امام افسانہ ،سعادت حسن منٹو کو خراج تحسین
دستک کی دھڑ دھڑ سے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔
ایک لمحہ کو اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا ہوگیا۔ اس نے آ نکھیں کھولیں تو وہی کمرہ تھا۔اس کا خارش زدہ کتااسے ساتھ ساگوان کے لمبے اور چوڑے پلنگ پر لیٹا ہوا تھا ۔ وہ بھی تھوتھنی اٹھائے اس کی جانب یوں دیکھ رہا تھاکہ جیسے بے وقت کی دستک نے اسے بیزار کر دیاہو۔سوگندھی کوسب یاد آگیا۔وہ نا چاہتے ہوئے اٹھنے لگی تو اس کے منہ سے بے ساختہ ہنکارا نکل گیا۔وہ ہنکارا جیسابھی تھالیکن اسے ” اونہہ “ ہی لگا ۔ اس کے تن بدن میں پھر سے کسیلا پن پیدا ہو گیا۔اسے لگاجیسے ماتھے پر لگا ہوا بام اس کے پورے بدن کے مساموں تک پھیل گیا ہے ۔اچانک ہی سر میں درد کی ٹیس دوبارہ اٹھ گئی جسے اس نے دبانے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ پھر سے اس کا بدن تن جائے ۔ایسے میں دستک کی دھڑ دھڑ پھرہوئی ۔
”ابے کون ہے ، دروجہ توڑے گا کیا؟“ نا چاہتے ہوئے بھی سوگندھی کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا ۔وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔اس نے اپنی چولی کو درست کرکے چھاتی کے ابھاروں کو برابر کیاتو اس میں پڑے روپے کھنکھنا اٹھے ۔ اسے یاد آ گیا ،اس کی ساتھ والی کھولی میں ایک مدراسی عورت رہتی تھی جس کا خاوند موٹر کے نیچے آکر مر گیا تھا۔ اس عورت کو اپنی جوان لڑکی سمیت وطن جانا تھا۔ لیکن اس کے پاس چونکہ کرایہ ہی نہیں تھا اس لیے وہ کسمپرسی کی حالت میں پڑی تھی۔سوگندھی نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ جونہی اس کا مرد آ ئے گا اسے روپے دے دے گی ۔ اب یہی سکے اس کے پاس جمع پونجی تھی ۔ مادھو کو تو اس نے رات بھگا دیا تھا ۔ اسے لگا سکّوں کی چاندی پگھل کر اس کے خون میں ٹھنڈک بن کر شامل ہو رہی ہے ۔یہ روپے مدراسی عورت کو دے دئیے تو پھر آج کا دن کیسے گزارے گی ۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی نگاہ گنیش جی کی مورتی پر پڑی۔ اس کے ساتھ ہی ایک طویل سانس اس کے حلق سے خارج ہوا ۔
ایسے میں دروازے پر پھر سے دستک ہوئی ۔ اس کا جی تو چاہا کہ وہیں بیٹھی بیٹھی دو چار سنا دے ، مگر گالیاں اس کے دماغ ہی میں گونج کر رہ گئیں ۔ ہو سکتا ہے وہی مدراسی عورت ہو ۔ وہ اٹھی اور دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی دروازے تک چلی گئی ۔
اس نے دروازے کے پٹ وا کئے تو سامنے مادھو کھڑا تھا ۔ اس سے پہلے کہ سوگندھی اس پر ٹوٹ پڑتی ، مادھو نے اپنے لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا
”سوگندھی میں تجھ سے پریم کرتا ہوں رہی۔ “
یہ لفظ تھے یا بارش کا وہ پانی جو تپتی ہوئی زمین پر پڑے تو ٹھنڈک پھیل جائے ۔ وہ ایک دم سے پگھل گئی تھی ۔اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے دروازہ چھوڑ دیا ۔ مادھو اندر آ کر کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اس کا خارش زدہ کتا مادھو کو دیکھ کر غرانے لگا تھا ۔ تبھی سوگندھی نے غراتے ہوئے کتے کو ڈانٹا تو وہ پلنگ سے اٹھ کر باہر دروازے کے پاس جا بیٹھا ۔ اس نے اپنی تھوتھنی یوں ٹانگوں میں دبا لی جیسے ناراض ہو گیا ہو ۔ اسے یوں لگا جیسے کتے کو بھی مادھو کی آ مد پسند نہیں آئی ۔ سوگندھی اپنی دھوتی سمیٹی ہوئی ساگوان کے پلنگ پر بیٹھ کر بولی
” کیوں آیا ہے تو یہاں ؟“
” کہا نا ، تجھ سے پریم کرتا ہوں ۔“ اس نے شرمندہ سے لہجے میں کہا
” تو جانتا ہے ،دس روپے میرا ریٹ ہے جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلالی کے کاٹ لیتا تھا۔تو دے گا تو بھی رام لال کی دلالی ایمانداری سے دوں گی ، بول دے گا دس روپے ؟“سوگندھی نے بالکل کاروباری انداز اپناتے ہوئے پوچھا
”اب پریم میں یہ کیاچلے گا ، میں تو تجھے حوالدارنی بنانے کی فکر میں ہوں ۔چل چھوڑ غصہ ،کچھ کھانے پینے کو ہے یہاں ؟“مادھو نے کمال ڈھٹائی سے کہاتو سوگندھی کو رام لال کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی ۔ اس نے جی کڑا کے کہا
”تیری جان کی قسم مادھو، رات سے ایک دھیلے کا منہ نہیں دیکھا۔ باہر والے سے کہہ کر ایک کپ چائے اور افلاطون بسکٹ تو منگا۔ بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔“
” چل ٹھیک ہے ۔“ خلاف توقع وہ مان گیا ۔
وہ اٹھ کر باہر گیا تو سوگندھی کو یوں لگا جیسے آج تک وہ پاگل ہی رہی ہے ۔
باہر والا چائے کے ساتھ افلاطونی بسکٹ رکھ گیا تھا ، ایسے میں مادھو بھی آ گیا ، اس کے ہاتھ میں گرم گرم کچوریاں تھیں ۔اس کی مہک سارے کمرے میں پھیل گئی تھی ۔سوگندھی نے کُلّی بھی نہیں کی اور کچوریاں کھانے لگی ۔ اس نے افلاطونی بسکٹ کے ساتھ چائے پی کر مادھو کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر احمقانہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی ۔ وہ اس کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔تبھی سوگندھی کے دماغ میں سکے بجنے لگے ۔اسے لگا کہ اس کی چھاتی کے ساتھ لگے چاندی کے سکے پگھل کر اس کے خون میں شامل ہو رہے ہیں ، جس سے خون کی روانی مزید بڑھنے لگی ہے اور اس کا غصہ بڑھنے لگا ہے ۔
” اے مادھو ، کیا دیکھتا ہے بے ؟“سوگندھی نے پوچھا
”تھوڑے روپوں کا بندو بست ہو جاتاتو میں ….بس چند دن کی بات ہے ، میں تجھے منی آ رڈر کر دوں گا ….کسی طرح انسپکٹر سے میری جان چھوٹ جائے تومیں تجھے حوالدارنی بنا لوں گا ۔یہ دھندہ وندہ سب ختم ، تجھے خوش رکھوں گا ۔“
” اے مادھو ، ذرا کھڑا ہو ۔ “ سوگندھی نے کہا تو وہ کچھ نہ سمجھتا ہوا کھڑا ہو گیا ،تبھی وہ بولی ،” یہ پتلون اتار ….“
” کیا کرتی ہے ، ابھی تو تم سے کوئی اور بات کر رہا ہوں ۔“مادھو نے گھبراہٹ میں کہا تو سوگندھی نے کہا
” ابے سالے ، وہی بات کر رہی ہو، تیری جیب میں جتنے روپے ہیں سارے یہاں رکھ ، نہیں تو میں تیری پتلون اتار کر تجھے ننگا یہاں سے بھیج دوں گی ۔بول اتارتا ہے پتلون یا روپے نکالتا ہے ؟“
”سوگندھی، تجھے کیا ہوگیا ہے ، لگتا ہے تجھ پر بھوت پریت آ گیا ہے ۔چل مجھے جانے دے ۔میں جاتے ہی تجھے روپے منی آرڈر کر دوں ، کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا ؟“ اس نے ہذیانی انداز میں پوچھا توسوگندھی کو یوں لگا جیسے مادھو نے اسے گالی دے دی ہو ۔ وہ اٹھی اور اسے گریبان سے پکڑ لیا ، پھر غراتے ہوءبولی
” میری بات کی تجھے سمجھ نہیں آئی ؟“
یہ کہتے ہوئے اس نے جیب میں ہاتھ ڈال دیا ۔ کچھ سکے اس کے ہاتھ میں آئے اور باقی جیب پھٹنے سے فرش پر گر گئے ۔سکوں کی کھنکھناہٹ میں مادھو نے خود کو چھڑایا اور باہر کی جانب بھاگ گیا ۔
سوگندھی واپس ساگوان کے پلنگ پر بیٹھ گئی ۔ بکھرے ہوئے سکے یونہی پڑے رہے ۔ اسے لگا جیسے ہر طرف حبس چھا گیا ہے ۔اسے سانس لینا دشوار ہونے لگا ۔وہ ہونے اور نہ ہونے کے درمیان آ گئی تھی جہاں بندے کا وزن ہی نہیں رہتا ۔سکوں کی کھنکھناہٹ اور سیٹھ کی ”اونہہ“ گڈ مڈ ہو گئے تھے ۔باقی ساری آ وازیں معدوم ہو گئی تھیں ۔
وہ باہر والے کی آ واز سے چونکی ،وہ برتن اٹھانے آ یا تھا ۔وہ بالشت بھر کا لونڈا تھا جس کی مسیں بھیگ رہی تھیں ۔ وہ برتن اٹھائے ہوئے کھڑا ا س کی چھاتیوں کی طرف دیکھ رہا تھا ۔پہلی بار اسے اپنی چھاتیوں پر نگاہیں رینگتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔ جیسے ریشم کے دھاگے کی گھچیاںچھو رہی ہوں۔ تبھی سوگندھی نے پوچھا
” کیا بات ہے بے ، برتن اٹھالئے ہیں نا ،تو اب جا ۔
ہاں جاتا ہوں ۔“ یہ کہہ کر وہ مڑا اور تیزی سے نکلتا چلا گیا ۔ سوگندھی نے بکھرے ہوئے روپے اٹھائے ۔اس نے وہ چند سکے اپنی چھاتیوں میں رکھنا چاہئے مگر رک گئی ۔ اس کا جی نہیں کیا کہ یہ چھینے ہوئے روپے وہ اپنے بدن سے لگا ئے۔ ا س نے وہ روپے گنیش جی کی مورتی کے ساتھ پڑے ہوئے دِیے کے ساتھ مداراسی عورت کے لئے رکھ دئیے ۔
سوگندھی دروازہ لگا کر پھر سے سونے کی کوشش کر نے لگی ۔اسے مادھو پر جو غصہ آیا تھا وہ ختم ہو گیا تھا ۔کبھی وہ سوچتی کہ اچھا ہوا اسے بھگا دیا، مواءجان کو آیا ہوا تھا ۔ مفت کا مال سمجھ کریوں بھاگتا آتا تھا جیسے کسی مندر میں بھکاری آتے ہیں ، ”اونہہ “ بڑا آیا مجھے حوالدارنی بنانے والا….وہ خیال کی رُو میں بہتے ہوئے سوچ تو گئی لیکن پھر سے اونہہ پر اٹک گئی ۔اسے لگا جیسے اونہہ اس کے ساتھ چپک کر رہ گئی ہے،بالکل بام کی ٹھنڈک کے احساس کی طرح ، جو ایک بار لگے تو اپنا اثر جانے تک ٹھنڈک جسم پر ٹھہری رہتی ہے ۔ اس نے کروٹ بدل کر سوچا، مادھو ویسے باتیں تو ٹھیک کرتا تھا ۔
”تجھے لاج نہیں آتی اپنا بھاو ¿ کرتے! جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کررہی ہے اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں؟ چھی چھی چھی…. دس روپے اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ اب ان ساڑھے سات روپوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا۔ جو میں لے ہی نہیں سکتا۔ مجھے عورت چاہیے پر تجھے کیا اس وقت اسی گھڑی مرد چاہیے؟ مجھے تو کوئی عورت بھی بھا جائے گی پر کیا میں تجھے جچتا ہوں۔ تیرا میرا ناطہ ہی کیا ہے کچھ بھی نہیں۔ بس یہ دس روپے، جن میں سے ڈھائی روپے دلال میں چلے جائیں گے اور باقی ادھر ادھر بکھر جائیں گے، تیرے اورمیرے بیچ میں بج رہے ہیں۔ تو بھی ان کا بجنا سن رہی ہے اور میں بھی۔ تیرا من کچھ اور سوچتا ہے میرا من کچھ اور۔ کیوں نہ کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری۔ پ ±ونے میں حوالدار ہوں، مہینے میں ایک بار آیا کروں گا۔ تین چار دن کے لیے۔ یہ دھندا چھوڑ۔ میں تجھے خرچ دے دیا کروں گا۔ کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا ؟“
” سالا حرام خور ….بھاڑا دے گا اس کھولی کا….اونہہ….“
وہ بے چین ہو کر اٹھ بیٹھی ۔ اسے خود سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا سوچے ،اس نے اپنی دھوتی سمیٹی اور پلنگ پر آ لتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔وہ چاہتی تھی کہ ساری آ وازیں ایک دم سے ختم ہو جائیں ، یہاں تک کہ سوچیں بھی اس کے دماغ میں نہ آ ئیں وہ ایک خلا میں چلی جائے ، جہاں صرف وہ ہو ،اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو۔ ایسا ہو نہیں پارہا تھا ، آ وازیں اس کی کھولی میں کسی آسیب کی مانند گھوم رہی تھیں ۔وہ اپنی سوچوں کو چٹکی سے پکڑ کر بھی دور بھی نہیں پھینک سکتی تھی ۔ اسے لگا ،اونہہ کسی میٹھے کے مانند ا س کے بدن سے چپک گئی ہے اوریہ سوچیں اس کے بدن پر رینگ رہی ہیں۔
وہ ایک پہاڑی پر کھڑی تھی ۔اس کے سامنے نیچے کی طرف جاتا ہوا ٹیڑھا میڑھا راستہ تھا ۔وہ نیچے اترنا چاہتی تھی لیکن اس کے پاﺅں پتھروں نے جکڑ رکھے تھے ۔وہ اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ نیچے کیسے جائے، انہی لمحات میں درختوں کی اوٹ سے عجیب الخلقت مخلوق نکل کر اس کی طرف بڑھنے لگی ۔ اس نے غور سے سناوہ اونہہ اونہہ کرتی ہوئی اس کی جانب بڑھ رہی ہے۔خوف کے مارے اس کی جان نکلی جا رہی تھی ۔ وہ گلا پھاڑ کر مدد کے لئے کسی کو بلانا چاہ رہی تھی لیکن کوئی بھی اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ کوف زدہ تھی ، شاید پسینے سے اس کا بدن بھیگ گیا تھا
دروازہ پھر سے بج اٹھا تھا ۔
اس کی آ نکھ کھل گئی ۔ اسے لگا دستک کی آواز کسیلے مادے میں ڈھل کر اس کی کانوں میں جھنجلاہٹ پید کر رہی ہے ۔اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ اٹھ کر دروازہ کھولے ۔ وہ مادھو کا چہرہ پھر نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔ ایسے میں پھر سے دستک ہو ئی ۔اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے دروازہ کھولا تو باہر جمنا کے ساتھ وہی مدراسی عورت کھڑی تھی ۔
” تم سو تو نہیں رہی تھی سوگندھی ؟“ جمنا نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا
” ارے نہیں ، نیند ہی نہیں آ رہی تھی ۔“اس نے کہا
” ہاں بھلا، اتنی جلدی نیند تجھے کاہے کو آ نے لگی ، ابھی میںنے تیرے مرد کو باہر جاتے ہوئے دیکھا ہے ۔یہ مدراسن میرے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی ، میںنے کہا چل سوگندھی کے پاس چلتے ہیں، وہ جو دے گی سو دے گی ، باقی میں اسے دے دوں گی ، یہ توجائے نا بے چاری ۔“ اس نے مدراسی عورت کی طرف دیکھ کر کہا جو ابھی تک کھڑی تھی ۔ تبھی سوگندھی نے گنیش جی کی مورتی کے پاس جہاں دِیے کے ساتھ مروڑیاں پڑی تھیں، اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
” وہاں رکھ گیا ، جو بھی ہے ، تیرے لئے ہے ، اٹھا لے ۔“
مدراسی عورت آ گے بڑھی اور اس نے وہ روپے اٹھالئے ،اتنی دیر میں جمنا نے اپنے پلو سے بندھے کچھ روپے نکالے اور مدراسی عورت کو دے دئیے ۔ وہ خوشی سے نہال ہو گئی تھی ۔اتنی نہال کے اس کے آ نسو نکل پڑے ۔
” اچھا اب جا ۔“ جمنا نے کہا تو وہ مدراسی عورت سر جھکائے وہاں سے چلی گئی ۔سوگندھی پھر سے پلنگ پر بیٹھ گئی تھی ۔ جمنا اسے یوں غور سے دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔ سوگندھی نے اس کا دیکھنا محسوس کرتے ہوئے پوچھا
” کیا بات ہے ری ، یوں کیسے دیکھ رہی ہے ؟“
” آج تُو کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ، لگتا ہے تیرے مرد نے کچھ زیادہ ہی زورا زوری کی ہے تیرے ساتھ ، تھکی پڑی ہے تو ۔کیا تجھے یہاں کوئی گُر یاد نہیںآیا جو یوں مرجھائی ہوئی بیٹھی ہے ۔“یہ کہتے ہوئے وہ ہونٹوں میں ہنس دی تھی
” کیا بتاﺅں ری جمنا، مرد کتنے کھردرے ہوتے ہیں ، انہیں خیال ہی نہیں ہوتا،گوشت کو بھنبھوڑتے ہیں،یوں چاٹتے چومتے ہیں جیسے سارا جوانی کا رَس پی جائیں گے ، مگر یہ خیال نہیں کرتا کہ عورت میں بھی پیاس بھڑک اٹھتی ہے ، ایک آ گ کی مانند، بس اپنی رقم پورے کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔“ اس نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تو جمنا نے اسے غور سے دیکھا، آج اسے بالکل بدلی ہوئی سوگندھی لگ رہی تھی ۔ عورت کا فطری تجسس جا گ گیا تھا ، وہ پتہ لگانا چاہ رہی تھی آخر ہوا کیا ، اس لئے جلدی سے بولی
”کہیں تو اپنے مرد سے سچا پریم تو نہیں کرنے لگی ، ارے سوگندھی ہمارے جیسی بھاﺅ تاﺅ کرنے والیوں کے لئے یہ موا پریم سب سے ظالم چیز ہے ، پریم کر و اور بھوکے مر و ۔“
”تو سچ کہتی ہے ، پر بہت ساری چیزیں اپنے اختیار میں بھی تو نہیں ہوتیں ۔“ سوگندھی نے یوں کہا جیسے بڑبڑا رہی ہو۔
”بس تو پھر تیرا بزنس ٹھپ سمجھو ، میں کہوں تم خود ہی اپنا بزنس ٹھپ کرنے کے چکر میں ہو ، تجھ سے نہیں ہوگا یہ ۔“ جمنا نے ٹھسے سے بیٹھتے ہوئے ہاتھ نچا کر یوں کہا جیسے وہ کود بڑی سمجھدار ہے۔
” کیا مطلب ہے تیرا ؟“ سوگندھی نے چونک کر پوچھا
”تو اپنا حال دیکھ ، ہمیں تو بڑے گر بتاتی ہے ، پر تم ، تجھے خود پر بھی رحم نہیں آ تا ، اپنی حالت دیکھی ہے کبھی ،تجھے تو اپنی بغلیں مونڈھنا بھی نہیں آ تیں ،اوپر سے یہ میلی چکٹ تیری کھولی ہے ، پر تجھے اپنا خیال کہاں ، تجھے اتنی بار کہا ہے کہ تیرے یہ بمب سنبھال کر رکھو ، انگیا پہنا کرو ، پر مجال ہے تو کسی کی سنتی ہو ۔“
”پر جو مرد لینے آ تا ہے ، اس کا ان چیزوں سے کیا تعلق ؟“ اس نے حیرت سے یوں پوچھا جیسے اسے معلوم ہی نہ ہو ۔
”اُونہہ، جیسے تجھے پتہ نہیں ۔“ جمنا کے منہ سے نکلا تو گویا اونہہ کسی دھویں کی مانند کھولی میں پھیل گئی ، اسے لگا جیسے وہ ایک ٹھنڈی گھٹن کے حصار میں آ گئی ہے ۔یا پھر باہر لگے کھمبے کی ٹھنڈک اس کی کھولی میں آ کر دیواروں سے لگ کر بیٹھ گئی ہے ۔ سوگندھی نے حیرت سے سوچا ،
اسے غصہ کیوں نہیں آ یا ، کیا اس نے اونہہ کے ساتھ سمجھوتا کر لیا ہے ، یا اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیا ہے ۔تبھی جمنا کی آ واز کہیں دور سے آ تے ہوئے سنائی دی ،” بولتی کیوں نہیں ؟“
” کیا کروں میں ؟“ اس نے اکتاہٹ سے پوچھا
”تجھے یاد ہے ایک بار تم نے ایک مرد کا قصہ سنایا تھا ، اری وہی جو اندھیرا نہیں کر رہا تھا ، تو لائٹ اون کر تی تھی اور وہ پھر جگا دیتا تھا ۔“
” ہاں مجھے یاد ہے ۔“ اس نے بے چارگی سے کہا
”یاد کر تم نے اس کے بارے بتاتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ سالے نے تیس روپے سٹے میں جیتے ہوں گے جو یوں مفت دے گیا۔“
” ہاں ، ایسا ہی کہاتھا شاید ….“
”مجھے بتا روز کون اتنے روپے مفت میں دے کر جاتا ہے ، سالے ہڈی پسلی توڑ کے جاتے ہیں ، بولے تو بھنبھوڑ کے جا تے ہیں ۔بتا کون دے کر جاتا ہے ؟ہے کوئی ایسا ؟“ جمنا نے جذباتی لہجے کہاتو سوگندھی چونک گئی ۔
” وہ تو بس ایک بار ہی ایسا ہو اتھا ، پھر تو کوئی نہیں دے کر گیا ۔“
” بس یہی بات ، وہی ساڑھے سات روپے بچتے ہیں ۔ ڈھائی روپے رام لال لے جاتا ہے ، تیرا نرخ تو دس روپے ہے ، کون دے تجھے تیس روپے ؟“ جمنا نے کہا تو اس میں ایک تفاخربھی تھا ۔سوگندھی خاموش رہی تو وہ بولی ،” دیکھ میں تیرے بھلے کے لئے کہتی ہوں ،کچھ اپنا خیال کر ، ذرا بن ٹھن کر رہا کر ، یہ مونڈنے کا چکر چھوڑ ، کوئی یہاں آ ئے تو اسے خوشبو آ ئے ۔وہ پھر بھی تیری چاہت کرے ، پھر بھلے تو اپنا نرخ تیس روپے کر دے ۔گاہک تو مال دیکھ کر آتا ہے نا ۔“ جمنا نے آخری لفظ آ نکھ مارتے ہوئے کہا توسوگندھی کو لگا جیسے اس کے ارد گرد گھومتی ہوئی اونہہ ایک دم سے تھک کر دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی ہے ۔اونہہ دیواروں پر یوں پھیل رہی تھی جیسے آکاس بیل ، وہ جو ہرے بھرے درختوں کو ساری شادابی چوس کر، پیلے زرد کر دیتی ہے ۔
جمنا تو ڈھیر ساری باتیں کر کے چلی گئی ، مگر سوگندھی کو یاد رہی تو صرف ایک بات ، اب اس کا نرخ تیس روپے ہو نا چاہئے ۔بھاڑ میں جائے کوئی پریم کرتا ہے یا نہیں کرتا ، وہ خود کو ایسا بنا لے گی کہ گاہک خود تیس روپے دے ۔یہ سوچتے ہوئے اس کے اور رام لال کے درمیان سکے بجنے لگے ، کیا تیس روپے میں بھی اس کی دلا لی بڑھ جائے گی ، اب ساڑھے سات وہ لے گا ، مجھے بچیں گے ساڑھے بائیس…. چل کوئی بات نہیں ، اتنے ہی کافی ہیں ۔ اس نے خود کو مطمئن کیا ۔ پھر خود ہی اپنے آپ پر ہنس دی ۔ اس نے اونہہ کر بزنس میں بدل لینے کا فیصلہ کر لیاتھا ۔
ٹھنڈ بڑھ گئی تھی لیکن پھر بھی وہ سر شام نہا دھو کر دھلی ہوئی پرانی ساڑھی پہن کر بیٹھ گئی تھی ۔اس نے اپنی آ نکھوں میں کاجل لگاتے ہوئے پہلی بار غور سے آ ئینے میں خود کو دیکھا ۔تبھی اسے مادھو کی بات یاد آ گئی ۔
”سوگندھی، پانی کا یہ گھڑا۔ دیکھنا کتنا میلا ہے اور یہ۔ یہ چیتھڑے۔ یہ چندیاں۔ اف کتنی ب ±ری باس آتی ہے، اٹھا کے باہر پھینک ان کو۔ اور تو نے اپنے بالوں کا ستیاناس کر رکھا ہے۔ اور۔ اور۔ “
لاشعوری طورپر اس کا ہاتھ اپنے بالوں کی طرف چلا گیا ۔اس کے بال بالکل اجاڑ ہو رہے تھے ۔اس نے سوچا اب ان کا بھی خیال رکھے گی ، تبھی اس نے آ ئینے میں اپنی بغل کو دیکھا، اسے خود گھن آ ئی ، ابھرا ہواشکن آلود گوشت جو بار بار مونڈنے کی وجہ نیلی رنگت اختیار کرگیا تھا۔ یوں جیسے ن ±چی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑا وہاں پر رکھ دیا گیا ہو۔ یہ سوچتے ہی اسے جمنا نے جو طریقہ بتایا تھا ، وہ سوچتے ہوئے اسے لاج آ گئی ، وہ پہلے تھوڑا سا مسکرائی پھر ایک دم سے قہقہ لگاتے ہوئے بے اختیار بولی
” اونہہ، سالا یہ کیا ….“
ایک دم سے وہ ٹھٹک گئی ۔اس نے اپنے لفظوں پر غور کیا تو اس بار اسے اونہہ کہنے پر کوئی خلا محسوس نہیں ہوا ۔ کوئی کیفیت نہیں بدلی ۔ اس کا مطلب تھا کہ اگر وہ اونہہ کو بزنس میں بدل رہی ہے تو اچھا کر رہی ہے۔
وہ مڑی اورکرسی پر بیٹھنے لگی ، تبھی اسے ہاتھ میں تیل کی چپچپاہٹ محسوس ہو ئی ، وہ چندلمحے کھڑی رہی پھر دھلی ہوئی چادر لا کر ساگوان کے پلنگ پر ڈال دی ۔ ساگون کے پلنگ پر بیٹھی وہ سوچ رہی تھی ، آج سے وہ اپنا ریٹ تیس روپے کر دے گی ، ابھی رام لال آ تا ہے تو اسے بتا دے گی ۔ وہ بکے گا تو سہی ، جھک جھک بھی کرے گا مگرمیں اسے منا لوں گی ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ وہ گاہک نہیں لائے گا ، نہیں لاتا تو نہ لا ئے ۔بھوکی تو میں بھی نہیں مرنے والی ۔
رات ہو گئی تھی ۔وہ کسی بھی گاہک کے لئے خود کو تیار کر کے بیٹھی تھی ۔ ایسے میں رام لال اس کی کھولی میں آ گیا ۔اس نے آ تے ہی اسے دیکھا ، پھر تھوڑا حیرت سے بولتا چلا گیا
” اری کیا بات ہے ری ،یہ جوتم ہو نٹوں پر سرخی لگا لیتی ہو نا، تب بہت ظالم ٹائپ کی چیز لگتی ، لگتا ہے ، اس سالے خرام خور مادھو نے منی آ رڈر بھیج دیا ہے پونے سے ؟“
” ارے نہیں رام لال ، رات وہ آ یا تھا ، پچاس روپے مانگ رہا تھا ۔“ اس نے یوں کہا جیسے رات والے سیٹھ کا غصہ وہ مادھو پر اتار رہی ہو
” اور تو نے دے دئیے ، کتنی بار سمجھایا…. سالے اس مادھو سے جان چھڑا، پر تیرے جیسی لڑکیاں ،جو عشق پیار کے چکر میں پڑی ہوتی ہیں، سالی بھوکی مرتی ہیں ۔اور تو اور ، ان کمینوں کو پلے سے روپے بھی دیتی ہیں ،گویا عشق نہ ہوا سالا دھندہ ہو گیا ۔کتنی بار سمجھایا ہے اس سالی کانگرس نے جینا دو بھر کر دیا ہے ۔ تم اس سے روپے بچا کر رکھا کرو ، اسے دکھایا ہی نہ…. “ اس نے کہنا چاہا لیکن سوگندھی ا س کی بات کاٹتے ہوئے کاروباری انداز میں کہا
” بھگا دیا سالے حرام خور کو ،اب دوبارہ نہیں آ ئے گا ۔“
” ہائیں ، ایسا کیا …. بھگا دیا؟“ یہ کہتے ہوئے اس نے دیوار پر دیکھا، وہاں مادھو کی تصویر نہیں تھی ۔ وہاں مادھو کی کیا کسی کی بھی نہیں تھی ۔رام لال یوں سر ہلانے لگا جیسے بہت کچھ سمجھ گیا ہو ۔تبھی وہ بولا،”یہ تم نے بڑا اچھا کیا ، چل اب دھندے کی بات کر ، باہر ایک سیٹھ کھڑا ہے ، تیار تم ہو ، آجا ،جلدی کر مجھے کہیں اور بھی جانا ہے ۔“ اس نے کہا تو سوگندھی کو جیسے یاد آ گیا
اے رام لال سن ، آج سے میرا بھاڑا ہوگا تیس روپے ، اس میں تیری دلالی ہوگی ساڑھے سات روپے ، پہلے تو مجھے ساڑھے سات دیتا تھا ، اب تو لیا کر ۔“ اس کی بات سن کر رام لال یوں منہ پھاڑے اس کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے اس نے کوئی بہت ہی عجیب بات کر دی ہو ، تھوڑی دیر بعد حیرانگی سے کھلا اپنامنہ بند کیا اور پھر انتہائی حیرت سے بولا
”ابے ، تو کیا خواب دیکھ رہی ہے ، تو کوئی فلم سٹار ہے ، مدھو بالا ہے تو ، اری تیرے کون دے گا تیس روپے ۔ اپنے آپ کودیکھا ہے تو نے ، اونہہ….“ جیسے ہی رام لال کے منہ سے اونہہ نکلا، اسے لگا کہ وہ ٹھنڈے پانی میں گر گئی ہے ۔وہ سارا پانی لوہے کی ٹھنڈے پتروں کی طرح اس کے بدن سے لگ کر اسے گھیرے میں لے رہا ہے ۔ اس کی ہتھیلیاں تک بھیگ گئی ہیں ۔ اس کے سارے بدن میں ایک نامعلوم سی اینٹھن ہونے لگی ہے ۔جسے نہ تو وہ غصہ کہہ سکتی تھی اور نہ بے چارگی ، تبھی اس نے بڑے سکون سے کہا
”رام لال ، یہ دھندا ہے ، چیز میری ،دام میرے ،اگر وہ آتا ہے تو ٹھیک ، ورنہ تو بھی اپنی شکل گم کر ….“
”دیکھ سوگندھی، تو پاگل ہو گئی ہے ، رات والا سیٹھ پاگل تھا ، تم اس کا غصہ ، اس سیٹھ پر مت اتار ، چل آ ، دس بھی دے گا تو ….“رام لال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو تیزی سے بولی
” بس رام لال ، جو کہنا تھا سو کہہ دیا ، اسے یہا ں لے آ ، میں خود بھاڑا طے کرتی ہوں ، پر تیری دلالی پکی جا لے آ اسے ۔“
رام لال کو پانچ برس ہو گئے تھے اُس کے ساتھ دھندہ کرتے ہوئے ۔ وہ پہلی بار اس کے منہ سے ایسی باتیں سن رہا تھا ۔ اس نے سوچا رات والی ہتک سے سوگندھی کا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ وہ بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے ۔ پر مجھے کیا، مجھے تو اپنا کام کرنا ہے ۔ یہ دلا گیری بھی تو رسک ہی ہوتا ہے ، رسک لے لے۔اگر بات بن گئی تو ٹھیک ورنہ ایسا کون سا پہلی بار ہونا ہے ۔ اس نے مزید کوئی بات نہیں کی اور بے دلی سے باہر نکل گیا ۔
سوگندھی پھر سے کرسی پر آ بیٹھی ۔اس نے سوچا کہیں دس روپے والا گاہک ٹھکرا کر اس نے غلط تو نہیں کردیا؟ مگر ایسا کوئی افسوس اس کے دماغ میں نہ تھا ، بلکہ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اگر تیس روپے میں نہیں آ تا تو جائے بھاڑ میں ۔وہ اب دھندہ نہیں بزنس کرے گی۔
ہلکی سے کھڑکھڑاہٹ سے اس نے دیکھا، رام لال ایک گاہک کو لے کر اندر آ گیا تھا ۔ وہ جوان تھالیکن تھوڑا گھبرایا ہوا تھا ۔رام لال نے سوگندھی سے کہا
” لے کر لے خود بات…. “
” دیکھو ، جی ، ہمارا بھاڑا ہے تیس روپے ۔اگر تمہارے دام کھرے نہ ہوں تو قسم سے سارے کے سارے روپے تمہیں لوٹا دیں گے ۔“ اس نے سیدھے سیدھے بات کی تو آ نے والا گھبراتے ہوئے بولا
” کچھ کم نہیں ہو سکتے ؟“
” نہ جی نہ ، یہ دھندہ نہیں بزنس ہے اور ہم بزنس میں اوپر نیچے نہیں کرتی ، آ نا ہے تو ادھر آ جاﺅ، جانا ہے تو جاﺅ ۔“ اس نے روکھے پن سے کہا ۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بازو اٹھا کر یوں انگڑائی لی جیسے بہت تھکی ہوئی ہو ۔اسل مقصد کوئی تھا ۔نووارد نے ایک نگاہ دیکھاجو وہ دکھانا چاہ رہی تھی ، چند لمحے اس نے سوچاتو اور اس کے پلنگ پر آ ن بیٹھا ۔سوگندھی کو لگا جیسے اس نے بہت بڑی دنیا فتح کر لی ہو ، اس نے فاتحانہ انداز میں رام لال کو دیکھاتو وہ حیرت سے اس جوان کی طرف بڑھا ، نوجوان نے سکے گنے اور رام لال کی طرف بڑھا دیا ۔پھر ساری رات نوجوان اور اس کے درمیان تیس روپے بجتے رہے ۔ سوگندھی نے پریم کو چٹکی سے پکڑ کر پلنگ کے نیچے پھینک دیاتھا ۔
دوپہر کو وہ بیدار ہو ئی تو اس کی نگاہیں اپنی کھولی کی خالی دیواروں پر پڑی ، اسے لگا کہ اس کی کاہلی دیواروںسے لٹک رہی ہے ۔ وہ اٹھی ، اس نے کمر کس کی ، پھر شام تک اس نے خوب کھولی کی صفائی کی ، گنجا طوطا بھی حیرت سے اسے تکے جا رہا تھا۔ اس نے اس کے پنجرے کا سارا گند بھی نکال باہر پھینکا ۔ وہ سوچنے لگی کہ کوئی آ تا ہے تو اس سے کچے امرود منگوا کر اس کے پنجرے میں رکھتی ہوں ۔ خارش زدہ کتا تو کھولی کے اندر ہی داخل نہیں ہوا جیسے اسے لگ رہا ہو کہ یہ کوئی کسی دوسرے کی کھولی ہے ۔ وہ باہر ہی تھوتھنی اپنے پاﺅں پر رکھے بیٹھ گیا ۔ سوگندھی نے نہا دھو کر گنیش جی کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑے ، اگر بتی جلائی اور رام لال کے انتظار میں بیٹھ گئی ۔ کوئی دن تھے جب وہ اپنے آپ کو سنوارتے ہوئے یہ سوچتی کہ وہ خود کو پسند کروانے کے لئے یہ تیاری کر رہی ہے تو وہ لاج سے دہری ہو جایا کرتی تھی ۔ لیکن ان د ن وہ چاہتی بھی تھی کہ لاج شرم کہیں سے آ جائے مگر ایسی کوئی کیفیت اس نے اپنے اندر محسوس نہیںکی ، اسے سمجھ آ گئی کہ شاید دھندے میں لاج آ جاتی ہے لیکن بزنس میں نہیں آ تی ۔
شام ابھی ڈھلی ہی تھی کہ رام لال آ ٹپکا ۔ اس نے آتے ہی کھولی کو یوں دیکھا جیسے اجنبی جگہ پر آ گیا ہو ۔ اس نے حیرت سے چاروں طرف دیکھ کرکہا
” اری سوگندھی تو کب سے صاف ستھری ہو گئی ہے ری؟“
اس سوال پر سوگندھی کچھ اور ہی کہنا چاہ رہی تھی یا شاید یہ کہہ دیتی کہ”اب میں دھندا نہیں بزنس کرتی ہو ں ، دوکانداری تو چمکا کر رکھنا ہے کہ نہیں ۔“ لیکن کچھ نہ کہہ سکی بس مسکرا کر رہ گئی ۔کیونکہ اونہہ اور بزنس گھل مل گیا تھا۔ تبھی اسے یاد آ رہا تو وہ روکھے پن سے بولی
” لا ادھر دے میرے رات والے ساڑھے بائیس روپے ۔“
” ہاں ہاں دیتا ہوں ۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ساڑھے بائیس روپے گن کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دئیے ۔
” کوئی گاہک لایا ہے کیا ؟“ سوگندھی نے پوچھا
” ابھی تو نہیں ، جاتا ہوں دیکھتا ہوں ۔“ اس نے کہا تو سوگندھی نے کہا
” ارے سن رام لال ، واپس آئے گا تو کچھ کھانے کو بھی لیتے آ نا ، گاہک آ ئے گا تو اس سے اپنے پیسے کاٹ لینا ۔“
رام لال نے سنا تو پھر حیران رہ گیا ۔ یہ سالی سوگندھی کو ہو کیا ہے ، اتنا لالچ کرتی ہے ، اب اسے ساڑھے بائیس روپے دئیے ہیں ، ان سے نکال کر نہیں دئیے ،لگتا ہے دھندے کی اسے ذرا بھی سمجھ نہیں مگر بزنس اسے خوب آ تا ہے ۔وہ کوئی بات کہہ نہیں سکابس اتنا ہی کہا
” اچھا لاتاہوں۔“ یہ کہہ کر وہ نکلتا چلا گیا ، اسے سوگندھی کا روکھا پن برا لگ رہا تھا ۔
شام گہری ہو کر رات میںڈھل گئی تھی ۔رام لال تو نہیں آیا لیکن میونسپل کمیٹی کا داروغہ صفائی، جسے وہ سیٹھ جی کہا کرتی تھی وہ آ گیا۔ وہ اپنی بغل میں برانڈی کے دو اَدھے نکال کر ہر طرف دیکھنے لگا ، اس نے بھی وہی سوال کر ڈالا
” سوگندھی ، یہ تم ہو نا اور یہ تیری کھولی ہی ہے نا ، کہیں کسی اور کے ہاں تو نہیں آ گیا میں ؟“وہ دانت نکالتے ہوئے بولا
” سیٹھ جی ، یہ میں ہی ہوں اور یہ میری کھولی ہی ہے ۔“سوگندھی نے دھیمے سے کہا تو وہ پھر اسی حیرت سے بولا
”قسم سے تم بڑی ظالم لگ رہی ہو آ ج ، پہلے کبھی اتنی صفائی ستھرائی رکھی ہوتی نا ، تو تیرا دھندہ اور چمک جاتا ۔“
” وہ تو اب چمکے گا سیٹھ جی ، اب میرا بھاڑا، تیس روپے ہے ۔“
” ہائیں ، یہ کیا کہہ رہی ہو ؟تمہیں تیس روپے دے دئیے تو مچھلی کہاں سے آ ئے گی ، سوڈا کیسے آ ئے گا ؟“
”چل آج تو مجھے تیس دے ، سوڈا اور مچھلی میں خود ہی منگوا لوں گی ۔“ سوگندھی نے بیڈ پر پھیلتے ہوئے کہا ۔ برانڈی دیکھ کر اس کا بدن بھی ٹوٹنے لگا تھا ۔سیٹھ جی نے جیب سے روپے نکالے اور اسے دیتے ہوئے بولا
” یہ ظلم کر رہی ہو سوگندھی۔“
”یہ تو بزنس ہے سیٹھ جی ، آپ کاہے کو آتے ہو یہاں ؟“ اس نے مسکراتے ہوئے ایک ادا سے کہا۔ ساتھ ہی اس کی ساڑھی کا پلو گر گیا اور بلاﺅز میں سے اس کا سینہ باہر کو یوں نکل آ یا جیسے ابھی بلاﺅز پھاڑ دے گا ۔سیٹھ جی نے اس کی چھاتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
”یہ جو تیری چھاتیاں ہیں نا یہ مجھے یہاں لے کر آ تی ہیں ، میری دھرم پتنی کا سارا سینہ اکھٹا کر لو تب بھی تیرا ایک طرف نہ بنے ۔ باقی تو سب فضول ہی چلتا ہے ، یہ تجھے بھی پتہ ہے ۔چل منگا سب کچھ۔“
سوگندھی اٹھ گئی تھی ۔
اگلی دوپہر وہ ذرا جلدی اُٹھ گئی۔ وہ سیدھی بازار گئی ۔ اس نے سب سے پہلے ایک ساڑھی خریدی ۔ ساڑھی پسند کرتے ہوئے اس نے کئی بار لاشعوری طور پر اونہہ کہا پھر جب انگیا لینے دوکان پر پہنچی تو دوکاندار نے کئی طرح کے انگیا دکھائے ، وہ دیکھتی اور اونہہ کر واپس رکھ دیتی ۔ دراصل اسے وہ انگیا چاہئے تھی ، جس سے سختائی ٹھیک رہے ۔اس نے دو انگیا خرید لئے تو اطمینان ہوا ۔واپس آتے ہوئے راستے پر ایک دوکان میں اسے مورتیاں دکھائی دیں۔ اس کے قدم وہیں رُک گئے۔دکھ کی ایک لہر اس کے من میں اتر گئی ۔ اس نے سوچا،ساڑھی اور انگیا خریدنے سے پہلے اسے مورتی خریدنا چاہئے تھی۔ اسے گنیش جی کی ایک چھوٹی سی مورتی دکھائی دی ۔ اس نے کچھ دیر بھاﺅ تاﺅ کر کے وہ بھی لے لی ۔بہت عرصے بعد اس نے خریداری کی تھی۔ اسے خوش ہو نا چاہئے تھا لیکن نجانے کیوں وہ بے سکون تھی ۔ اسے لگا جیسے اونہہ نے اس کے سکون میں شامل ہو کر ، اسے بے سکون کر دیا ہو ۔ ہر شے میں سے اونہہ نکل کر اس کے سامنے آ جاتی تھی ۔
واپس آ کر اس نے پرانے کپڑے والی مورتی اتار دی اور اس کی جگہ مٹی سے بنی مورتی رکھ دی۔ وہ کچھ دیر تک ہاتھ جوڑے دھیان گیان میں رہی ۔اسے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ بھگوان سے کیا کہے، اسے کہے کے اس کی زندگی سے اونہہ نکل جائے یا اسی طرح رہے ۔اونہہ بھرا خنک خلا اسے گھیرے ہوئے تھا جس میں اس کی سوچیں تک جم گئیں تھیں۔
کئی دن بعد اس کا آ منا سامنا جمنا سے ہو گیا ۔ اس نے سوگندھی کو دیکھتے ہی بے صبری سے پوچھا
” اری اوسوگندھی ، رال لال بتا رہا تھا تم نے اپنا دام تیس روپے کر دیا ہے، اور تجھے گاہک بھی لگ رہے ہیں ، کیا یہ سچ ہے ؟“
” ہاں نا ۔“ اس نے اپنی نئی ساڑھی کا پہلو لہراتے ہوئے کہاتو جمنا کی نگاہ اس کے سینے پر پڑی ، پھر مسکرا تے ہوئے بولی
”تو نے انگیا پہننا شروع کر دی ہے نا ، بس میں سمجھ گئی رام لال سچ ہی کہہ رہا ہے ۔“
سوگندھی اسے دھندے اور بزنس کا فرق سمجھانا چاہ رہی تھی لیکن جمنا کو جلدی تھی ، اس لئے وہ نکلتی چلی گئی ۔ وہ واپس اپنے ساگوان کے پلنگ پر آ کر لیٹ گئی ۔ اسے وہاں پڑے ہوئے کچھ دیر ہی ہوئی ہو گی کہ ایک خلا نے اسے گھیر لیا ، اچانک ہی حبس بڑھتا چلا گیا ۔اسے لگا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہوں ، کبھی اسے یہ کیفیت اچھی لگا کر تی تھی ، لیکن اب وہ چاہتی تھی کہ آ زاد فضاﺅں میں سانس لے ، اُڑتے ہوئے کہیں دور نکل جائے ۔ایک خوف زدہ کر دینے والی کیفیت تھی۔ حبس زدہ خلا ، گھمن گھیریا ڈالتا ہوا ، اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کر رہا ہے ۔ وہ انجانی دہشت میں مبتلا ہو گئی کہ اگرتیز ہوا چلی تو بکھر کر رھ جائے گی ۔اس نے مضبوطی سے پلنگ کو پکڑ لیا ۔ اس کا سانس تیز ہو گیا تھا ۔ وہ جلدی سے اٹھی ، مٹکے میں سے ڈونگاپانی کا پیااور پھر سے کرسی پر بیٹھ کر خود کو اکھٹا کر نے لگی ۔اسے لگا ، یہ اونہہ اس خلا میں حبس بن کر پھیل گیا تھا ۔
”سوگندھی، تیرے ساتھ زمانے نے برا سلوک کیا ہے ….“ یہ سوچتے ہوئے اس کے اندر بے چارگی والی کیفیت پیدا نہیں ہوئی جو پہلے ہوتی تھی ۔ بلکہ ایک زہر بھری لہر نے اسے بے چین کر دیا۔لاشعوری طور پر اس کے دماغ میں اس نے سوچا”…. لیکن اب میں زمانے کے ساتھ برا سلوک کروں گی ۔“ یہ سوچتے ہی اسے ایک گونہ سکون محسوس ہو نے لگا تھا ۔
دن گزرتے چلے جا رہے تھے ۔وہ پہلے جیسے سوگندھی رہی ہی نہیں تھی ۔اس نے اپنے دام تیس سے کم نہیں کئے تھے ۔اب کہ اس کے گاہک بھی کا فی ہو گئے تھے ۔وہ جو کبھی ترنگ میں آکر جمنا جیسی لڑکیوں کو گُر بتایا کر تھی ، لیکن جیسے ہی کوئی ہلکی سی جذباتی پریم بھری بات کر دیتا تو وہ سارے گُر ہوا میں تحلیل ہو جایا کرتے تھے ۔ وہاں ساگوان کے پلنگ پر پھر ایک پیاسی عورت پڑی پیار کے لئے ترستی رہا کرتی تھی ۔ اب ایسا نہیں تھا ۔ اب وہ کسی کو کوئی گُر بتانے کی بجائے خود اپنے گاہکوں پر آ زماتی تھی ۔اب پریم کہیں نہیں تھا بس اُس کے اور گاہک کے درمیان بزنس بجتا تھا ۔
وہ پہلے جیسی سوگندھی رہی ہی نہیں تھی ۔وہ جو لاپرواہ ہو کر اوندھی سوندھی ہو کر سونے والی سوگندھی کسی باس مارتے گندے گاہک کی طرف دیکھتی بھی نہیں تھی ۔ اس کے بال نہ صرف ریشم کے جیسے ہو گئے تھے ،بلکہ وہ ان میں پھول بھی لگا کر رکھتی تھی ۔اس کے اب پکے چند گاہک تھے ۔وہ آتے ، اس کی ہتھیلی پر تیس روپے رکھتے اور اپنے پیاس بجھا کر اسے مزید پیاسا کر جاتے ۔اکثر دن کے وقت وہ بڑا اوٹ پٹانگ سوچا کرتی تھی ۔ ایک کمی تھی جو اسے بے چین رکھتی تھی ۔ اس کمی کی اسے بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آکر اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ اگر چہ اس نے اونہہ کو بزنس میں بدل کر خود کو بھی تبدیل کر لیا تھا ۔ مگرکمی کا احساس اسے ایک کھردری بے چینی کے ساتھ اس کے اندر کہیں آ بسا تھا جس کے بارے میں وہ خود نہیں جانتی تھی ۔اب اکثر اس کے اور اس کی تنائی کے درمیان پیاس بجنے لگی تھی
اس رات جب اس کا کوئی گاہک نہیں آتا تھا ، میونسپل کمیٹی کا داروغہ صفائی، جسے وہ سیٹھ جی کے نام سے پکارا کرتی تھی وہ بھی نہیں آتا تھا تو اسے اپنی چھاتیوں میں اینٹھن محسوس ہو نے لگتی تھی ۔یہ اینٹھن بڑی نازک سی ہوتی تھی ، یوں لگتا جیسے ریشم کی گھچیاں پھر رہی ہوں ۔اسے انگیا کے نیچے کی سختائی بھی بری لگنے لگتی تھی ۔ایسے میں وہ خود شراب منگوا کر پینا شروع کر دیتی تھی ۔شراب کے نشے میں دھت ہو کر وہ ساگوان کے پلنگ پر سو جاتی ۔تب اسے بڑے عجیب سے خواب بھی آتے مگر صبح اٹھتے ہی وہ سب بھول کر کسی نئے گر کے بارے میں سوچنے لگتی ۔آخر بزنس بھی دیکھنا تھا ۔
کئی دنوں سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ باہر والا اس کے دروازے پر زور سے آ واز لگاتا تھا ۔کبھی وہ اس سے چائے اور افلاطون بسکٹ منگوا لیتی اور جب کبھی سو رہی ہوتی تب اسے آ واز بھی نہ سنتی ۔
اس شام بارش بڑے زوروں کی ہوئی رہی تھی ۔ایسے موسم میں گاہک بڑی آسانی سے مل جاتا تھا ۔لیکن رام لال کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں تھا ۔ رام لال دلال بمبئی شہر کے مختلف حصوں سے دس روپے سے لے کرسو روپے تک والی ایک سو بیس چھوکریوں کا دھندا کرتا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ ممبئی شہر کے کسی دوسرے حصے میں نکل گیا ہوا ، ادھر آ یا ہی نہ ہو ۔ رام لال جب گاہک لے کر آیا تو رات کا فی ہو چکی تھی ۔وہ کوئی ادھیڑ عمر پرانا فوجی تھا ۔ اس نے اگریز کی فوج میں نوکری کی ہوئی تھی ۔ اس نے آتے ہی کھولی میں صفائی کی تعریف کی اور بڑے ٹھسے سے شراب کی بوتل نکال کر بیٹھ گیا ۔ وہ ساری رات پیتے ہوئے باتیں کرتا رہا ۔جب تک شراب کی بوتل ختم ہو ئی ، وہ نشے میں بہک گیا تھا ۔ سوگندھی بھی کچھ کم نشے میں نہیں تھی ۔باقی جو رات بچی تھی ، وہ اسے بھنبھوڑتا ہی رہا ۔ اس پرانے فوجی کو آگ لگانا خوب آتا تھا لیکن سوگندھی کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ اس میں آ گ بجھانے کی سکت ہی نہیں بچی تھی ۔ اس وقت تک رات ختم ہو نے کو تھی اور وہ فوجی بھی آگ لگا کر محاذ پر بے دم ہو کر اوندھے منہ مدہوش پڑا تھا ۔سوگندھی آگ میں جلتی ہوئی پڑی رہی۔
دن ابھی اچھی طرح نہیں نکلا تھا ، اس نے پرانے فوجی کو اٹھایا اور باہر کی راہ دکھائی ۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھ گیا ۔وہ کپڑے پہن چکا تو بولا
” دام تو تیرے اونچے ہیں ، پر تجھے کوئی ایسا کام نہیں آتا ۔ کبھی فرصت ہو تو انگریز عورتوں کے بارے میں سوچنا ۔ وہ اگر ان کے دام مہنگے ہیں تو انہیں آ تا بہت کچھ ہے ۔ تم اور تیرے دام …. اونہہ….“
اچانک ہی وہ اونہہ اس سے لپٹ گئی ۔ ایک دم سے اس کا دماغ بھی غصے سے سلگ اٹھا۔ وہ اسے کھری کھری سنانا چاہتی تھی ۔بے ڈول سا پرانا فوجی اسے موٹر والے سیٹھ کی مانند لگا ۔اس کی جی چاہا کہ وہ جی بھر کر اسے گالیاں دے ۔ وہ سب کچھ کہہ دے جو اس موٹر والے سیٹھ کو دینا چاہتی تھی ، جس نے بیٹری اس کے منہ پر مار کر اونہہ کہا تھا ۔اس نے منہ پھر کر گالیاں دینا چاہی تھیں کہ وہ دروازے کے پاس ہو گیا ۔وہ گم سم سے کھڑی رہی ۔پھر دروازے کی کنڈی لگا کر وہ کرس”