۱؛۔میر سیّد بخاری ساکن لاہور کے لکھے ہوئے مقالے کے مطابق ؛۔
پشتو زبان کی تاریخ۳۴۰۰ قبل از مسیح پُرانی ہے۔بابلی موٗرخ بروشوش ۴۰۰۰ سال قبل از مسیح گزرا ہے۔اُسکے مطابق پشتو زبان کا تعلق پشت سے ہے، جو سام بن نوح کا بیٹا ہے۔پشت کی کل عمر ۴۳۸ سال تھی۔پشت کا تاریخی زمانہ ۳۵۱۱۷ سال ہے۔ پشت کے ایک بیٹے کا نام ہود تھا۔ اِسکو عبر کہتے ہیں جو عبرانی قوموں کے جد امجد ہیں۔اسکے پانچ بیٹے تھے۔ مین، جرہم،طلسم،جدیس،شال۔ شال کے دو بیٹے تھے۔ کٹ اور بلچ۔کٹ سبائیاقوم کے جد امجد ہیں بحوالہ کتاب رحمتہ اللعٰلمین ج۔۲قاضی سلیمان منصور پوری طبع لاہور سن ۱۹۲۲ صفحہ ۱۸۔
۲؛۔میر سیّد بخاری ساکن لاہور نے اپنے مقالے میں پشت کے حوالے سے مزید تحقیق کی ہے اور مختلف مقامات کے تاریخی حوالے دئیے ہیں مثلاََ وہ لکھتے ہیں کہ؛۔
دریائے دجلہ جو شمال سے جنوب کی طرف بہتا ہے، مشرق سے دریائے ژوب آکر دریائے دجلہ سے اُس مقام پر ملتا ہے جہاں آشوریوں کا دارالحکومت تھا۔ اور اس کے نام پر ،دو آبہ دجلہ و فرات کو اسیریا کہتے ہیں۔ دجلہ اور ژوب کے مقام اتصال کے قریب ژوب کے کنارے پر مین اور اور شمال کے آثار قدیمہ ہیں۔ ہم نے پورے تاریخی حوالوں سے پشت کے تاریخی زمانہ کا تعیّن کیا ہے ۔یہی قوم ہے جسکی پشتو زبان کا گزشتہ پانچ ہزار سال سے چاروں براعظموں میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ماٗخوذ از اکتشافات۔طبع ۱۸۴۹مؤلف پروفیسر لیر۔
مین کے نسل میں پشت کے نام سے ۳۴۰۰ قبل از مسیح مصر میں سامی نسل کے حکومت کی بنیاد رکھی۔ تین ہزار سال میں مصر پر پَشت نسل کے ۳۲ خاندانوں نے حکومت کی۔ معبد پَشت جو ۴۱ میل کے فاصلے پرقاہرہ کے شمال مشرق میں ہے، اس میں جو کتبہ لگا ہوا ہے، حکمران اول کا، جس کا زمانہ ۳۴۰۰ قبل از مسیح ہے اور ایبرس نے اسکو نقل کیا ہے، اسکی زبان پشتو ہے۔بحوالہ جارج ابرس جرمنی کی کتاب اردو ترجمہ،’ دُختر فرعون، مترجم الطاف حسین خان طبع آگرہ۔
۳؛۔مصر افریقہ میں ہے۔ دریائے نیل جہاں پر بحیرہروم میں گرتا ہے، اسکا ڈیلٹا ایک سو میل ہے۔اس ڈیلٹا کے مشرقی کونے پر جد امجد ’مین ‘کے چھوٹے بھائی شال کے فرزند بلوچ کے نام پر ایک شہر کا نام بلو سین ہے۔وہاں تین مینار تھے جنکو درے سلے کہتے ہیں تھے۔اب بھی پشتو میں سلے مینار کو کہتے ہیں۔ اسی ’بنو مین‘ کے فرعون کے پاس ابراہیم علیہ السلام ۲۶۸۵ قبل مسیح میں تشریف لے گئیے تھے۔
۴؛۔ ماریا اسابیل کا مقالہ Origin of the Pashto language and phases of its literary evolution ؛۔
ماریا اسابیل نے اپنے مقالے’پشتو زبان کی ابتدااور اسکے ادبی ارتقائی مراحل جسکا ترجمہ بخت منیر نے کیا ہے، میں اسابیل اسطرح رقم طراز ہے کہ پشتو زبان کا تعلق بنیادی طور پشتونوں کے دو قبیلوں پخت اور بخت سے ہے۔جسکا ذکر رگ وید اوراوستا میں آیا ہے ۔یونانی موٗرخ ہیروڈوٹس کے مطابق پخت قوم کی تاریخ۵۲۰ قبل از مسیح پرانی ہے۔ اُس وقت یہ قوم دریائے سندھ کے کنارے کے ساتھ ساتھ آباد تھی۔ عبد الحئی حبیبی پشتو زبان کے تاریخ کے موٗرخ ہیں، بتاتے ہیں کہ اسکی لغات دارا پوش کبیر یا دار یوش کبیر(Dar Yoush Kabir) نے ۵۱۶ قبل از مسیح ایجاد کی تھی۔اسکا زمانہ۵۵۰تا ۴۸۶ سال قبل از مسیح پر محیط ہے۔اسکا بڑا کارنامہ اُسکا ایتھنز، ایریٹیریا اور یونان پر قبضہ تھا۔ اس نے آرامی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔اِس نے سوما،پاساوا گاڈکئی،میرس پولس،بابل اور مصر جیسی شہریں آباد کیں۔
دارا پوش کبیر یا دارئیوس وادی سندھ پر حمل آور ہوا اور ۵۱۶ قبل از مسیح سنٹرل ایشیا، آریا اور بکٹریا پر یلغار کیا۔پھر وہاں سے افغانستان ہوتے ہوئے ٹیکسلا آیا، ٹیکسلا میں سال ۵۱۵ اور ۵۱۶ قبل از مسیح گندھارا گزارے تھے۔جس مدّت اُس نے وادئی سندھ فتح کرنے کے انتظامات کئیے۔اسطرح اِس دوران وادئی سندھ کے ارد گرد زمینوں پر قبضہ کیا۔اور اس وادئی پر گندھارا سے سندھ تک دسترس حاصل کی۔
۵؛۔نعمت اللہ ہیراوی کی کتاب محزن افغانی کے مطابق؛۔
پشتون ، حضرت ابراہیم اور حضرت ساول علیہم السلام کی اولاد ہیں۔بادشاہ ساول سال ۱۰۹۲ قبل از مسیح ارض فلسطین میں گزرا ہے۔مخزن افغانی میں بیان ہے کہ ساول کا بیٹا یرمیاہ اور اُسکا بیٹا افغانہ تھا۔اطرح افغانہ کو پشتونوں کی نسل کا مبدی قرار دیا گیا ہے۔
۶۔ حالیہ تحقیق کے مطابق پشتو زبان کا تعلق انڈو یوروپئین کی ،انڈو ایرانئین شاخ سے جوڑا گیا ہے۔
بہر کیف یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پشتو زبان کا تعلق انتہائی زمانہ قدیم سے ہے۔ اس زبان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں حروف تہجّی کی تعداد زیادہ ہے اور ہر قسم کی آواز کے لئیے اس میں اپنا الگ حرف موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتونوں کو ہر قسم کی زبان سیکھنے میں آسانی رہتی ہے۔انگریزی میں یا فرانسیسی زبان میں حروف کی جو ادائیں موجود ہیں مثالاََ’ ژاں‘‘غاں‘’ڈ‘’ٹ‘وغیرہ وہ پشتو میں بھی ہیں۔اس لئیے پشتون ہر قسم کی زبان آسانی سے سیکھ جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ماہرین لسانیات کے مطابق جس زبان میں حروف تہجی زیادہ ہوں گے وہ وسیع زبان سمجھی جاتی ہے۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ پشتو زبان اتنی قدیم ہونے کے باوجود نہ کوئی قدیم کتاب رکھتی ہے، نہ اسکے کسی قدیم شاعر یا ادیب کا پتہ چلتا ہے، اور نہ اسکے رسم خط کا ،کہ پشتو اصل میں کونسی رسم خط میں قدیم دور میں لکھی اور سمجھی جاتی تھی؟یہودیوں نے اپنی مردہ زبان عبرانی کو تو زندہ کا لیکن پشتون اس راہ میں ابھی تک گم گشتہ ہیں۔
“