"نہج البلاغہ" کے تحریفی تراجم:
عربی و فارسی کتب کے اردو تراجم میں تحریف، تبدیلی، کم و زیادتی عام طور پر دیکھنے کو ملتی ہے، جس کا جتنا غم کیا جائے کم ہے۔
اصل متن کے ترجمے میں خیانت کرنا درست نہیں ہے۔
اہلِ علم کو اِس جانب ضرور توجہ دینا چاہیے۔ آج کل ایک بڑا مسئلہ کمپوزنگ کا ہے، کتابیں کمپوز کی جاتی ہیں لیکن اُن کی مناسب پروف ریڈنگ نہیں کی جاتی۔ غیر معیاری کاغذ کا استعمال اور قیمت بے تحاشا، یہ الگ مصیبت ہے۔
مطالعہ کے خوگر کو بہت دُکھ سہنا پڑتے ہیں۔ لاہور کے کچھ اشاعتی ادارے ناقص ترجمے، کمپوزنگ کی اغلاط اور ترجمے میں کمی بیشی کے حوالے سے بدنام ہیں؛ نام لینا مناسب نہیں ہے۔
چند روز پہلے، اردو بازار لاہور جانا ہوا، سُنی بریلوی مکتبہ فکر کی دکان پر حضرت علیؑ کے کلام پر مشتمل کتاب "نہج البلاغہ" کے دو ترجمے نظر آئے؛ بڑی خوشی سے اُنھیں دیکھا۔۔۔
دونوں میں کتر و بیونت اور بدترین خیانت سے کام لیا گیا ہے۔ دونوں مترجمین نے امام علیؑ کے بعض خطبات، مکتوبات اور مختصر گفتار کا یا ترجمہ کئی مقامات پر ذکر ہی نہیں کیا یا اپنی پسند کا ایسا حاشیہ چڑھایا ہے جو متن کا حصہ لگتا ہے۔ اہلِ علم اِن دونوں مبنی بر خیانت و تحریف تراجم کو دیکھیں اور ان کی طرف رجوع سے اجتناب برتیں۔
نہج البلاغہ کے اردو میں شیعی تراجم میں مفتی جعفر حسینؒ اور علامہ سید ذیشان حیدر جوادیؒ جبکہ اہلِ سنت علماء میں رئیس احمد جعفریؒ ندوی کا ترجمہ عمدہ ہیں، اُن تراجم میں عربی متن بھی ساتھ موجود ہے۔ مفتی جعفر حُسینؒ والے اردو ترجمے، جسے معراج بُک ایجنسی اور امامیہ پبلی کیشنز وغیرہ اداروں نے کمپوز کر کے شائع کیا ہے وہ لفظی اغلاط سے بھرپور ہے۔ افسوس مفتی جعفر حُسینؒ کے اردو ترجمہ شدہ "نہج البلاغہ" کے کمپیوٹر کمپوز شدہ ترجمہ کی پروف ریڈنگ کا اہتمام تاحال کسی پبلیشر نے نہیں کیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“