آج ہم کراچی کے پہلے ٹی-بی سینی ٹوریم جس کا نام "اوجھا سینی ٹوریم" ہے کے بارے میں اپنے پڑھنے والوں کو آگاہ کریں گے۔
"حکمت" اوجھا خاندان کا خاندانی پیشہ تھا۔ تاریخی طور پر اس خاندان کا تعلق ٹھٹھہ سے تھا۔ ٹھٹھ ماضی میں حکمت کے حوالے سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔
سکھرام داس اوجھا کا شفا خانہ میری ویدر ٹاور کے قریب لکھمیداس اسٹریٹ میں ہوا کرتا تھا۔ وہ خاص طور پر تپِ دق (ٹی بی) کے علاج کے ماہر تھے۔ طبی پیشے میں دلچسپی رکھنے والے افراد ان سے حکمت کی تعلیمات کے لیے رجوع کرتے تھے۔ یہ اُس زمانے کے ایک ماہر حکیم تھے۔ 1931 میں جب سکھرام داس نے حکمت کی اعلی ڈگری حاصل کی تو کراچی کے باسیوں نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی جس میں شہر میں بڑھتے ہوئے ٹی-بی کے مرض پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس مرض کے خلاف دونوں بھائیوں کی خدمات کو بھی بیحد سراہا گیا تھا۔ اسی تقریب کے موقع پر سکھرام داس اوجھا نے اپنے مرحوم بھائی دیپ چند اوجھا کے نام سے یہ تپ دق گھر (سینی ٹوریم) قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔
اوجھا سینی ٹورییم ٹی۔بی کے مریضوں کے لئے کراچی میں 1942 میں قائم ہوا۔ ابتداء میں یہ اٹھاون سنگل اور سات ڈبل کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا سینیٹوریم تھا جو اُس وقت کے کراچی شہر سے خاصے فاصلے پر مضافات میں ایک پُرفضا اور سرسبز مقام (موجودہ صفورہ گوٹھ) پر قائم کیا گیا تھا۔ جس کے لئے 150 ایکڑ زمین اور 50 ہزار روپے نقد شہر کے مخیر ہندو خاندان "اوجھا" نے ہی عطیہ کیے تھے۔
اس کا پورا نام "دیپ چند اوجھا سینی ٹورییم" ہے۔
دنیا اُس وقت دوسری عالمی جنگ کی دہشت سے گزر رہی تھی۔ جس میں برطانیہ ایک مرکزی کردار ادا کر رہا تھا اور ہماری سرزمین پہ برطانوی راج مسلط تھا۔ حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً وہ دور ایمرجنسی کا تھا اس لیے کچھ عرصے کے لیے اس سینی ٹوریم کو جنگی قیدیوں کے لیے بطور کیمپ، پولینڈ کے یہودیوں کے لیے جو عالمی جنگ کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور تھے پناہ گزین کیمپ اور امریکی فوج کے اسٹیشن کے طور پر بھی استعمال میں لایا گیا تھا۔ عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جب حالات سازگار ہو گئے تو اکتوبر 1946 میں اس کو دوبارہ سے ٹی بی کے مریضوں کے علاج معالجے اور ان کے داخلے کے لیے کھول دیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے تقریباً اٹھارہ سال بعد 1965ء میں یہاں پر پانچ نئے وارڈز جن میں 200 بستروں کی گنجائش تھی اور لیبارٹری قائم کر کے اسے باقاعدہ ہسپتال کی شکل دے دی گئی۔ 1970 میں اوجھا سینیٹوریم کو صوبہ سندھ کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ 1973 میں اس کو "سینیٹوریم" سے ترقی دے کر "انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز" کا درجہ دیا گیا جس میں ٹی-بی کی بیماری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کا آغاز ہوا۔ 1994 میں "کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان" کی طرف سے یہاں پر کروائے جانے والے ڈپلومہ کورسز کو تسلیم کیا گیا۔ 1997 میں گلوبل ٹی-بی یُونِٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جینیوا، سارک، ٹیوبرکلوسز سینٹر کھٹمنڈو، نیپال نے "ٹی-بی" کی روک تھام اور اس کی تعلیم کے لیے کراچی کے اس انسٹیٹیوٹ کی خدمات کو بیحد سراہا۔
دسمبر 2003 میں جب ڈاؤ میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیا گیا تو "اوجھا" کو اس کا "کیمپس" بنا دیا گیا۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اب تک آٹھ ہزار سے زائد اسٹوڈنٹس اور بیس دوسرے انسٹیٹیوٹ کے ریزیڈنٹس کو بھی تعلیم و تربیت دے چکا ہے۔ یہاں پر اس وقت 850 فیکلٹی ممبرز کے علاوہ تقریباً تین ہزار کے قریب کارکن کام کر رہے ہیں۔ ہمارے اس مضمون کے ساتھ جو دو تصویریں منسلک ہیں ان میں جو پہلی تصویر ہے وہ 1942 کے زمانے کی تعمیر شدہ ہٹس (Huts) کی ہیں اور دوسری تصویر میں نو تعمیر شدہ ہسپتال کی جدید پُرشکوہ مرکزی عمارت نظر آرہی ہے۔
کراچی کا یہ پہلا ٹی-بی سینی ٹوریم اپنے اندر کئی دہائیوں کی کہانیوں کو سموئے ہوئے ہے۔ اس، حوالے سے ایک اہم واقعہ بھی مشہور ہے۔ یہ 1996 کی بات ہے جب کامریڈ امام علی نازش علالت کے باعث اوجھا سینی ٹوریم میں داخل ہوئے تو مسلم لیگی رہنما مشاہد حسین سید جو کہ اس وقت میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں وزیر اطلاعات تھے ،ان کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ دوران گفتگو مشاہد حسین سید انہیں یہ پیشکش کرتے ہیں کہ اگر آپ پسند فرمائیں تو حکومتی اخراجات پر آپ کا علاج کسی اچھے یا نجی اسپتال سے کروانے کا انتظام کروا دیتے ہیں۔ جس پر مشاہد حسین سید کو وہ جواب دیتے ہیں کہ
آپ میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے ہیں اور میرا علاج حکومتی اخراجات پر کروانے کی پیشکش کی ہے تو اس کے لیے بصد احترام شکریہ مگر میرے نظریات مجھے اس امر کی اجازت نہیں دیتے کہ میں بغرض علاج مسلم لیگی حکومت کے اخراجات قبول کر لوں۔ اگر آپ اس سینی ٹوریم کی دیواریں پختہ کروا دیں تو یہاں کے مریضوں کا بھلا ہوجائے گا۔
اس وقت اوجھا سینی ٹوریم میں دیواریں پختہ نہ ہونے کی وجہ سے چوری کے واقعات عام تھے، ایک ایسا ہی واقعہ امام علی نازش کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ اس حوالے سے "ایم اسلم کھوکھر" اپنے مطبوعہ کالم میں لکھتے ہیں کہ
ایک بیرونی دورے کے دوران امام علی نازش کو کامریڈ نجیب اﷲ نے اپنی ذاتی گھڑی تحفے میں دی تھی جو کہ اوجھا سینی ٹوریم میں جب امام علی نازش زیر علاج تھے تو کسی نے چرا لی.
ٹی بی جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو کر 1996 کو وہ اوجھا سینی ٹوریم میں داخل ہوئے اور تقریباً تین سال بعد اسی سینی ٹوریم میں 6 مارچ 1999 کو ان کا انتقال ہوا۔
ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے اوجھا خاندان کی اُن خدمات کا جو انہوں نے شہر میں رہنے والوں کے لیے کبھی کی تھیں مگر افسوس کہ ہمارے دیس میں عمومی طور پہ محسن کُشی کا ایک چلن ہے جس کا شکار بیچارے "دیپ چند اوجھا" بھی ہو گئے۔ کراچی میں ان کے نام سے جو سڑک منسوب تھی 1970 میں اس کا نام تبدیل کر کے "بزنس ریکارڈر" روڈ رکھ دیا گیا. اب تو کوئی جانتا بھی نہیں کہ "بزنس ریکارڈر روڈ" کا پرانا نام کیا تھا!!!
“