’’بٹوارہ‘‘ کا تجزیہ
’’کہتے ہیں کہ بڑا آدمی وہ ہے جس سے مل کے،ملنے والا خود کو بڑا سمجھے‘‘
ڈاکٹر سریندرپال سنگھ اوبرائے بھی ایسی ہی ملکیت کے مالک ہیں۔ڈاکٹر مظفر علی شہہ میری نے ڈاکٹراوبرائے سے ملاقات کی تو بٹوارا کے ’عرض مترجم‘ میں لکھا ہے کہ’’حیرت ہوئی کہ جو آدمی روزانہ دس بارہ لاکھ خیرات کرتا ہووہ اتنی سادگی سے لوگوں سے مل رہا ہے میں انگشت بہ دنداں رہ گیا‘‘۔
مولوی عبدالحق یونیورسٹی کی بنا میں ڈاکٹر اوبرائے بہت بڑے معاون ومددگار رہے جس کے شکریہ میں مظفر صاحب نے اب کے ناول ’بٹوارے ‘کااردو مٰں ترجمہ کرنے کا بخوشی اظہار کیا۔
ناولٹ بٹوارا میں انتساب پروفیسر سربجندرسنگھ اوران کی دونوں پیاری بیٹیوں مرحومہ وفااور مرحومہ نور کے نام منسوب کیا گیا ہے۔یہ ایک ایسا ناولٹ ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان علیٰحدہ علیٰحدہ کیا گیا ۔اس میںایک حقیقت چھپی ہے مطالعہ کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ڈاکٹر۔ایس۔پی۔اوبرائے کی آب بیتی ہے یقیناًیہ ان کی حقیقی زندگی کا ایک پہلو ہے۔جسے ڈاکٹر سربجندرسنگھ نے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیاہے۔
جب پروفیسر مظفرشہہ میری کتاب کا ترجمہ کررہے تھے تب وہ اپنے آپ کو کردار کی شکل میں ڈھال لیتے تھے کبھی پریتم کبھی چراغا تو کبھی موہنا بن جاتے تھے۔اسکی وجہ یہ تھی کہ ان کی پرورش بھی دھرابی جیسے ایک چھوٹے سے قصبہ ’کدری‘ میں ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں ان کے دوست بھی پریتم،چراغا،موہنا جیسے ہیں اور آج بھی قائم ودائم ہے اور وہ اللہ سے دعا گو ہے کہ قیامت تک ان کی دوستی ایسی ہی قائم وادائم رہے گی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے صفحات درج نہیں کئے گئے۔کیونکہ مصنف کا خیال ہے کہ’’بعض زندگیاں لامحدود ہوتی ہیں۔چنانچہ ان کی سوانح حیات لکھتے وقت کا شمار نہیںکرنا چاہیے۔‘‘
’بٹوارا‘صرف زمین کا نہیں تھا انسانوں کا بھی تھا جس میں مسلمان اور ہندو الگ الگ ہوگئے۔یہ صرف دھرتی کا بٹوارا نہیں تھا یہ دلوں پر لکیر کھیچنے والا بٹوارا تھا جس میں خوب خرابہ بھی ہوا۔لیکن وہیں ایک ایسی ہستی بھی جنم لیتی ہے جسے انسان کہتے ہیں ۔جو انس سے تعلق رکھتا ہے اسی اُنس کی وجہ سے آج وہ دور ہوتے ہوئے بھی بہت پاس ہے۔کہانی کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے۔ہرنام سنگھ جو ایک کھتری خاندان سے تعلق رکھنے والا تاجر تھا۔پنجاب کے ایک چھوٹے سے قریے دھرابی کا باشندہ تھا۔ایک کامیاب تاجر اورمحنتی کسان بھی تھا ہرنام سنگھ کے پتاتیجاسنگھ متمول تاجر تھے جو اپنے قریے میںلین دین کا کاروبار چلاتے تھے اور یہ روز کامعمول تھا۔تیجا سنگھ کے دولڑکے ایک ہرنام سنگھ اور رام سنگھ تھے۔رام سنگھ خود کاکاروبار سنبھالتا تھااور ہرنام سنگھ تیجاسنگھ کی دوکان سنبھالنے لگا۔ہرنام سنگھ کاایک لڑکا پریتم سنگھ تھا۔پریتم بہت ہی منت مرادوں سے پیدا ہوا تھا۔اس کی پیدائش میں تیجاسنگھ اور سیٹھانی نے پورے دھرابی میں دعوت کی اور مٹھائیاں بانٹی۔پریتم کی ماں کا انتقال پریتم کے بچپن میںہی ہوجاتا ہے یہ اپنے دادا دادی کے لاڈ وپیار میں ہی بڑاہوتاہے۔پریتم کے بچپن کے ساتھی چراغا جو لوہار کااور موہنا جاٹ کا کسان کا بیٹا تھا۔یہ دونوں پریتم کی ہم عمر تھے۔پریتم ان دونوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا لیکن دادی پریتم کو کب تک روکتی ایک دن پریتم کی خوشی کے لئے دادی ماں نے ہتھیار ڈال دیئے۔اور پریتم کو اُن دونوں کے ساتھ کھیلنے چھوڑدیا۔ان تینوں کی دوستی ایسا رنگ لائیجو تین جسم ایک جاں بن گئی۔انکی دوستی پر سارا قصبہ رشک کرتا تھا۔اور یہی دوستی گاؤن کی لاج رکھتی ہے گاؤ ں کی عزت کی حفاظت کرتی ہے پہلے پہ؛ تو اس دوستی کوتوڑنے کے نئے نئے حربے استعمال کئے گئے لیکن دلوں کو توڑنے اور دل کے قریب رہنے والوں کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے وہ تینوں تین جسم ایک جاں تھے جن کی وجہہ سے سارادھرابی محفوظ تھا اور ان کی بچکانا حرکتوں سے دھرابی کے لوگ ہنسی اڑاتے تھے۔یہی بات ہرنام سنگھ کو بری لگتی تھی ان کا بیٹا پریتم کی دوستی جاٹ کے لڑکے اور لوہار کے لڑکے سے ہے اور سارے دھرابی میں مشہور ہوگئی۔البتہ ذات الگ الگ ہو لیکن تینوں ایک دوسرے کی جان تھے اس کے علاوہ پریتم،موہنا اور چراغا کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے کے باوجود وہ کافی ذہین تھا اپنے دوستوں کی صحبت میں الھڑ سی عمر میں ہی زندگی جینے کا ہنر بھی سیکھ لیا۔ہرنام سنگھ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی چراغا اور موہنا سے نفرت کرتا تھا کہ ان کا بیٹا کھتری خاندان سے تعلق رکھتا ہے تاکہ جاٹ لوہار سے۔ان تینوں دوستوں کو دور کرنے کے لئے ہر کوشش کرتا ہے جوناکام ہوجاتا ہے اور انکی دوستی گہری ہوجاتی ہے پریتم چاہتا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کرانجنیئر بنے اور اپنے دوستوں کی روزگاری کا بندوبست کرے۔پریتم کے گھر والے موہنا اور چراغا سے دور رکھنے کی لاکھ کوشش کرنے کے باوجود ناکام ہوتے ہیں۔
درمیان میں ایک وقفہ کے لئے تیجاسنگھ کا کردار غائب ہوتا ہے اس دوران بہت کچھ بدل جاتا ہہے لیکن تیجا سنگھ کا ذکر نہیں آتا ۔سیٹھانی،پریتم،چراغا اور موہنا کا دور چلتا ہے اور تیجاسنگھ کا ذکر آنے تک بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ایک دن منادی کرنے والا یہ اعلان کرتا ہے کہ گاؤں کے سبھی مسلمان آج دوپہر کو شیخ فتح کے مکان پر جمع ہوجائیں یہ سن کر ہر نام یہ سونچتا ہے کہ شاید کسی مسلمان کے گھر بچہ پیدا ہوا ہوگا۔لیکن صرف مسلمان کیوں جمع ہونگے گاؤں میں توایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کسی کے گھر خوشی ہو اور پورا گاؤں نہ ہولیکن آج صرف مسلمان کیوں!ہندو اور سکھ کیوں نہیں؟ ہرنام سنگھ باہر نکل کر دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا۔ساراگاؤ سنسان پڑا تھا۔اُسی وقت چراغا اور موہنا نظر آئے ان سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ پاکستان بننے والا ہے اور سبھی مسلمان وہاں چلے جائیں گے۔ہندواور سکھ ہندوستان میں رہیں گے۔ہرنام سنگھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اور یہ پاکستان کیا بلا ہے۔ ایک دن ہرنام سنگھ کیمبل پوراپنے دوست راموسے ملنے کے لئے روانہ ہوتا ہے۔پاکستان کے بارے میں رامو واضح طور پر بتا دیتا ہے ہرنام سنگھ کیمبل پور سے واپس گھر آتا ہے ہرنام سنگھ یہ سب کچھ سونچ کر پریشان ہونے لگتا ہے اور یہ سونچتا ہے کہ وہ کیسے اپنی برسوں کی محنت کی کمائی کوچھوڑ کریہاں سے چلا جائے اور بڑبڑاتا ہوا وہاں سے نکل جاتا ہے۔’’سب کچھ لُٹ گیا۔اب کچھ نہیں بچا۔‘‘یہ سن کر پریتم اور دادی ماں پریشان ہوجاتے ہیں۔‘‘اس کا اثرپریتم پر کچھ زیادہ ہوجاتا ہے وہ اپنے دوستوں سے دور نہیں رہ سکتا۔اور کہتا ہے کہ’’ہمیں اپنے گاؤں سے کون نکالے گا۔کس میںاتنی ہمت ہے؟میری آنول یہاں گڑی ہے۔چراغا اور موہنا میرے دوبازو ہیں۔میں کسی سے نہیں ڈرتا۔‘‘
پریتم اپنے دونوںدوستوں سے پاکستان کے بارے میں کہتا ہے تو دونوں دوست یقین نہیں کرتے اور پریتم پر ہنسنے لگتے ہیں لیکن پریتم اپنے دوستوں سے دور نہیں رہ سکتا یہی غم اسے اندر سے کھائے جارہا تھا تینوں دوستوں نے ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں پریتم کو پڑھائی میں دلچسپی رکھنے کا ایک فائدہ اُٹھاتے ہیں کہ پریتم کی باقی پڑھائی کیمبل پور میں ہوگی جو دھرابی سے دور ہے۔پریتم اس لئے راضی ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی بھلائی چاہتا ہے وہ چراغا اور موہنا کے مستقل کو سنوارنے کی غرض اور ان کو خوشحال زندگی گزارتے ہو دیکھنا چاہتا ہے کہ انھیں اسی طرح لوہار اور جاٹ کا کام میں زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا۔کیمبل پورکے سفر میںچراغا اور موہنا پریتم کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن تینوں کو ایک دوسرے سے جدا ہونے کا غم کھائے جاتا ہے۔کیمبل پورپہنچنے کے بعد پریتم کے گھر والے ان کی دوستی دیکھ کر پگھل جاتے ہیں۔دادی ماں اور دادا جان موہنا اورچراغا کے لئے نئے کپڑوں کا انتظام کرتے ہیں اور انہیں خوشی خوشی روانہ کرتے ہیں۔
پریتم کیمبل پور میں اتنا خوش نہیں تھا جتنا دھرابی میں رہتا تھا لیکن یہ اُسی کا فیصلہ تھا کہ وہ بڑاافسر بن کر اپنے دوستوں کی زندگیوں کو بہتر بناناچاہتا تھا۔پریتم،موہنا اور چراغا کی دوستی دیکھ کر گاؤں والے اور درویش تک اُن کی دوستی کی لئے دعا کرتے تھے۔’’اے خدا!یہ معصوم فرشتے نہیں جانتے ہیں کہ کل ان کے مقدر میں کیا لکھا ہوا ہے۔‘‘
انسان سونچتا کچھ اورہے خدا کو منظور کچھ اورہوتا ہے۔انگریزوں نے جب پھوٹ ڈالواور حکومت کرو کی تحریک چلائی اوربھائی بھائی کو دشمن بنادیا۔ہندو اورمسلمان میں جھگڑے کروائے لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ہندو کی لاشوں کوکوئی آگ دینے والانہیں تھااورمسلمان کی لاشوں کوکوئی دفن کرنے والا نہیںتھا۔دوسری طرف انگریزوں نے اپنی کامیابی کاجشن منایااور اس طرح خون خرابے کروائے کہ ہندوستان کی تاریخ ایسی خبریں سننے ملتی جس سے گاؤں والے پریشان ہوجائے۔ادھر کیمبل پور میںجب پریتم کا آخری امتحان ہونے کو تھاپریتم بہت خوش تھا کیونکہ وہ اپنے آبائی وطن جارہا تھا اور اس کے دونوں دوست آنے والے تھے وہ وقت بھی آگیا جب تینوں دوست مل کو سارا کیمبل پورسرپراُٹھا رکھا تھا۔شہر میںبھی گاؤں جیسی حرکتوں پر لوگ کہنے لگے کہ ’’کیسے دیہاتی ہیں۔‘‘یہ سب کر وہ تینوںاور زوردارقہقہہ لگانے لگے۔دھرابی جانے کاوقت بھی آگیا۔دھرابی میں سبھی لوگ تیجاسنگھ کے استقبال کے لئے کھڑے ہوئے تھے تیجاسنگھ سبھی سے مل کر ایک چکر گاؤں کا لگانے نکلے۔راستے میں درویش کودیکھا سلام کیا۔درویش نے کہا’’سیٹھ جی!دنیا تمہاری آل اولاد کویاد رکھے گی۔تمہاری آل میں ایک حاتم طائی پیدا ہوگا جو ساری دنیا کا بھلا کرے گا۔لیکن اُس کانام’’س‘‘ سے شروع ہونے والا رکھو !اور سنو یہ دھرابی ہے نا!یہ تمہارے لئے بہت چھوٹا ہے۔یہاں سے نکل جاؤ کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔‘‘
تیجاسنگھ درویش کی باتوں کو سن کر خوش ہوئے لیکن اُن کی گہرائی کو سمجھ نہ پائے۔پریتم زیادہ ترچھٹیاں اپنے دوستوں کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔اس لئے گھر مٰن کم اور دوستوں میں زیادہ رہتاتھا۔چھٹیاں کب ختم ہوگئی پتا ہی نہیں چلا۔
پریتم اپنی پڑھائی مکمل کرنے کیمبل پور چلاگیاان کی بار صرف وہ اکیلا بھیجاگیا۔دادا،دادی دھرابی میں ہی رہنے لگے۔موہنا اور چراغا پریتم کی ضرورت کی اشیاء پر مہینہ پہنچا دیتے اور پریتم سے مل بھی لیتے وہ تینوں بہت خوش تھے ایسے تیسے ایک سال گزر گیا۔انگریزوں نے جو بھائی بھائی میں نفرت کی آگ لگائی تھی۔وہ بڑھنے لگی۔روزبہ روز افواہیں گرم ہوتیں رہیں ہندو اور مسلمان بھائیوں میںلڑائی اس حد تک چھڑگئی کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اوراُن کی عورتوں کی عصمت لوٹ لی جانے لگی۔یہ سب قتل وغارت گری دھرابی کے آس پاس گاؤں میں ہونے لگے لیکن دھرابی میں تنکا برابر بھی فرق نہیں آیا۔ ہندومسلمان،سکھ ایک دوسرے کی جان تھے ایک دن ایسا ہوا کہ گاؤں کے پڑوس کے کچھ مسلمان لڑکوں نے بسنت سنگھ کی لڑکی پریتی کا اغوا کرنے کی کوشش کی وہ دوپہر کا کھانا لیے کھیتوں کی طرف جارہی تھی اُس کی چیخ وپکار سن کر درختوں کے دل بھی ہلنے لگے لیکن اُن لڑکوں پر کچھ اثر نہ ہوا۔اتنے میں رحیم چاچا اُدھر آدھمکے پریتی کوان غنڈوں سے بچانے کی کوشش کررہے تھے اسی اثناء میں وہ زخمی بھی ہوئے تھے اتنے میں موہنا اور چراغا بھی آگئے۔یہ دونوں اُن تینوں غنڈوں کو مار کردفنا دیا لیکن اتنا بڑا حادثہ ہوا گاؤں والوں کو اس کی بھنک بھی پڑنے نہیں دی۔موہنا اورچراغا سمجھ ہی نہیں پارہے تھے کہ یہ کیا ہوگیا۔لیکن رحیم چاچانے ان کی ہمت بندھائی اور تینوں کو وہیں دفنا دیا اور کسی کو اتنے بڑے حادثے کی خبر بھی نہیں لگنے دی۔رحیم چاچا پریتی کو اُس کے گھر پہنچا دیتے ہیں اور بسنت سنگھ سے سارا واقعہ کہہ سنا دیتے ہیں بسنت سنگھ رحیم چاچا کے احسان تلے دب چکے ہوتے ہیں ان دونوں لڑکوں نے گاؤں کی لاج رکھ لی اور یہ بھی کڑوی حقیقت تھی یہ معصوم نوجوان اب خون کا مزہ چکھ چکے تھے۔اب گاؤں کو بچانے کے لئے اگر تلوار بھی اُٹھانی پڑے تو وہ اٹھالیں گے۔اُدھر کیمبل پور میں پریتم اپنی پڑھائی میں مگن تھا اسے اپنے دوستوں کے ساتھ کیاہوااُس کی کچھ خبر بھی نہیں وہ اسی انتظار مینتھا کہ وہ کب افسر بنے اور اپنے دوستوں کو اس غریبی سے نکال سکے۔
جیسے ہی جاڑا ختم ہوا خون خرابے کی خبریں بہت زیادہ سنائی دینے لگیں۔ایک دن گاؤں میں رحیم چاچا نے منادی کروائی کہ سبھی مسلمان مسجد میں تشریف لائیں یہ سن کر سکھ اور ہندو پریشان ہوکر کہنے لگے’’اے رحیما!توکیا اپنے ہی بھائیوں کا خون بہائے گا۔شرم کرو کمینو!کیاہم تمہارے بھائی نہیں ہیں!ایک زمانے سے ہم نے ایک دوسرے کے دکھ بانٹے ہیںجیسے سگے بھائی بہن بانٹتے ہیں۔کیا تم اپنے ہی بھائیوں کو ماروگے اور اپنی ہی بہنوں کی عزت لوٹوگے۔‘‘
حالات ہی ایسے ہوگئے تھے کہ معصوم دلوں میں دہشت بیٹھ گئے تھی اور ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔رحیم چاچاپر ہندواور مسلمان شک کررہے تھے اور بددعا بھی دے رہے تھے۔لیکن رحیم چاچا باہر آکر گاؤں والوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے ’’اے بھائیوں! کیا میں موہنا کو ماروں گا وہ میرابھائی ہے۔کیامیں تیجاسنگھ کو ماروں گا وہ میرے چاچا ہیں کیا میں بوٹا سنگھ کو ماروں گا وہ بھی میرا بھائی ہے۔لرنت ہوتم پر کہ تم مجھ پر شک کررہے ہو۔‘‘جب رحیم چاچابوٹا سنگھ کو لپٹ کررونے لگے تو یہ منظر گاؤں والے دیکھ کر سمجھ گئے کہ ہم خوامخواہ رحیما پر شک کررہے تھے۔
سیٹھانی ،تیجاسنگھ اور ہرنام سنگھ کا پریتم کی یاد میں رورو کر برا حال تھا دادی ماں پریتم کی یاد میں رورو کر موہنا اور چراغا سے کہتی ہیںکہ’’میرے بچو!تمہارا پریتم ۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا کہتے ہی دادی ماں کی گردن ایک طرف ڈھلک جاتی ہے یہ ماجرا دیکھ کرموہنا اور چراغا کیمبل پور جانے کی تیاری کرتے ہیں لیکن لوگوں کا ہجوم او راللہ اکبرکے نعرہ کی آوازیں سن کر گاؤں والے دونوںکو روک لیتے ہیں لیکن معامل بہت بگڑ گیا ہوتا ہے دھرابی کے مسلمان اس لشکری مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ نہیںمانتے حملہکرنے کی غرض سے آگے بڑھتے ہیں تبھی کریمہ لمبر اجازت دیتا ہے اور سارے گاؤں والے اس لشکری مسلمانوں پرٹوٹ پڑتے ہیںکچھ نے جان دے دی کچھ بھاگ گئے۔دھرابی کی یکتا مشہور ہوگئی یہ خبر حکومت تک پہنچ گئی۔حکومت کے فوجیوں نے آکر ہندوؤں اورسکھوں کو نکالنے کا حکم دیا اور فوری طور پر حکم کرنے کی ہدایت دی۔چراغا اور موہنا ایک دوسرے کامنہ تکتے رہے وہ سمجھ نہیں پارہے تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے جس حکم تھا کہ سکھوں اورہندوؤں کوٹرک میں بیٹھنے کا سیٹھ تیجا سنگھ ضروری اشیاء کو ایک صندوق میں رکھ کر ہرنام سنگھ کے ساتھ ٹرک میں بیٹھتے ہوئے رحیم چاچا سے کہہ رہے تھے کہ’’رحیمے آج سے میرا یہ پشتنی مکان چراغا کا ہوا۔‘‘اور چراغا سے کہتے ہیں کہ’’چراغا پریتم کے ہمراہ ہی رہنا‘‘۔
چراغا یہ سن کر رونے لگا’’بابایہ کیا ہوگیا بابا،چراغا تومرچکا،چراغا پریتم اور موہنا کے بغیر کیسے زندہ رہے گا۔وہ دونوں تو اس کے دوبازو تھے جب وہی نہیں رہے تو میں جی کر کیا کروں گا۔‘‘
چراغا گاؤں والوں سے کہتا ہے’’گاؤں والو!چراغا مرچکا۔۔۔۔۔۔مرچکا۔‘‘ان تینوں کی دوستی کو الگ کرنا گاؤں والوں کی بس کی بات نہیںتھی لیکن حکومت نے ایک پل میں بٹوارے کے طور پر نہ کہ ان تینوں کوجدا کردیابلکہ ایک ہی ملک کے دو حصے کردیے ایک ہندوستان دوجہ پاکستان۔لیکن آج بھی وہ تینوں دوست زندہ ہیں اور ان کی دوستی رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“