نام کتاب: غبار (افسانوی مجموعہ)
مصنف: قیسی رام پوری (اصل نام: خلیل الزمان خان)
سن و جائے پیدائش: 1904 – رام پور
صفحات: 180
قمیت: 400 روپے
ناشر: اظہار سنز، 19 – اُردو بازار، لاہور۔ فون: 037230150۔
ای میل: [email protected]
"آج جب ہم اطراف میں نظر دوڑائیں تو لاتعداد افسانہ نگاروں کے مجموعے شائع ہوتے اور بکتے نظر آتے ہیں اور رہی سہی کسر ان ادبی تقاریب اور کانفرنسوں میں پوری ہوجاتی ہے۔ جہاں اُردو کے ان ہی چند ادیبوں کے افسانے اور اُن کے تزکرے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ان بہت سے نامور لکھنے والے افسانہ نگاروں کے کام کو بھی ازسرِنو یاد کیا جائے جو اب طاق نسیاں میں سجا دیئے گے ہیں۔ ایسے تمام ادیبوں کی تخلیقات کی بازیافت اور اُن کی اشاعت وقت کی ضرورت ہے۔"
زیرِنظر کتاب میں شامل قیسی رام پوری کے نواسے جناب عادل حسن کی بیان کردہ افسوسناک حقیقت پڑھ کر جہاں دل کو یہ سوچ کہ دھچکا لگا کہ اُردو ادب نے نہ جانے کیسے کیسے گوہرِنایاب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھلا دیا اور جن معدودے چند شائقینِ اُردو ادب نے اُنہیں یاد بھی رکھا تو اُنہیں ڈھونڈے سے بھی کہیں ان نابعہِ روزگار ادیبوں کی تصانیف میسر نہیں آتیں۔
وہیں یہ جان کربھی قدرے سکون کا احساس ہوا کہ چلیں کسی اور کو تو نہ سہی خُود اُن کے نواسے کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے اِس گم گشتہ خزانے کا ایک تابدار موتی زمانے کے سمندر سے نہ صرف ڈھونڈ نکالا بلکہ اُسے زیورِ طباعت سے سجا کر اُردو ادب کے قارئین کی خدمت میں پیش بھی کردیا۔
شُنید ہے کہ اٰس گم گشتہ خزانے سے چند اور اہم ترین گوہرِنایاب گاہے بہ گاہے تشنگانِ ادب کی خدمت میں پیش کیے جاتے رہیں گے جو کہ بلاشبہ ایک قابلِ تحسین قدم ہوگا۔
قیسی رام پوری نے 1930 کی دھائی کے اوائل میں اپنی افسانہ نگار اور 1940 کی دھائی میں ناول نگاری کا آغاز کیا۔ بہت سے پڑھنے والوں کے لیے شاید یہ امر باعثِ حیرت ٹھرے کہ اُن کی تصانیف کی کُل تعداد سو سے بھی زائد بنتی ہے جن میں ناولوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اُس میں سے 50 کے قریب ناول تو وہ ہیں جو اب کہیں دستیاب ہی نہیں۔ عادل حسن بھائی نے اِسی کتاب میں شامل اظہاریئے میں انکشاف کیا ہے کہ وہ ادب سے متعلق اپنے قریببی احباب کی مدد اور کراچی میں صدر میں لگنے والے پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے قیسی رام پوری کی نایاب تصانیف کی ایک بڑی تعداد کی بازیافتگی میں کامیاب رہے ہیں۔
زیرِنظر مجموعہ کل 14 افسانوں پر مبنی ہے۔ پہلی بار 1944 اور پھر اگلا ایڈیشن ایک برس بعد ہی دوبارہ شائع ہوا۔ جس کے بعد سالِ رواں میں منظرِعام پر آنے والے مجموعے کو تیسرا ایڈیشن قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
کم و بیش تہتر برس قبل لکھے گئے افسانے آج بھی موجودہ سماجی، معاشی اور انسانی صورتحال سے کچھ یوں لگا کھاتے ہیں کہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کسی اور زمانے کے لکھے افسانے ہیں۔
افسانے "مستقبل بناتا ہوں" سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"مدرسہ کی تعلیم کے بعد میں ایک متعصب کٹر مسلمان تھا۔ میرے اندر رواداری وسیع الخیالی نام کو نہ تھی۔ ہاں تنگ نظری اور تاریک بینی کی فراوانی تھی۔ میں ہندو تو کیا مسلمانوں تک کے لیے اپنے تنگ دل میں گنجائش نہیں پاتا تھا۔"
آئیں اب مجموعے میں موجود افسانوں کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔
مجموعے کا اولین افسانہ "آخری فتح" ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو کہ یتیم خانے کے تنگی و تُرسی کے ماحول میں میں پل بڑھ کر جوان ہوا۔ یتیم خانے سے نکل کر راج مزدوری کرنے لگا کہ ایک روز عمارت کے انجنیئر کی جان بچانے کے سبب نگاہوں میں آ کر اُن کے گھر پر ملازم ہو جاتا ہے جہاں اُس کی ملاقات اپنے بچپن کی یتیم خانے کی ساتھی محمودہ جو کہ وہاں ملازم ہے، سے ہو جاتی ہے۔ آگے کے معاملات کا اندازہ اس اقتباس سے لگائیں:
"میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ حیران حیران مجھے نہ دیکھو۔ میں تم کو یہ دم دینے کی کوشش نہ کروں گا کہ میں تم پر پروانے کی طرح فدا ہوں۔ تم سے غیر مادی محبت کرتا ہوں ہاں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اب تک مجھ مختصر عمر میں جس قدر لڑکیاں نظر آئی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ تم کو پسند کرتا ہوں۔"
مجموعے کا دوسرا افسانہ "دھبہ"، بلاشبہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو کہ کہلاتے مولوی زاہد ہیں اور اپنے نام کی ماند عابد و زاہد بھی ہیں۔ عالمِ شباب میں ایک روز نمازِ جمعہ کے لیے جاتے ہوئے شہر کی ایک گلی میں اچانک چھت کی منڈیر سے نیچے گر کر زخمی ہونے جانے والی طوائف کو اپنی عابدی و زاہدی داو پر لگا کر ہسپتال لے جاتے ہیں اور وہاں ڈریسر اور ڈاکٹروں کی معنیٰ خیز نگاہوں اور تبسم کا شکار بنتے ہیں۔ پھر ٹھیک تیس سال بعد وہی طوائف جان بلب ہو کر اُنہیں خط لکھ کر اپنی جوان جہاں بیٹی کو عافیت میں لینے کی درخواست کرتی ہے۔ مگر اب صُورتحال وہ نہیں رہی۔ مولانا زاہد اب خُود ایک جوان جہان صاحبزادے جو کہ ڈاکٹر ہے کے والد ہیں۔ اُن کے دل میں اب بھی خلقِ خدا کی خدمت کا جذبہ ہے مگر سوچتے ہیں کہ کیسے اپنے بیٹے کو ماضی میں ایک طوائف کی جان بچانے اور اب وہ اپنی صاحبزادی کو اُن کی پرداخت میں دینے کی خواہشمند ہے، سے آگاہ کریں۔
"انتظارِ خط" دو دوستوں کی کہانی ہے جس میں سے رمیش جو کہ قول و فعل کے تضاد کا شکار ایک ادیب ہے۔ اُس تضاد نے جہاں افسانے کے راوی کی زندگی اور سوچنے کے زوایئے کو بدل کر رکھا دیا وہیں ایک معصوم لڑکی کو اپنی جان گنوانے پر بھی مجبور کردیا۔
"عارضی قاضی الحاجات" بلاشبہ ایک بے حد عمدہ اور پُراثر افسانہ ہے جس میں دربارِ ایزدی میں اپنے معبود کے رُوبرو کھڑی ایک رُوح اپنے لیے "قاضی الحاجات" کے اختیارات کی درخواست کرتی ہے اور اختیارات مل جانے کے بعد حقائق اُس کی بصارت کے سامنے کن اشکال میں آتے ہیں یقیناً وہ قابلِ مطالعہ ہے۔
اگلے افسانے "نشاطِ غم" کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"اب ذرا سنجیدگی سے افلاس اور ذہانت کے تعاون پر بھی غور کرو۔ تم نہیں دیکھتے کہ ہندوستان میں اکثر گھرانوں کے اندر کیسے کیسے ذہانت کے پھول کھلے ہوئے ہیں لیکن چوں کہ ان کی آب یاری سونے کے پانی سے نہیں ہوتی وہ افلاس کے اندھیرے میں مرجھا کر رہ جاتے ہیں اور ایسے مرجھاتے ہیں کہ اُن کی خاک سے پھر کوئی سرسبز پودا کھڑا نہیں ہوتا۔ ان ذہانت کے نوشگفتہ پھولوں سے مہک آتی ہے مفکری کی، صناعی کی، ایجاد و اختراع کی لیکن ہمارے نصابِ تعلیم کا متفعن پانی ان کی ابتدا ہی میں جڑ مار کر رکھ دیتا ہے۔"
ذرا اندازہ لگائیں کہ آج سے تہتر برس قبل لکھے گئے افسانے کے مندرجات کس کمال خُوبی کے ساتھ عصرِ حاضر کی صُورتحال سے کماحقہ طور پر میل کھاتے نظر آتے ہیں۔ دراصل یہی ایک دور بین اور دور اندیش افسانہ نگار کا کمال ہوتا ہے کہ اُس کا برسوں پہلے کا لکھا حرف حرف افسانے پڑھے جانے کے ادوار کے حالات سے میل کھاتا نظر آتا ہے جو کہ بلاشبہ ایک بڑے افسانہ نگار کا خاصہ ہے۔
افسانہ "چور"، ایک ایسے چور کی کہانی جو کہ اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے اُس چچا کے گھر چوری کرتا ہوا پکڑا جاتا ہے جس نے اُس کی وراثت کو بے ایمانی سے دبا رکھا ہے اور معاشرے میں ایک دریا دل ساہوکار کے تاثر سے مشہور ہے۔
"سکون" ایک ایسے شخص کا افسانہ جو دُور اُفتادہ چھوٹے سے قصبے کی ایک لڑکی کو دل تو دے بیٹھا مگر اظہار نہ کرسکا۔ پھر کئی برسوں بعد اُس کا سامنا اپنے ہی شہر میں اُس سے ایک بیوہ کی صُورت میں ہوتا ہے جہاں وہ مجرد زندگی بسر کر رہا ہے۔ حالات نے اُنہیں ایک بار پھر آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے مگر کیا اب وہ اُسے کچھ کہ پائے گا یا۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟
"آبگینہ" ایک ایسے شرابی کی کہانی جو شراب تو نہ تیاگ سکا البتہ ریسٹورنٹ میں بجتے کنن بالا کے ریکارڈ سُن سُن کر اُس کے عشق میں گرفتار ہو کر ایک روز اُس کے گھر میں جا گھُستا ہے اور گرفتار ہو جاتا ہے۔
افسانہ "لیڈی ٹکٹ چیکر" کی قرات سے تو مجھے کسی طور یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ آج سے تہتر برس قبل لکھا ہوا افسانہ ہے۔ ریلوے ویٹینگ روم میں رات گزارنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی جو لیڈی ٹکٹ چیکر سے جا ٹکراتا ہے۔ ایک بے حد عمدہ اور دلچسپ افسانہ۔
"صداقت" نامی یہ افسانہ بھی بے حد پُراثر اور انسانی نفسیات کے اُن پہلو کو اجاگر کرتا ہے جس کے تحت ایک بے ایمان انسان بھی اپنے دیئے قول اور خُود پر کیے گئے بھروسے کی بقاء کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔
گو کہ اس مجموعے کے کم و بیش تمام ہی افسانے بے حد عمدہ اور دلچسپ ہیں مگر مجھے افسانے "صداقت" کے علاوہ جو دوسرا افسانے بے پناہ پسند آیا وہ ہے "کنگن"۔ یہ افسانہ بھی اپنے ماحول اور کرداروں کے سبب عصرِ حاضر ہی میں قلم بند کیا گیا کوئی افسانہ جان پڑتا ہے اور کسی طور بھی تہتر سال پرانا افسانہ محسوس نہیں ہوتا۔
ایک ایسے پڑھتے لکھے ولایت پلٹ نوجوان کی کہانی جو کہ اپنی منگیتر کا کنگن یہ سوچ کر جیب میں رکھ لیتا ہے کہ اس کے ناپ سے دوسرا بنوا کر بطور تحفہ پیش کرے گا مگر محض ایک معمولی بات سے وہ نہ صرف چور سمجھا جاتا ہے اور عزتِ نفس کے تحفظ کی خاطر وہ اس جھوٹ پر ڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے وہ کنگن نہیں آُٹھایا۔ اس افسانے میں انسانی نفسیات کو بہت ہی عمدگی اور مہارت کے ساتھ قاری کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔
"تمتیلی نوجوان" بھی ایک بہت ہی دلچسپ افسانہ ہے جس میں ایک نوجوان اپنے مالک کی مغرور ولایت سے پلٹتی صاحبزادی کے ساتھ بحری جہاز میں واپسی کے سفر کے دوران اُس کے دل میں گھر کر کے اپنے لیے نہ صرف ایک خوبصورت و تعلیم یافتہ بیوی بلکہ تمام تر آسائیشات حیات کے حصول میں بھی کامیاب رہتا ہے۔
مجموعے کا آخری طویل افسانہ "مستقبل بنا رہا ہوں"، جس کا ایک اقتباس میں نے ابتداء میں پیش کیا تھا۔ بھی ایک بہت ہی متاثر کن افسانہ ہے۔ یہ ایک سچے مسلمان اور نیک ہندو عورت کے بیٹے کی کہانی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر خُود کو مثبت طور پر بدل کر اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے اور اپنے ہندو ماموں جو کہ اُسے مسلمان ہونے کے سب کمتر گردانتا ہے کو قائل کر کے بناء تبدیلی مذہب اُس کی بیٹی جسے وہ کمسنی ہی سے چاہتا ہے سے شادی کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔
مجموعے میں موجود افسانوں کے اس مختصر جائزے سے موضوعات کے تنوع اور اُن کی گہرائی و گیرائی کا کسی نہ کسی حد تک اندازہ تو ضرور لگا جا سکتا ہے مگر اس کا اصل لطف کتاب کے مکمل مطالعے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے جس کی میں اپنے تمام پڑھنے والوں سے بھرپور سفارش کروں گا۔
کتاب کی ابتداء میں "فیسی رام پوری اور غبار" کے عنوان سے رفاقت علی شاہد اور "قیسی رام پوری کی افسانہ نگاری" کے عنوان سے پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے ضیاء الحسن کے خالص تنقیدی مضامین بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کتاب کے اختتام پر "تصانیف قیسی رامپوری" کے عنوان سے قیسی رامپوری کے ناشران کے لحاظ سے اُن کی تصانیف کی فہرست پیش کی گئی ہے۔
بعدازاں "آپ ہمیں یاد ہیں" کے عنوان کے تحت محترم عادل حسن اور "چند تاثرات" کے عنوان پروفیسر سحر انصاری کے تاثراتی مضامین بھی پڑھنے لائق ہیں۔
میں فیسی رامپوری کے اس افسانوی مجموعے کی اشاعت کے روحِ رواں محترم عادل حسن بھائی کو اُردو ادب کے قارئین کو ایک گم گشتہ ادبی نگینہ اسرِنو روشناس کروانے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“