"ارے بھئی شمشاد زرا اِدھر تو آنا"۔
میں نے نیوز روم کے دروازے کے ساتھ اسٹول پر بیٹھے سینے سے سر لگا کر سوتے چپراسی کو زور سے آواز دیتے ہوئے کہا۔ میری آواز کی گھن گھرج سے بےچارے نے گھبرا کر ٹھوڑی اٹھائی اور نیند کے خُمار میں ڈوبی ہوئی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
"ارے بھئی شمشاد زرا جلدی اِدھر آؤ"۔
میں نے ایک بار پھر اُسے اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا اور وہ ایک جھینپی ہوئی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے تیزی سے میری میز کی طرف دوڑا۔
"دیکھو یہ فولڈر فوری طور پر آفاقی صاحب کے پاس لے جاؤ اور اُن سے کہنا کہ اِس میں ایک خط ہے اور میں نے آخر میں اپنا نوٹ بھی درج کیا ہے، اُسے فوری طور پر پڑھ لیں۔ بہت اہم بات ہے"۔
شمشاد نے میرے ہاتھ سے فولڈر لیا اور خاموشی سے سر ہلاتا ہوا آفاقی کے کمرے کی طرف چل پڑا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی دروازہ فوری طور پر اپنے خُودکار میکانیکی نظام کے زیرِاثر بند ہو گیا۔ میں مسلسل بند دروازے کو گھورے چلا جارہا تھا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ کاش میری آنکھوں کی بینائی اِس قدر تیز ہوتی کہ میں دروازے کے پار جھانک کر یہ دیکھ لیتا کہ اُس خط کو پڑھتے ہوئے آفاقی کے چہرے پر کیا تاثرات نمودار ہو رہے ہیں۔
ہمارے اخبار کے نیوز روم میں عین درمیان ایک بڑی سی بیضوی میز لگی ہوئی ہے جس کے گرد کوئی آٹھ دس کے قریب مخلتف شبعہ جاتی نیوز ایڈیٹرز مقامی، اندرونِ ملک اور بیرونی ممالک کے نمائیندگان و نامہ نگاران کی ارسال کردہ خبروں اور رپورٹوں کی ایڈیٹنگ کرتے ہیں۔ نیوز روم کے اندر ہی ہارڈ بورڈ کی دیواریں کھڑی کر کے بنائے گئے دو کمروں میں سے ایک میں تو چیف نیوز ایڈیٹر شوکت آفندی اور دوسرے میں ادارتی صفحہ کا انچارج منہاج آفاقی بیٹھتا ہے۔ میری میز کونے میں قدرے الگ تھلگ سی ہے کیونکہ میں ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والے کمپوز شدہ مضامین کی پروف ریڈنگ کے علاوہ ایڈیٹر کے نام خطوط اور اخبار کے ہفت روزہ میگزین کے لیے موصول ہونے والے مضامین کو پڑھنے کے بعد ضروری کانٹ چھانٹ کر کے اُنہیں اشاعت کے قابل بنا کر اپنے آگے رکھے آؤٹ باکس میں ڈال دیا کرتا ہوں جسے کمپوزنگ سیکشن سے کوئی نہ کوئی آ کر لے جاتا ہے۔
اِس سارے دفتر میں آفاقی ہی تو ہے جس سے میں کھل کر بات چیت کر لیتا ہوں۔ گو کہ وہ عمر میں مجھ سے کوئی پندرہ بیس سال چھوٹا ہے لیکن نہ صرف عہدے میں سینئر ہے بلکہ جب آج سے دس سال پہلے میں اپنی فوجی کی نوکری سے رٹائیرڈ ہونے کے بعد اِسی اخبار میں نوکری کا اشتہار پڑھ کر انٹرویو دینے کی غرض سے آیا تھا تو میرا انٹرویو خود منہاج آفاقی ہی نے لیا تھا۔ جب اس نے یہ سُنا کہ میں فوج سے رٹائیرڈ ہوا ہوں تو پہلے تو وہ بڑا حیران ہوا اور پھر بولا:۔
"بھلا کہاں فوج اور کہاں اخبار کے شبعہِ ادارت کی ملازمت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔
"دراصل مجھے اُردو ادب اور صحافت سے بے حد گہری و دیرینہ دلچسپی ہے"۔
میرا جواب سُن کر آفاقی کے چہرے پر ایک ہلکی سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔ وہ اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے میری آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا:۔
"چلیں تو پھر ایسا کیئے لیتے ہیں کہ آپ ایک عدد مضمون یہاں میرے دفتر میں ہی لکھ کر دکھائیں۔ عنوان ہوگا:۔ 'پاکستانی ادب و صحافت کا ایک مختصر جائزہ'۔ اس طرح سے نہ صرف آپ کی اُردو کی جانچ ہوجائے گی بلکہ یہ بھی پتہ لگ جائے کہ آپ اِس ملازمت کے لیے موزوں امیدوار ہیں کہ نہیں۔ آپ کے پاس اس کام کے لیے تین گھنٹے ہیں"۔
خیر صاحب، مجھے اِس دفتر میں کام کرتا دیکھ آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے کہ میرا لکھا وہ مضمون نہ صرف آفاقی کو پسند آیا اور اُس نے فوری طور پر میری تقرری کا خط جاری کروا دیا بلکہ میرا وہ مضمون اخبار کے مگیزین کی اگلی اشاعت میں اھتمام کے ساتھ شائع بھی کردیا۔
میں آفاقی کی عزت محض اس لیے نہیں کرتا کہ اُس نے مجھے اِس عہدہ کے لیے منتخب کیا تھا۔ دراصل اِس کا سبب اِس کی غیر معمولی قابلیت اور اُردو ادب اور فنِ صحافت سے اِس کا غیر معمولی لگاؤ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اِن دس سالوں میں، میں نے آفاقی سے شبعہِ صحافت کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔
میری نظریں ابھی تک دروازے پر ہی جمی ہوئی تھیں۔ اچانک دروازہ کھلا اور میری توقع کے عین مطابق شمشاد سیدھا میری میز کی طرف آیا اور بولا:۔
"نجمی صاحب آپ کو صاحب بلا رہے ہیں"۔
"یار کتنی بار سمجھایا ہے کہ میرا نام نجمی نہیں ہے، نجم رحمانی ہے لیکن مجال ہے کہ تم نے کبھی میرا نام درست پکارا ہو"۔
میری شکایت سُن کر وہ حسبِ معمول اپنے دانت نکال کر نہ جانے کیا بُڑبُڑانا شروع ہو گیا۔ میں اُسے یونہی بُڑبُڑاتا چھوڑ کر آفاقی کے کمرے کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا چل دیا۔
"جی نجم صاحب آئیں، تشریف رکھیں"۔
آفاقی نے مجھے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
"یہ خط کہاں سے آیا ہے؟"۔ آفاقی نے خط ہوا میں لہراتے ہوئے دریافت کیا۔
"جی یہ آج کی ڈاک سے موصول ہوا ہے"۔
۔"لیکن نجم صاحب، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مقتول جو کہ اب اِس دنیا میں موجود ہی نہیں، خط لکھے۔ یہ تو کسی کی شرارت معلوم ہوتی ہے"۔
"خیر اب اِسے شرارت تو نہ کہیں آپ۔ یہ خط ایک بے حد گھمبیر داستان بیان کر رہا ہے۔ میرے خیال سے ہماری بھرپور توجہ کا متقاضی بھی ہے۔ آپ نے میرا نوٹ تو پڑھ ہی لیا ہوگا۔ یہ ایڈیٹر کے نام موصول ہوا ہے۔ ویسے تو آپ نے ہی میری صوابدید ٹہرائی ہے کہ میں جس خط کو چاہے شائع کروں لیکن اِس خط کی غیرمعمولی نوعیت کے سبب میں نے آپ سے اِسے ایڈیٹر کی ڈاک میں شائع کرنے کی اجازت طلب کی ہے"۔
"لیکن بھلا اِسے کیسے شائع کیا جاسکتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ کسی نے مقتول کا نام استعمال کر کے یہ خط لکھا ہے"۔
"جی آپ درست فرما رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیں نا کہ اِس خط کے مندرجات کس قدر اہم ہیں اور اِس میں اٹھائے گئے نکات کتنے بامعنیٰ اور وزن دار ہیں"۔
"لیکن کیا اِس کی اشاعت سے شور نہیں مچے گا؟ ایسا خط جس کا لکھنے والا کب کا قتل کیا جا چکا ہو اور بناء یہ جانے کہ اِسے کس نے لکھا ہے، اِس کی اشاعت سے اخبار کی ساکھ پر منفی اثر نہ پڑے گا؟"۔
"میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کچھ ہوگا۔ بلکہ اِس کی اشاعت سے تو ہمارے قارئین پر یہ واضح ہو جائے گا کہ صرف ہمارے اخبار کا نام ہی انصاف کی آواز نہیں بلکہ ہم انصاف کا ساتھ دینے والوں میں سے بھی ہیں۔ ویسے آپ نے بغور اسے پڑھ تو لیا ہے نا؟"۔ میں نے آفاقی کے سامنے پڑے خط کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
"ہاں پڑھ تو لیا ہے لیکن ایسا کریں کہ آپ اِسے ایک بار آوازِ بلند پڑھیں اور پھر ہم اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مقتول سے منسوب کرکے اِسے ہمارے اخبار کو ارسال کرنے کا آخر مقصد کیا ہوسکتا ہے؟"۔
آفاقی کے کہنے پر میں نے خط کو قدرے بلند آواز میں پڑھنا شروع کر دیا:۔
جناب ایڈیٹر صاحب
روزنامہ انصاف کی آواز
میرا نام شاہ زیب ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔
جی ہاں، وہی شاہ زیب خان جس کا قاتل "وڈیرے کا بیٹا"، چھوٹا وڈیرا سائیں اُسے بےگناہ قتل کردینے کی پاداش میں اپنی سزا کے اعلان والے دن فخریہ انداز میں مسکراتے ہوئے اپنی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتا ہوا کمرہِ عدالت سے برآمد ہوا۔
جی ہاں، وہی شاہ زیب خان جس کے قاتل کا چہرے سزا کے اعلان پر یوں دمک رہا تھا کہ جیسے اُسے عدالت نے سزائے موت نہیں بلکہ تمغہِ شجاعت سے نوازا ہو۔
جی ہاں، وہی شاہ زیب خان جس کے قاتل کا بھائی"منجھلا وڈیرا سائیں" احاطہِ عدالت میں اچھل اچھل کر یہ نعرے لگا رہا تھا کہ: "ہم جیت گئے، ہم جیت گئے، ہم جیت گئے"۔
جی ہاں، وہی شاہ زیب خان جس کے قاتل کو اُس کا باپ "بڑا وڈیرا سائیں"، احاطہِ عدالت میں یوں گلے لگا کر اُس کا ماتھا چوم رہا تھا جسے وہ حج کرکے یا سرحدوں پر دشمنانِ وطن کو جہنم واصل کر کے غازی بن کر لوٹا ہو۔
عین انصاف کے گھر میں اور انصاف فراہم کرنے کے زمہ داران کے نرغے میں یہ دلخراش مناظر ملک بھر کے بچے بچے نے براہ راست دیکھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔!۔
احاطہِ عدالت میں میرے قاتل کی شرشاریاں، محافظانِ قانون کی دلداریاں، اُس کے چہرے کی سرخیاں، فخر و اطیمان اور لواحقین کے رعونت ذدہ چہروں سے ہی خلقِ خدا نے تو اِسی لمحے انصاف کی بولی اور اُس بُولی سے کھلیی جانے والی ہولی کی بُو سونگھ لی تھی۔
معزز عدلیہ، انصاف فراہم کرنے والے عزت مآب جج صاحبان اور خود انصاف کی سرعام توہین پر اُسی وقت سومٹو ایکشن لے لیا جاتا تو شاید آج نوبت یہاں تک نا پہنچتی کہ لوگ کہتے کہ میرے خُون کی بولی لگا کر اُس کا سودا کر دیا گیا۔
محترم ایڈیٹر صاحب، اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ معزز عدلیہ چاہے تو اب بھی سومٹو ایکشن لیا جاسکتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی بے وقعت باتوں پر سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والے سماجی، سیساسی، مذہبی اور عوامی راھنما اِس معاملے پر آخر کوئی پٹیشن کیوں دائر نہیں کرتے؟
یاد دکھیں اگر آج یہ معاملہ معافی تلافی کر کے یونہی رفع دفع کردیا گیا تو گزرے کل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، شاہ زیب خان قتل ہوا تھا۔ آنے والے کل گھر گھر شاہ زیب قتل ہوگا اور ہر قتل ہوتے شاہ زیب کے ساتھ ساتھ اُس کا خُون اس قدر ازاں ہوتا چلا جائے گا کہ قصاص میں کروڑ تو کیا شاید ہزار بھی نہ ملیں۔
اِس امید کے ساتھ کہ میرا یہ خط آپ اپنے اخبار میں ضرور شائع کریں گے۔
مقتول
شاہ زیب خان
خط پڑھ کر میں نے ایک گہری سانس لی اور پھر آفاقی کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھنے لگا۔
" ایسا کرتے ہیں کہ آپ یہ خط میرے پاس ہی چھوڑ جائیں۔ میں زرا سوچ لوں پھر دیکھتے ہیں کہ اِس کا کیا کرنا ہے"۔
آفاقی کی بات سُن کر میں کرسی سے اٹھا اور مڑ کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک پیچھے سے آفاقی کی اجنبی لہجے میں قدرے دھیمی سی آواز سنائی دی۔
"نجم صاحب، زرا سُنیئے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !"۔
میں ابھی ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ آفاقی کی آواز سُن کر چونکا اور پلٹ کر اُس کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھنے لگا۔
"نجم صاحب، اگر بُرا نا مانیں تو ایک بات کہوں"۔
"جی ضرور"۔
"نجم رحمانی صاحب، آپ تو فوج میں رہے ہیں، آپ اتنے بزدل کب سے ہو گئے کہ آپ کو اپنی بات کہنے کے لیے ایک جعلی خط کا سہارا لینا پڑ گیا؟"۔
آفاقی کی دھمیے لہجے میں کہی بات میرے حواس پر تیر کی طرح لگی۔ کچھ دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کو بس خاموشی سے تکتے رہے۔
"تو آپ کو پتہ لگ گیا کہ یہ خط میرا ہی تحریر کردہ ہے"۔
"نجم صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! میں آپ کو پچھلے دس سالوں سے جانتا ہوں۔ آپ کے خیالات اور سوچ سے بھی بخوبی آگاہ ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی سی بات سمجھ نہ پاؤں۔ ویسے تو مجھے اِسے پڑھتے ہی شک سا ہوگیا تھا اور میں نے آپ کو اِسی لئے اِسے پڑھنے کو کہا تھا۔ اِسے پڑھتے ہوئے آپ کی آنکھوں کی نمی، لہجے کی کسک اور چہرے کی سُرخی نے ساری بات عیاں کر دی"۔
" جی میں نے کسی خوف یا ڈر کے سبب ایسا نہیں کیا بلکہ میرا خیال تھا کہ اگر یہ خط مقتول کے نام سے ہی شائع ہوجائے تو شاید زیادہ اثرانگیز ثابت ہو"۔
"تو آپ بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صلح نامہ انصاف کا قتل ہے"۔
"جی ہاں بات کچھ ایسی ہی ہے"۔
"لیکن کیوں؟"۔
"آفاقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "، میں نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا:۔ "میں آج سے لگ بھگ چالیس سال پہلے فوج میں بطور سپاہی ڈھائی سو روپے ماہوار کی تنخواہ پر بھرتی ہوا تھا۔ بھرتی ہونے کے فوری بعد میری پوسٹنگ ایک ایسی سرحدی چوکی پر ہوگئی جہاں ہر وقت سرحد پار سے بلااشتعال گولہ باری ہوتی۔ ایک روز رات کے وقت دشمن کی طرف سے اچانک داغے جانے والا گولہ عین ہماری چوکی پر آن گرا۔ اُس وقت وہاں مجھ سمیت چار سپاہی متعین تھے، سب شدید زخمی ہوئے۔ ہسپتال پہنچتے پہنچتے دو سپاہی شہید ہو گئے۔ صرف میں اور ایک دوسرا سپاہی جانبر ہو سکے۔ لیکن ہم اس قدر رخمی ہوگئے تھے کہ کئی ماہ تک ہسپتال میں ہی پڑے رہے اور پھر کسی قدر صحتیاب ہونے پر چھ ماہ کی رخصت پر بھیج دیا گیا"۔
"اوہ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے پہلے کبھی زکر نہیں کیا"۔
" آج بھی نہ کرتا بس یوں سمجھ لیں کہ ضرورتاً کر رہا ہوں"۔
"ضرورتاً۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔
"جی ہاں ضرورتاً۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ جب میں کچھ دن بعد اِس قابل ہوا کہ تھوڑا اِدھر اُدھر چل پھر سکوں اور گھر میں پڑے پڑے اُکتانے لگاتا تو پٹیوں میں لپٹے جسم کو بےساکھیوں کی مدد سے گھسیٹ گھسیٹ کر گھر سے باہر نکل آتا۔ یوں تو لوگ فوجی اور سرحدوں پر زخمی ہونے کی وجہ سے میرا احترام کرتے لیکن کئی لوگ مجھ پر آوازے اور پھبتیاں بھی کستے"۔
"آوازے اور پھبتیاں کستے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ مگر وہ کیوں؟"۔
"اُن کا خیال تھا کہ میں نرا چُغد ہوں کہ محض ڈھائی سو روپے کی نوکری کی خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈال رکھی ہے اور میرے پیچھے مجھ پر آوازے کستے۔ ان میں چند شرارتی لڑکے تو مجھے دیکھتے ہی نعرہ بازی کرنے لگتے کہ دیکھو وہ جا رہا ہے ڈھائی سو رُوپلی کا مجاہد"۔
"آپ کو تو اِن باتوں پر بہت غصہ آتا ہوگا؟"۔
"شروع شروع میں تو ان باتوں کو نظر انداز کرتا رہا لیکن ایک دن میرے صبر کا پیمانہ بس چھلک ہی پڑا اور پلٹ کر اُن سے چلا کر کہا کہ اگر میں اور مجھ جیسے ڈھائی سو روپلی کے مجاہد اور ڈھائی سو روپلی کے شہید سرحدوں پر زخمی نہ ہوں یا اپنی جان نا دیں تو یاد رکھو کہ تم اور ملک بھر کے لوگوں، اُن کی اولادیں، ماں، بہن اور بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں سکون کی نیند کے ایک ایک پل کو ترسیں"۔
"واہ کیا سولہ آنے کھری بات کہی آپ نے"۔
"ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !"۔ میں ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے دور خلاؤں میں گھورتا ہوا بولا:۔ "میری کہی ہوئی وہ بات اُس وقت تو ضرور سولہ آنے درست تھی لیکن نہیں جانتا کہ اب یہ بات سولہ تو کیا دو آنے بھی درست ہے یا نہیں؟"۔
"کیا مطلب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔
"مطلب تو صاف ظاہر ہے۔ آپ کے خیال میں ہم لوگوں نے وہاں سرحد پر فقط اُن ڈھائی سو رُوپلی کی خاطر گولے کھائے تھے یا آج کی تاریخ میں سرحد پر متعین سپاہی چند ہزار کی نوکری کی خاطر اپنی کروڑوں کی جان دشمن کی ڈھائی رُوپلی کی گولی کھا کر دے دیتا ہے؟"۔
"نہیں خیر اب ایسی بھی بات نہیں"۔
۔"بات اصل یہ ہے کہ ہر اِنسان کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ جان کی قمیت ڈھائی سو روپلی تو کیا ڈھائی ہزار، ڈھائی لاکھ بلکہ ڈھائی کروڑ سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن فقط ڈھائی رُوپلی کی وہ حقیر سی گولی سپاہی اِس آس میں کھاتا ہے کہ یہ گولی کھا کر نہ جانے کتنے ہی معصوم و بے گناہ ہم وطنوں کی قیمتی جانیں دشمن کی ہزاروں اور لاکھوں گولیوں سے محفوظ رھ سکے گیں"۔
"بیشک، درست کہہ رہے ہیں آپ"۔
"کیا خاک درست کہہ رہا ہوں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میں شاید واقعی چُغد تھا کہ محض ڈھائی سو رُوپلی کی خاطر سرحد پر دشمن کا گولہ کھا کر لوگوں کی پھبتیاں سہی اور ڈھائی سو روپلی کا مجاہد کہلایا۔ میرے وہ ساتھی جو شہید ہوئے وہ بھی شاید ڈھائی سو رُوپلی ہی کے شہید تھے۔ اُن کی جانیں محض ڈھائی سو رُوپلی کی خاطر رائیگاں چلی گئیں"۔ یہ کہتے کہتے میری آواز شدتِ جذبات سے بھرّا گئی اور میری آنکھیں جو کہ آنسوؤں سے بھر آئی تھیں، اُن کا بوجھ مذید سہار نہ سکیں اور چھلک پڑیں۔
میری یہ حالت دیکھ کر آفاقی تیزی سے اپنی کرسی سے اٹھا اور میز پر رکھا پانی کا گلاس لے کر میری طرف بڑھا اور گلاس مجھے پکڑا دیا جسے میں نے ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔ خالی گلاس میرے ہاتھ سے لے کر اِس نے نے مجھے کرسی پر بٹھایا اور بولا:۔
"ارے نجم صاحب، آپ تو جذباتی ہو گئے"۔
"جذباتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !جذباتی نہ ہوں تو کیا کروں۔ کیا میں نے سرحدوں پر گولے کھا کر اپنا تن بدن اِس لیے چھلنی کیا تھا؟ کیا میرے ساتھیوں نے جامِ شہادت اِس لیے نوش کیا تھا کہ وہ "وڈیرے کا بیٹا"، چھوٹا وڈیرا سائیں اپنی سزائے موت کے حکم پر وکٹری کے نشان بنا بنا کر ملک و قوم، اِس کے قانوں دان و قانون پسند بانی، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح، ملک کے آئین و دستور، قانون و عدلیہ کے رکھوالوں اور ملکی قوانین پر عمل کرنے والی عوام کے منہ پر مسلسل تھوکتا چلا جائے؟ اُس کی مذموم اور قابلِ نفرت حرکات پر اُسے روکنے والے کوئی محض اِس لیے نہ ہو کہ وہ ایک کروڑ پتی وڈیرے سائیں کا بیٹا ہے جس کا اثر و رسوخ حکومت کے اعلیٰ سے اعلیٰ ایوانوں تک ہے۔ اب تو اِسے مقتول کے والدین کی طرف سے معافی نامہ بھی مل گیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اِس واقعہ کے بعد ملک کے لیے گولی کھا کر جان دینے والا ہر سپاہی خواہ وہ میری طرح ڈھائی سو روپلی کی اوقات والا سپاہی ہو یا پھر چند ہزار والا، اپنی اپنی لحد میں ضرور تڑپ تڑپ گیا ہو گا اور اپنی قیمتی جان کو اس قدر سستے میں گنوانے پر ضرور افسوس کر رہا ہوگا"۔ اتنا کہنے کے بعد میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور پُھوٹ پُھوٹ کر رو پڑا۔
"ارے آپ مایوس کیوں ہوتے ہیں؟" آفاقی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے دھیرے سے ہوئے کہا۔
"مایوس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! آج ہر وہ سپاہی مایوس ہوگا جس نے محض اِس آس میں وہ ڈھائی روپلی کی گولی کھا کر جان دی کہ میری ایک جان کے بدلے انگنت جانیں محفوظ ہوگئی ہیں۔ اگر جو یہ خُونی درندہ باہر نکل آیا تو یہ اور اِس قبیل کے سارے جنگلی درندوں کو معصوم و بےگناہ لوگوں کی جانوں سے کھلینے کا لائسنس مل جائے گا۔ ہاں مگر دوسرے لائسنسوں کی طرح انہیں اِس لائسنس کی کچھ قمیت چکانا ہوگی۔ جس کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں"۔
"جی ہاں کہتے تو سچ ہیں آپ"۔
"ایک سچ اور بھی سن لو کہ آج ہر شہید کو کہ جس نے ملک و قوم کے لیے جان دی، اپنی قربانی ضائع ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہوگی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ اُس نے تو اپنی جان اِس لیے دی تھی کہ اِس ملک کے سارے شاہ زیبوں کی جانیں محفوظ ہو جائیں۔ لیکن آج اگر مر رہا ہے تو وہی معصوم شاہ زیب خان اور اگر کوئی زندہ ہے اور شاید زندہ بھی رہے گا تو اُس کا قاتل "وڈیرے کا بیٹا"، چھوٹا وڈیرا سائیں اور اِسی قماش کے دیگر لوگ"۔
"بس نجم صاحب اب اس بات کو جانے دیں، دیکھیں آپ کے حواس پر بھی اِس کا بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ انشاءاللہ و تعالیٰ، اللہ بہتر کرے گا۔ اور ہاں ایسا کریں کہ یہ خط دو کالمی سرُخی میں اِس کپشن کے ساتھ کہ یہ جس نے بھی تحریر کیا ہے ادارہ اس کے مندرجات سے متفق ہے، کل کی اشاعت میں ادارتی صفحے پر نمایاں طور پر شائع کرنے کے لیے فوری طور پر کمپوزنگ کے لیے بھیج دیں"۔
یہ کہتے ہوئے آفاقی نے وہ خط مجھے پکڑا دیا۔
http://www.avadhnama.com/single.php?edition=Lucknow+Urdu&date=2016-01-24&p=7
“