سن 1972 میں میڑک کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد میرے والد صاحب نے کہا کہ تمہارا نتیجہ آنے میں ابھی کافی وقت ہے اور پھر امتحان میں کامیابی کی صورت میں کالج میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے کم از کم تین مہینے تو یوں ہی گزر جائیں گے اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم اس دوران اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے "بُلسارہ انسٹیٹیوٹ" جوائن کر کے ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھ لو۔
یہ "BulSara Institute" بجائے خود کراچی کی تاریخ کا یا بیتے ہوئے سنہرے دنوں کا ایک خوبصورت ورق ہے لیکن اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ بہرحال ہم نے بُلسارہ انسٹیٹیوٹ جوائن کر لیا۔ وہاں جانے کے لیے روزانہ ہم صبح اپنے گھر واقع فیڈرل کیپیٹل ایریا سے بس میں بیٹھ کر روانہ ہوتے تھے۔ ہماری بس "بندر روڈ" موجودہ ایم اے جناح روڈ پر سے بھی گزرتی تھی۔ ہم اپنی بس کی نشست سے کھڑکی کے ذریعے راستے میں نظر آتی ہوئی مختلف عمارتوں کو اشتیاق سے دیکھتے ہوئے خوش خوش جاتے تھے۔۔۔ بس کے اس پورے سفر کے دوران ایک جگہ ہمیں بہت زیادہ اچھی اور دلچسپ لگتی تھی۔ بس کی نشست چونکہ خاصی اونچی ہوتی تھی اس لیے وہاں بس پر بیٹھے بیٹھے سامنے دکھائی دینے والی ہماری پسندیدہ جگہ کے احاطے کی بیرونی دیوار کے اوپر سے اندر کا دلچسپ منظر باآسانی دیکھ سکتے تھے۔ دیوار کی وہ اندرونی دنیا ہمارے لیے عجیب و غریب کشش رکھتی تھی۔ دراصل یہ "محمد علی ٹرام وے کمپنی" کا Main Depot تھا۔ جب رات کو ٹرام سروس بند ہو جاتی تھی تو ساری ٹرامیں یہاں اس Depot میں آکر کھڑی ہو جاتی تھیں اور صبح ہوتے ہی مخصوص وقت میں اپنے اپنے روٹس پر پھر سے روانہ ہو جاتی تھیں۔ ان ٹراموں میں بس کی طرح کے ہارن نہیں ہوتے تھے بلکہ ہارن کے بجائے گھنٹی بجتی تھی۔ صبح کے وقت جب ہماری بس اس Depot کے سامنے سے گزرتی تو وہاں سے ٹراموں کی ٹن ٹن کی آتی آوازیں ہمیں بہت بھلی لگتی تھیں۔ ہم باآسانی اپنی بس کی کھڑکی سے بغور اس چہل پہل کا مشاہدہ کرتے تھے کہ Depot کے مرکزی داخلی دروازے سے ٹن ٹن کرتی ہوئی کوئی ٹرام کیماڑی کا رُخ کر رہی ہے، کوئی صدر کی جانب رواں دواں ہے، کسی ٹرام کی سمت سولجر بازار کی طرف ہے، تو کسی ٹرام کی منزل لی مارکیٹ ہے اور یوں وہ ٹرامیں ٹن ٹن کی آوازوں کے ساتھ اپنی مخصوص منزل کی جانب بڑھ رہی ہوتی تھیں۔ صبح کے وقت ڈپو کے اندر چاق و چوبند باوردی اسٹاف جس میں ٹراموں کے ڈرائیور، کنڈیکٹر، انسپکٹر، میکینک اور وہاں کی کینٹین میں کام کرنے والے بھی شامل ہوتے تھے، دوڑتے بھاگتے اپنا اپنا کام کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ یہ منظر ہماری آنکھوں کو بہت خوشگوار لگتا تھا۔ اُن دنوں اس جگہ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ شہر کے اندر کوئی اور شہر ہے جسے ہم اپنی بس کی کھڑکی سے دیکھ رہے ہیں۔ کراچی کی ٹرام کی تین خاص باتیں تھیں کہ یہ دونوں طرف سے چلائی جا سکتی تھی۔ اسٹیرنگ کی جگہ ایک لمبا سا پیتل کا ڈنڈا نصب ہوتا تھا، جس کو ڈرائیور دائیں، بائیں گُھما کر ٹرام کی حرکات و سكنات کو کھڑے ہو کر کنٹرول کرتا تھا۔ بوقت ضرورت یہ ہی ڈنڈا نما اسٹیرنگ نکالا بھی جا سکتا تھا اور پھر اس کو ٹرام کے پچھلے حصے میں نصب کر کے مخالف سمت میں چلایا جا سکتا تھا۔
یہاں ہم پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے کراچی کی ٹرام کا close up بھی شامل کر رہے ہیں جو غالباً 1960 کی دہائی کی تصویر ہے۔ سامنے بورڈ پر اس ٹرام کی منزل کا نام "کینٹ اسٹیشن" بھی لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس کے اوپر MTC لکھا ہوا ہے، جس کا مطلب ہے "محمد علی ٹرام وے کمپنی"۔ اس کے دونوں جانب فلپس ریڈیو کمپنی کے اشتہارات بھی لگے ہوے ہیں اور نیچے ٹرام کا نمبر اور کمپنی کا logo بھی ہے۔ یہ ٹرامیں 1975 تک کراچی کی ٹرام روٹس پر باقاعدگی سے چلتی تھی۔ ٹرام کے سب ہی ڈرائیورز مکمل یونیفارم میں ہوتے تھے۔ گئے وقتوں میں ہم لوگ کتنے civilised تھے۔
تقسیمِ ہند سے قبل برطانوی ہند میں چلنے والی ٹرامیں "ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی" کی ملکیت تھیں۔ یہ کمپنی پانچ سو روپے سالانہ فی مِیل کے حساب سے ٹرام لائنوں کی رائلٹی "کراچی میونسپلٹی" کو ادا کرتی تھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد "ٹراموے" کا یہ نظام "محمد علی" نامی ایک کاروباری شخص نے خرید لیا تھا اور پھر فوراً ہی اس کا نام بدل کر اپنے نام پر "محمد علی ٹراموے کمپنی" رکھ لیا۔ زمانہ عروج میں اس کمپنی کے پاس ساٹھ سے زائد ٹرامیں تھیں اور ان میں کام کرنے والا عملہ تقریباً آٹھ سو افراد پر مشتمل تھا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب مالی خسارے کی وجہ سے اس کمپنی کے پاس محض چار، پانچ ٹرامیں رہ گئی تھیں۔ پھر وہ بدقسمت دن آیا جب کراچی شہر کی دو پہچانوں میں سے ایک پہچان ٹرام سروس کو بند کر دیا گیا جبکہ دوسری پہچان اب بس سمندر ہی رہ گیا ہے۔ شکر ہے کہ اس کو نابود کرنے کا اختیار انسانوں کی دسترس میں نہیں ہے۔ 30 اپریل 1975ء کو کراچی کی فولادی پٹریوں کے روٹس پر "ٹرام" آخری مرتبہ چلی اور پھر اس کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔
دراصل ان ٹراموں کو بند کرنے کا فیصلہ اُس وقت کی صوبائی حکومت کا تھا۔ اُس وقت کے حکومتی ذرائع کے مطابق کراچی اب تیزی سے پھیل رہا ہے۔ آمدورفت کے جدید ذرائع اور وسائل استعمال ہونے کی بدولت سڑکوں پر ٹریفک بڑھ گیا ہے۔ چونکہ شہر کی شاہراہوں پر یہ ٹرامیں اپنے روٹس پر دو طرفہ چلتی ہیں، لہٰذا ان کی وجہ سے پہلے کی نسبت حادثات کے بڑھنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا (جبکہ یہ صرف اُس وقت کی حکومت کی خام خیالی تھی۔ کیونکہ تاریخی طور پر ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے کہ ان ٹراموں کی وجہ سے ہی شاہراہوں پر حادثات میں اضافہ ہوا ہو)۔ اس لیے "محمد علی ٹرام وے کمپنی" کو صوبائی حکومت کے حکم کی پاسداری کرتے ہوئے "ٹرام سروس" کو بند کرنا پڑا۔ تاریخی طور پر یہ "ٹرام سروس" بند ہونے سے شہر کا اپنے ماضی سے ایک اہم رشتہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔
ٹرام سروس بند کیے جانے سے یہ Depot بھی ویران ہو گیا اور ساری بچی کچھی ٹرامیں کباڑ کے طور پر بیچ دی گئیں۔ اس دوران حکومتِ وقت کے کارپردازوں نے شہر کی عوام کو یہ مثردہ بھی سنایا کہ کراچی میں اب الیکٹرک ٹرام چلائی جائے گی۔ الیکٹرک ٹرام کیا چلتی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو اب اکثر وبیشتر الیکٹرک سے ہی محروم کر دیا جاتا ہے۔
اب ہم اس تحریر میں شامل کیے گئے اشتہار کی جانب آتے ہیں۔ زیر نظر اشتہار کراچی کے روزنامہ جنگ میں فروری 1976 کو شائع ہوا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 1974 میں ہونے والے ایشیئن گیمز میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اگلے مقابلے (جو 1978 میں ہونا تھے) پاکستان میں منعقد ہوں گے۔ آپ جس اشتہار کی تصویر اس تحریر کے ساتھ دیکھ رہے ہیں یہ "ٹرام ڈپو" کی بندش کے بعد خالی ہو جانے والی جگہ پر "اسپورٹس کمپلیکس" اور اس کے ساتھ بنائی جانے والی "کمرشل دکانوں" کی تعمیر سے متعلق تھا۔ 1978 میں ہونے والے متوقع ایشیئن گیمز کی مرکزی کمیٹی میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایشیئن گیمز کے تمام Indoor مقابلے کراچی میں جبکہ Outdoor مقابلے لاہور اور اسلام آباد میں میں ہوں گے۔ شومئی قسمت اُس وقت پاکستان کے تعلقات انڈیا اور بنگلہ دیش سے بیحد خراب ہو گئے تھے جس کی وجہ سے ان دونوں ملکوں نے ایشیئن گیمز پاکستان میں منعقد ہونے کی صورت میں اس میں شرکت سے معذوری ظاہر کر دی تھی۔ نتیجتاً اسپورٹس کمپلیکس کا خواپ اخبار میں شائع ہونے والے اس اشتہار سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
شہر کے دل میں واقع یہ وسیع و عریض قطعہ زمین "ٹرام سروس" بند ہونے کے بعد "اسپورٹس کمپلیکس" بننے کے نام پر دہائیوں تک ویران ہی پڑا رہا۔ اب اس جگہ پر سرکاری دفاتر کی عمارت بنائی جا رہی ہے۔ آنے والے کچھ سالوں میں یہ ویران جگہ دوبارہ سے پُررونق ہو جائے گی مگر افسوس کہ ٹرام کی ٹن ٹن کی مسحور کُن آوازیں قصہ پارینہ ہوئیں۔۔۔
میں سوچ رہا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے میری طرح 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں اس جگہ کی رونقیں دیکھی تھیں اور ٹن ٹن کی بجتی آوازیں سنی تھیں کیا اُن دنوں کو یاد کر کے ٹرام کے لیے افسردہ ہوتے ہوں گے یا نہیں؟؟؟؟ آخر ہمیں افسردہ تو ہونا چاہیے کہ شہر کی ایک تاریخی پہچان ہمیشہ کے لیے دم توڑ چکی ہے!!!!
“