کی کاروائی فیس بک پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کی گئی۔
“