کتاب کے مصنف جناب احمد رشید علیگ کی نظر
زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسد
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
سفر جہاں کے ساتھ ہی ہر زمانے میں مختلف حادثات و واقعات ہوتے رہے جو تاریخ جہاں میں مختلف ادوار میں مختلف تبدیلیاں پیدا کرتے گئے ان تاریخی حوادث و واقعات کے تناظر میں اقوام جہاں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں یا دنیا سے کچھ اس طرح غائب ہوتی گئیں کہ انسان انگشت بہ دنداں رہ گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کیا سے کیا ہوگئی یہ حوادث و واقعات آنے والی اقوام کے لئے نصیحت بنتے گئے کہ عروج ق زوال کے اسباب سے اسباق تازہ حاصل کئے جائیں اور بقائے انسانیت کے لئے قواعد و ضوابط کی ازخود تجدید کے بجائے جہاں کے خالق کی فرمانبرداری کی جائے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بہت سے حوادث و واقعات کا تذکرہ کیا ہے تاکہ اہل تفھیم اور صاحب ادراک لوگ ان واقعات و حوادث سے نصیحت لیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخی اہمیت کے حامل واقعات و حوادث کو جاننا اہم ہے سفر زندگی کو بقا و دوام بخشنے کے لئے
زمانے کے ان تغیرات کے ہوتے ہوئے زمانہ حال کا ورود ہوا جہاں اب علم تحقیق کی بھر مار ہے جہاں میں علوم کا دبدبہ قائم و دائم بنانے رکھنے کے لئے مختلف اقوام اپنی حیثیت کے اظہار کے لئے مختلف علوم و فنون کی سرپرستی کرکے خود کو منوانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جابر اقوام پوری دنیا پر اپنا سکہ جمائے رکھنے کے لئے تیر و تلوار کی جگہ آگ برساتے ہتھیار بھی آزمانے سے نہیں ہچکچاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے بستیوں کی بستیاں ویران کرنے میں ذرا بھی نہیں شرماتے اور یوں اپنی چودراہٹ کو دوام بخشتے رہتے ہیں اس دوران مظلوم اقوام گر اپنی مظلومیت کے اظہار کے لئے کوئی طریقہ آزمانے کے لئے سرکنا شروع کردیں اپنی جگہ سے تو جابر اقوام اسے دہشت گردی اور اللہ جانے کیا کیا نام دے جاتے ہیں میں سمجھتا ہوں یہ دلوں کی نفرت و کدورت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ایسے میں اہل ادراک جو ہوتے ہیں وہ ان حوادث پر دن رات آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ مختلف کاوشیں انجام دینے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ان ہم مختلف علمی خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں کوئی کسی یونیورسٹی سے علوم و نظریات کو پروان چڑھا رہا ہے تو کوئی کسی سیمنار میں اپنی بات رکھ رہا ہے کوئی کسی اور طرح سے اس سب کے درمیان ایک طبقہ ایسا ہے جو افکار و نظریات کے ساتھ ساتھ انسانیت پاکیزگی معاشرتی مسائل سیاست ظلم و جبر تشدد غربت افلاس جیسے بنیادی مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے یہ قسم ہم کہہ سکتے ہیں اہل ادب کی ہے جو حوادث زمانہ پر تاریخیں مرتب کرکے اقوام جہاں پر احسان کرواتے ہیں زمانہ جدید میں میں ایک طریقہ تھا اپنی بات رکھنے کا جسے ہم ناول یا داستان گوئی کے نام سے جانتے ہیں داستان گوئی اکثر و بیشتر سینہ بہ سینہ یاد رکھی جاتی تھی اور پھر لوگوں میں مجالس بنائے سنائی جاتی تھی پر ناول نگاری ایک ایسی ادبی صنف ہے جو مصنف کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مختلف حوادث و واقعات کی عکاسی کرتی تھی اس سلسلے میں ہزاروں ناول ایسے ہیں جنہیں ہم ادبی دنیا کی شاہکار تخلیقات کہہ سکتے ہیں پر انسانیت نے جتنی ترقی کی اسی قدر اس کے لئے اوقات زمانے سکڑتے گئے اب فرصت کے ایام ہم ہوتے گئے اور انسان مادی مسائل میں الجھ کر یا ترقی کی راہ کو پانے کے لئے رات کو دن اور دن کو رات بنا بیٹھا اس نے خود کو آرام دینے کے لئے بے آرامی اور بے سکونی کو گلے لگا لیا خیر اس ادبی صنف مطلب ناول کی ضخامت نے اسے آہستہ آہستہ لوگوں کی توجہ سے محروم کرنا شروع کردیا گرچہ علم دوست لوگ اب بھی اس صنف سے جڑے ہوئے ہیں اور پوری قوت سے اس کے بچاؤ کے لئے مصروف العمل ہیں خیر فرصت ندارد کے اس زمانے میں ایک اور ادبی صنف نے انسانوں کی بستیوں میں دستک دی جسے ہم افسانہ نگاری کہتے ہیں افسانہ نگاری ایک ایسا فن پارہ ہے جو مختصر سی نشت میں انسانیت کے مختلف مسائل پر بات کرکے انسانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی سعی کرتا ہے یہ صنف ادبی دنیا میں آجکل عروج پر ہے اب اس صنف کا بھی متبادل آچکا ہے جسے افسانچہ کہتے ہیں اس صنف کے موجد یا اس کے سفر کی باتیں کرنے کا یہ وقت میرے لئے مناسب نہیں ہے اس پر کبھی پھر بات کریں گئے
احمد رشید علیگ
اور ان کی کھوکھلی کگر
ویسے تو اس صنف سے جڑے ہزاروں ادب شناس اور اس صنف کے ماہرین ہیں پر میں جن کے لئے آج کچھ گزارشات رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں یہ اس ادبی صنف کے ایک اعلی تخلیق کار اور بہترین دسترس رکھنے والے صاحب ادب جناب احمد رشید علیگ ہیں آج سے کچھ وقت پہلے میرے انتہائی قابل احترام دوست اور ادب جناب اشہر اشرف نے ایک کتاب تھما دی کھوکھلی کگر نامی کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو سمجھ آیا ایک افسانوی مجموعہ ہے جس میں شامل کل افسانوں کی تعداد( ۱۳) تیرہ ہے جو زیادہ بڑے بھی نہیں ہیں اور جنہیں ہم چھوٹے افسانچے بھی نہیں کہہ سکتے کتاب کا سر ورق انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہے اور کتاب کی ضخامت بھی کوئی زیادہ نہیں ہے کتاب کی خاص بات جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ کتاب پر ایک تبصرہ نئی علامت نگاری اور احمد رشید کے افسانے جو جناب غالب نشتر کی تحریر ہے ایک عمدہ اور بہترین تبصرہ ہے جس کی جس قدر بھی تعریف کی جائے اتنی ہی کم ہے کیوں کہ جناب نشتر صاحب نے پوری کتاب کا خلاصہ اور مصنف کا تعارف پوری قلمی قوت اور بہتر انداز سے کیا ہے کہ قاری کتاب کو کتاب میں شامل افسانوں کا پورا ادراک ہوجائے گا کتاب کے آخری صفحات پر کچھ اہل علم صاحب ادب لوگوں کے ہلکے پھلکے تبصرے بھی شامل کتاب ہیں جنہوں نے کتاب کی زینت اور بڑھا دی ہے کہ قاری کتاب کو آسانی سے مصنف مزکور کی علمی صلاحیتیں ازبر ہوجائیں گئیں ان کے مختلف افسانوں بارے میں کچھ باتیں آپ بھی ان مبصرین کی پڑھیں جیسے کہ
احمد رشید کی عورت حیات و کائنات کے اس بے ہنگم شور اور ناہموار نظام پر سوال پر سوال قائم کرتی ہے تو سماجیات کی ایک نئی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے پروفیسر علی احمد
روایتی انداز میں مطالعہ کرنے والوں کو شاید احمد رشید کے ان افسانوں میں کشش محسوس نہ ہو مگر افسانہ کے سنجیدہ قارئین کے لیے ان کے افسانے دلچسپی کا مرکز بنے رہیں گئے سیما صغیر
افسانوی نظام کے ساتھ انہیں فنی ہنر مندی پر عبور حاصل ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے افسانوں کے اکثر کردار متوسط طبقے سے متعلق ہوتے ہیں عبدالباسط کتاب پر ایسے ہی کئی علمی ادبی شخصیات کے تبصرے موجود ہیں جو اس بات پر دال ہیں کہ صاحب مصنف ایک اچھے صاحب علم و ادب ہونے کے ساتھ ساتھ اس سماج اور معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ سے کافی واقف اور دلچسپی رکھتے ہیں جس معاشرے اور سماج کے مسائل نے ان کے اندر چھپا کا افسانہ نگاری کا فن وا کیا اور انہوں نے اس ادبی صنف میں قدم رکھا اور کامیابی سے اس سفر پر گامزن بھی ہیں میرے لئے یہ احساس عجیب سا تھا کہ ادبی دنیا کے اس مذہب سے جنوں کی حد تک محبت کرنے والے افسانہ نگار نے جہاں اپنے افسانوں میں تصور مذہب دل میں بنائے رکھنے کے لئے اپنے افسانوں میں کشش پیدا کی ہے وہی وہ فرسودہ رویات کو مذہبی لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو شرمسار کرنے والے حرکات پر بھی نقد کرتے ہیں وہ سیاسی انار کی اور جمہوریت کی بات بھی کرتے ہیں ان کی کہانیوں کا مرکزی موضوع اخلاقیات سے عاری اور مذہب بے زار رویات پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ واپسی کے سفر کے نام پر اپنے مذہب پر عمل کی ترغیب دینا بھی ہے وہ انسانیت کی وکالت کرتے ہیں خواہ انسان کوئی سا بھی ہو اس کے لئے مذہب رنگ و نسل یا ملک کی کوئی خاص تخصیص نہیں ہے بلکہ بس انسان ہونا کافی ہے خواتین کے حوالے بات کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کے افسانوں میں عورت مختلف انداز سے وا ہوتی ہے اور ہر انداز نرالا اور منفرد ہے اقوام کے عروج و زوال کی داستان بھی موصوف سناتے ہیں جنہیں پڑھ کر ظالم و جابر بادشاہوں سے تنگ آئی ان کی رعایا کی بغاوت اک طوفان کی مانند ہوجاتا ہے احمد رشید علیگ ایک ایسے افسانہ نگار کہئے جاسکتا ہیں جو زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر اور ان پر سوچ سمجھ کر نقد بھی کرتے ہیں اور مختلف مسائل سے نکلنے کی نوید سناتے اور راستہ بھی دکھاتے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے افسانوں میں ترغیب ہے امید ہے احساس ہے اور یہ سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ انکی کتاب کا بغور مطالعہ کیا جائے ذاتی طور تعلق نہ ہونے کے باوجود میں نے احمد رشید علیگ کو جیسا تخیل میں محسوس کیا ویسے ہی تب محسوس ہوا جب ان سے بات ہوئی میں نے انہیں ایک ہمدرد علم دوست اور انسانیت کا ہمدرد محسوس کیا جن کے بات کرنے کا انداز انتہائی درجہ عمدہ اور پاکیزہ ہے ان کے الفاظ میں محبت اور خلوص کی جھلک محسوس کئے بنا نہیں رہا جاسکتا
میں افسانوں ادب کا ایک نیا نیا متوالا ہوں ابھی اس صنف سے نئی نئی شناسائی ہوئی ہے ممکن ہی نہیں بلکہ حق ہے کہ میں اس کتاب کھوکھلی کگر کا صحیح سے مطالعہ کرنے اور تبصرہ کرنے سے کوسوں دور رہ گیا ہوں پر امید ہے کہ آنے والے ایام میں یہ کوشش بار آور ثابت ہو اور میری کوشش میرے لئے قابل مطالعہ ہو اس کے لئے آپ سب ہی ادبی شخصیات سے وابستگی ہی ایک واحد ذریعہ ہے اسی لئے علمی استعداد نہ ہوتے ہوئے بھی اور ادبی دنیا کا طفل مکتب ہونے کے باوجود بھی میں ہمیشہ ادبی کتب کا مطالعہ شوق و ذوق سے کرتا رہتا ہوں
“