ہزارگنجی سے گزرتے ہوئے میں نے چلتن پرنظرڈالی1960ء کی دہائی میں میرعبدالباقی بلوچ نے اپنی مشہور نظم چلتن لکھ کر اس عظیم پہاڑ کو خراج پیش کیا تھا آج اس کے دامن میں دائیں طرف بلوچ قومی تحریک کے سرخیل میرخیربخش مری آسودہ خاک ہیں اوربائیں طرف بابوعبدالکریم شورش کی آخری آرامگاہ ہے قومی تحریک میں انکی خدمات کا بھی کوئی شمار نہیں۔
مجھے ایک قصہ میرگل خان نصیر نے بتایاانکے مطابق میرغوث بخش وہ اور بابو شورش اسٹینڈرڈ ہوٹل میں قیام پذیر تھے ہم تینوں کوبخار ہوگیا اور ہمارے پاس اسپرو کی ایک گولی تھی ٹاس کیا تو بابو جیت گئے یعنی اتنے بڑے لوگوں کے پاس کچھ نہیں تھا اور انہوں نے بے سروسامانی میں تحریک کو آگے بڑھایا-
باقی کے مطابق چلتن نے کہا کہ میں صبح لہواگل کر جگادیتا ہوں اس شعر نے مجھے مغرب کی طرف ایک اور عظیم پہاڑ راسکوہ کی یاد دلائی جس کا سینہ اسی روز یعنی28مئی 1998ء کوچیرا گیا تھا اور یہ پہاڑ تاابد لہو کے آنسو روتارہے گا۔یہ پہلا موقع تھا کہ نوازشریف کی سربراہی میں ریاست نے سرزمین بلوچ کو ایٹمی تجربہ گاہ بنایا تھا اگرچہ اسے تجربہ گاہ بنانے میں نوازشریف کاکوئی عمل دخل نہیں تھا کیونکہ اس مقام کوذوالفقار علی بھٹو نے1976ء میں منتخب کیا تھا اور 1981ء میں جنرل ضیاء الحق نے اسکی توثیق کی تھی۔ریاست کے نزدیک یہ یوم تکبیر ہے اور اس دن پر اسکے عوام فخر کرتے ہیں لیکن اہل بلوچستان کا نکتہ نظرالگ ہے نواب صاحب نے کہا تھا کہ ہمیشہ میزائل جہلم سے سونمیانی کی طرف داغے جاتے ہیں کبھی سونمیانی سے جہلم کی طرف داغے نہیں جاتے باقی لوگ اس نکتہ نظر کوتعصب قراردے سکتے ہیں لیکن حقائق حقائق ہوتے ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...