یہ تصویر کراچی کے علاقے صدر میں واقع سینٹ اینڈریوز چرچ کی ہے۔ اس کو اسکاٹش چرچ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس چرچ کو 1868 میں برطانوی ہندوستان میں اسکاٹش مسیحی تبلیغی مشن کے لیے جی ٹی نیو نہام نے تعمیر کیا تھا۔ تقسیم سے قبل کراچی میں نیو نہام کے نام سے ایک سڑک بھی موسوم تھی جس پر قائداعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش "وزیر مینشن" بھی واقع ہے لیکن اب اس سڑک کا نام بدل کر حاجی شریف بلوانی روڈ رکھ دیا گیا ہے۔ "ٹی جی نیو نہام" دخانی جہازوں کی ایک کمپنی "انڈس فلوٹیلا" کے ڈپٹی ایجنٹ تھے اور انہوں نے برطانوی راج کی سرپرستی میں سندھ ریلوے میں چیف ریزیڈنٹس انجینئر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں تھیں۔ سن 1861 میں جب آپ چیف انجینئر تھے تو متحدہ ہندوستان موجودہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں پہلی ریلوے لائن کراچی سے کوٹری تک بچھائی گئی۔
"سینٹ اینڈریوز چرچ" گوتھک طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ سب سے پہلے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ چالیس کی دہائی میں کراچی شہر کتنا پُرامن ہوتا ہو گا کہ چرچ کی چار دیواری چار فٹ سے زیادہ اونچی نہیں لگتی جو اب کئی گُنا اونچی کر دی گئی ہے اور چرچ کی مرکزی عمارت سڑک سے نظر ہی نہیں آتی۔ دوسری دلچسپ چیز اُس زمانے کی ٹریفک پولیس کی وردی ہے جس میں نیکر اور پگڑی نمایاں ہے۔
اب ہم تصویر میں موجود سب سے اہم اور تاریخی طور پر ایک دلچسپ حقیقت کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ اگر آپ اس تصویر کو بہت غور سے دیکھیں تو اس میں ایک اشتہار کا سائن بورڈ نظر آئے گا جس پر آپ دو الفاط باآسانی پڑھ سکتے ہیں، ان الفاظ میں سے ایک ہے "گودریج" اور دوسرا ہے "وطنی"۔
"گودرج گروپ" بھارت کی ایک کثیر الصنعتی کمپنی ہے۔ اس کا صدر دفتر ممبئی میں ہے اور اس کی باگ دوڑ گودرج خاندان کے پاس ہے۔ سنہ 1897ء میں اسے اردشیر گودرج اور پیروجشاہ بورجورجی گودرج نے قائم کیا تھا۔ ان کی مصنوعات میں صابن، ٹائپ رائٹر، تالے، جانوروں کا چارہ، خوردنی تیل وغیرہ شامل ہیں۔ صابن بنانے کا کام انہوں نے 1920 میں شروع کیا۔
انہوں نے دیکھا کہ صابن بنانے کے لیے عمومی طور پر کاسٹک سوڈا کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے جانوروں کی چربی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے، ہندوستان کی سماجی صورتحال اور صارفین کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے صابن بنانے کے ماہرین کے سامنے خیال ظاہر کیا کہ کوئی ایسا صابن بھی بنایا جانا چاہئے جس میں کاسٹک سوڈا کے ساتھ جانوروں کی چربی کے بجائے خالص خوردنی تیل کا استعمال کیا جائے۔ اُس وقت ماہرین نے اس خیال پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا اور پیش گوئی کی کہ ایسا ہونا ناممکن ہے لیکن ان تمام ماہرین کی یہ پیش گوئیاں اُس وقت غلط ثابت ہوئیں جب گودریج نے 1920 میں پہلا ٹوائلٹ صابن تیار کر کے مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کر دیا جو کاسٹک سوڈا کے ساتھ ساتھ خالصتاً مختلف قسموں کے خوردنی تیل سے بنایا گیا تھا۔ اُس زمانے میں ہندوستان بھر میں خوردنی تیل کی بہتات تھی، ایک لحاظ سے ہندوستان اس صنعت میں خودکفیل تھا۔ سرسوں، تِل، ارنڈ، ناریل، چنبیلی، السی وغیرہ کے تیل یہاں عام اور ارزاں قیمتوں میں دستیاب تھے اور پھر گودریج کے خوردنی تیل سے تیار کردہ صابن ہندوستانی صارفین کے لیے اس لحاظ سے بھی اہم تھے کہ ان میں کسی بھی قسم کے جانور کی چربی شامل نہیں تھی، یوں دیکھتے ہی دیکھتے گودریج کے صابن نے مارکیٹ میں اپنی ایک الگ پہچان بنا لی۔ 1922 سے 1937 کے دوران گودریج نے یوں تو کئی صابن متعارف کروائے لیکن ان میں سب سے زیادہ مقبولیت "وطنی" کے حصے میں آئی۔ اُس زمانے میں سائنسی لحاظ سے "وطنی" مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ان تمام صابنوں سے بہتر تھا جو "وطنی" کی ہی قیمت میں فروخت کیے جا رہے تھے۔ ہندوستانی صارفین "وطنی" کو "اپنا صابن" کے نام سے بھی پکارتے تھے۔
سبز رنگ کا "وطنی" سفید اور سبز رنگ کے خوشنما پیکٹ میں اپنی مسحورکُن خوشبو سے بہت ہی کم عرصے میں صارفین کو اپنی جانب کھنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
برطانوی راج سے آزادی کے فوراً بعد دیس میں بنائی جانے والی مختلف چیزوں کی مانگ میں حیرت انگیز طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا اور اُن دنوں بھی "وطنی" اپنی مقبولیت کو قائم رکھے رہا۔ اس دوران ہندوستان کی مشہور فلمی اداکارہ مدہو بالا وطنی کے اشتہار میں صارفین کو فخریہ طور پر یہ کہتے ہوئے بھی نظر آتی تھیں کہ
"یہ سوادیشی ہونے کے ساتھ ساتھ برتر بھی ہے"
تقسیمِ ہند کے بعد کے ابتدائی برسوں تک وطنی صابن کے اشتہار میں غیرمنقسم ہندوستان کا مکمل نقشہ دکھایا جاتا رہا تھا۔ ہندوستانی کمپنیوں اور بہت سے دیگر لوگوں کے لیے جن کے لیے پہلے ہندوستانی مارکیٹ میں پاکستان شامل تھا اب ایک نئی ضرورت کے پیشِ نظر 25 مارچ 1949 کے ایک سرکلر میں آرڈر اینڈ ڈسپیچ ڈیپارٹمنٹ آف گودریج بوئس نے ہدایت جاری کی کہ "میڈ اِن انڈیا" کی عبارت کراچی (جو کہ اُس وقت نوزائیدہ مملکت پاکستان کا دارالحکومت تھا)
کو برآمد کیے جانے والے ہر پیکٹ پر تحریر کی جائے۔
وطنی صابن پاکستان میں انیس سو پچاس کی دہائی تک مقبول رہا۔
“