سو لفظوں کی کہانی والے، مبشر علی زیدی لکھتے ہیں کہ کوئی خدا یا دیوتا یا روح مقدس ہے یا نہیں، اس بارے میں ہم پر کوئی الہام نہیں اترا۔ وحدت الوجود والے سچے ہیں یا وحدت الشہود والے، ہماری جانے بلا۔ پہلا یا چوتھا یا پانچواں یا چھٹا خلیفہ کسے ہونا چاہیے تھا، ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ اسلام کو کربلا میں نئی زندگی ملی یا نہیں، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ذوالفقار میدان جنگ میں ستر گز کی ہوجاتی تھی، یہ بیان ہمیں حقیقت نہیں لگتا۔ امام ایک وار میں ہزاروں کو قتل کردیتے تھے، ہمیں یقین نہیں آتا۔ حضرت حسین کا سر نیزے پر قرآن پڑھتا تھا، اس کا ہماری عقل میں آنا مشکل ہے۔
اہل سنت کا عقیدہ ٹھیک ہے یا اہل حدیث کا یا اہل تشیع کا، ہم فیصلہ نہیں کرسکتے۔ سب کا عقیدہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ بلکہ ہمارے خیال میں مسلمان، مسیحی، یہودی، ہندو، پارسی سب ٹھیک ہیں۔
ہم خدا کو آپ کی طرح نہیں مانتے لیکن انسان کو مانتے ہیں۔ ہم مذہبی کتابوں پر آپ کی طرح ایمان نہیں رکھتے لیکن تاریخ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اکابرین کے مقلد نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔
ہم نے امام حسین کو مذہب کے دائرے سے باہر جاننے کی کوشش کی ہے۔ کربلا کو اسلام بچاؤ تحریک یا شہزادوں کی جنگ کے بجائے انسانی المیے کے طور پر دیکھا ہے۔ ہم شیعہ ازم کے مسلک یا فرقے پر ایمان لائے بغیر عزاداری کو ایک احتجاجی تحریک سمجھتے ہیں۔
ہمارے خیال میں حسین اور زینب، دونوں کے کرداروں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
امام حسین نبی کے نواسے اور علی و فاطمہ کے بیٹے تھے، ہم اس حقیقت کو بھلا دینا چاہتے ہیں۔ کیا وہ امام اور مامور من اللہ تھے، ہم اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ کیا وہ حکومت یا خلافت کے خواہش مند تھے، اسے بھی بحث کے قابل نہیں سمجھتے۔
لیکن ناجائز حکومت کے خلاف ان کا آواز اٹھانا حریت پسندوں اور انقلابیوں کو متوجہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
انبیا پر وحی اترتی تھی اور وہ خدا یا فرشتوں سے کلام کرتے تھے، ملحد یا متشکک کو اس پر قائل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن تمام نبی انقلابی تھے، اس امر کے سب قائل ہیں۔
انقلابی ہونا، معاشرے کو بدلنے کی نیت کرنا، ناجائز حکومت کے خلاف مزاحمت کرنا انبیا کی سنت ہے۔ اسی لیے کربلا میں غیر شیعوں کو، غیر مسلموں کو امام حسین کا غم مناتے، ان کی قبر کا طواف کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
امام حسین کی شہادت کے بعد جناب زینب اور حضرت زین العابدین کا کردار بہت اہم ہے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ کربلا میں ہونے والا ظلم قیامت تک دنیا کو بھولنے نہیں دیں گے۔ وہ جب تک زندہ رہے، لوگوں کو کربلا میں ہوئے مظالم سے آگاہ کرتے رہے۔ یہ کام ان کی آل اولاد نے سوا ہزار سال سے جاری رکھا ہوا ہے۔
اہل تشیع نے یقیناً اسے مذہب کا حصہ بنالیا ہے۔ وہ مجلس ماتم جلوس اور تبرک میں ثواب تلاش کرتے ہیں۔ لیکن ہم اسے یوں دیکھتے ہیں کہ جب تک جلوس نکلتا رہے گا، لوگ اس کا سبب پوچھتے رہیں گے۔ انھیں بتایا جائے گا کہ یہ امام حسین کی یاد میں نکالا جارہا ہے۔ انھیں کربلا میں قتل کیا گیا تھا۔ انھوں نے ناجائز حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ دنیا تک پیغام پہنچ جائے گا۔
ظاہر ہے کہ کچھ لوگ گریہ کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور اڑاتے رہیں گے۔ کچھ لوگ ماتم کرنے والوں پر اعتراض کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ کچھ لوگ شبیہہ ذوالجناح بنانے اور علم اٹھانے والوں پر حملے کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ حسین کی یاد کو محو ہونے سے بچانے کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔
ہم نے کبھی زنجیر کا ماتم نہیں کیا لیکن عزاداروں کے خون کی قدر کرتے ہیں کیونکہ اس نے کربلا میں بہنے والے خون کو فراموش نہیں ہونے دیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تمام دردمند انسانوں کو ظلم کے خلاف احتجاج میں شرکت کرنی چاہیے۔ تمام حریت پسندوں کو امام حسین کے جلوس میں آنا چاہیے۔
“