کورونا وائرس کی پاکستان میں آمد کے ساتھ ہی یہاں پر دو طرح کی سوچ نے جنم لیا ہے ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کے خطرات کا ادراک کرتے ہوئے خود کو گھروں میں محفوظ کر لیا ہے اور خلقت سے میل جول بھی ترک کر دیا ہے کیونکہ انہیں یہ بات روزِ روشن کی مثل باور ہے کہ اُن کی اپنے آشیاں میں موجودگی ہی اُن کی اور اہلخانہ کی زیست کی ضامن ہے وہ بخوبی واقف ہیں کہ احباب کی وقتی ناراضی بعد کے پچھتاوے سے بہتر ہے، ایسا انسان اِن دنوں اگر بہ حالت مجبوری باہر جاتا بھی ہے تو حُکام بالا کے اور ڈاکٹرز کے بتائے ہوئے احتیاطی طریق اپنا کے جاتا ہے اور گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے ہاتھوں کو بتائے گئے طریقے سے اچھی طرح دھوتا ہے اور ماسک بھی خوب بہتر طریقے سے دھوتا ہے یا تلف کر دیتا ہے اور ٹشو کو بار بار استعمال کرنے کی بجائے ایک ہی بار استعمال کر کے کوڑا دان میں پھینکتا ہے اور اگر چھینک آئے یا زکام کی شکایت ہو تو منہ یا ناک پر ہاتھ کی بجائے کپڑا یا ٹشو یا بازو رکھتا ہے ایسا بشر بار بار ہاتھ کو ناک، آنکھوں یا کانوں کو نہیں لگاتا اور نہ ہی بار بار اس سے جسم کو کھجاتا ہے، ایسے شخص کو اگر کرونا وائرس جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو خاندان سے الگ تھلگجائے،
اتا ہے اور چیک اپ کرواتا ہے چھپتا چھپاتا نہیں ہے، جبکہ ایک اور سوچ کے حامل افراد بھی ہیں جو اس وائرس کو محض مذاق اور شغل گردانتے ہے اور اس کی تباہ کاریوں پر چند تضحیک آمیز جملے کستے ہیں اور اس کے بعد روز مرہ کی طرح مصروفیات جیون میں منہمک ہو جاتے ہیں انہیں نہ تو اربابِ اختیار اور دوسرے مسیحاؤں کی زبانی سنی احتیاطی تدابیر سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی سیکیورٹی اداروں کی محنت سے کوئی مطلب، ان سے اگر کوئی سنجیدگی اختیار کرنے کا کہہ بھی دے تو فوراً فلسفیانہ انداز اختیار کر لیتے ہیں اور موت کے معین وقت پر لیکچر دیتے ہیں اور اگر کہا جائے کہ جان بوجھ کر موت کو دعوت دینا یا گلے لگانا خودکشی ہے اور اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے تو پینترا بدل لیتے ہیں اور دریشی اختیار کرتے ہوئے لب گویا ہوتے ہیں کہ جو ہونا وہ ہو ہی جانا ہے اور اس طرح متفکر رہنے یا خود کو گھروں میں چھپا لینے سے کچھ حاصل نہیں بلکہ یہ تو نری سر دردی ہے اور کچھ نہیں، یہ مست قسم کی سوچ کے لوگ ہیں جسے کہتے ہیں نہ"یبل کھاتہ"یہ وہی بشریت ہے کہ ہمیں کیا؟ ایسے لوگوں کو اگر وائرس کا عارضہ لاحق ہونے کی بھنک پڑے یا تشخیص ہو جائے تو یہ ڈھٹائی کے ساتھ راہِ فرار اختیار کرتے ہیں اور اپنے اِس قبیح فعل سے نہ صرف اپنی حیات کو پُر خطر بنا لیتے ہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی مشکلات کے ودیت کردہ بن جاتے ہیں اس سوچ کے حامل افراد یہ بھی گمان نہیں کرتے کہ حقیقت میں وہ بیماری سے نہیں بھاگ رہے بلکہ اپنے جیون سے بھاگ رہے ہیں اور دوسروں کے سر کا درد بھی ثابت ہو رہے ہیں وہ کسی کی بات کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں، انہیں یہ سب کھیل تماشا دکھائی پڑتا ہے ایسی سوچ کے مالک لوگ ہی اصل میں خطرناک ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا جیون بھی اجیرن بنا رہے ہیں، انہیں اپنی یہ خو بدلنے کی از حد ضرورت ہے تا کہ بڑھتے ہوئے اس وائرس پر قابو پایا جا سکے تا کہ نسلِ اِنسانی سکھ کا سانس لے سکے.دوسری صورت میں خدانخواستہ ہمارا حال بھی ان ممالک جیسا ہو سکتا ہے جہاں روزانہ سینکڑوں اموات ہو رہی ہے اور بر وقت احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کے کارن وہ مبتلائے مصیبت ہیں وجہ کیا ہے کہ انہوں نے اس وائرس کو بہت ہلکے میں لیا مگر اب یہ وبالِ جان ثابت ہو رہا ہے، ہمیں اس وائرس سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نا ہے مگر خدارا ان گزارشات پر عمل تو کیا جائے جو بار بار بتائیں جا رہی ہیں تا کہ اس کا جلد سے جلد تدارک کیا جا سکے اور ملک پاک کو اس سے پاک کیا جائے،
اِس بات سے بھی انکار نہیں کہ توبہ و استغفار بھی لازم ہے اور یہ وباؤں اور بلاؤں کو ٹال دیتی ہے مگر صفائی کا بھی تو اسلام ہی درس دیتا ہے اس لئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ احتیاط و صفائی کا پلو تھامنا بھی وقت کی اشد ضرورت ہے ورنہ اس وبا پر قابو پانا نا ممکن ہو جائے گا اور بعد میں سوائے ملامت زدہ رہنے اور خود کو کوسنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا مہربانی فرما کر حکومت اور اداروں کا ساتھ دیں تا کہ اس مصیبت سے نکلنے میں کامیاب ہو سکیں بس اس کرونا سے ڈرنے کی نہیں سینہ تان کر اور احتیاط اپنا کر لڑنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“