قائد اعظم کے والد صاحب کا نام جناح پونجا تھا۔جناح پونجااور ان کے خاندان کے افراد کا تعلق خوجہ نسل کے آغا خانی خاندان سے تھا۔کہا جاتا ہے کہ ان ’’خوجوں کا سلسلہ مشہور اسمٰعیلی داعی حسن بن صبا سے ملتا ہے۔
جب محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین محمد غوری کے ادورا میں ملتان سے بڑے پیمانے پر ہجرت کی توسندھ اور پنجاب کے زیریں علاقوں میں خوجوں کی تعداد بہت ہی کم ہوگئی تھی۔سومروں کے دور میں جن خوجوں نے یہاں سے ہجرت کی تھی ان میں جناح پونجا کے اجداد بھی شامل تھے جنہوں نے ملتان سے کاٹھیاواڑہجرت کرنے کے بعد اسی کو اپنا مستقل مسکن بنالیا تھا۔ اسطرح کاٹھیاواڑ میں خوجے بتدریج آباد ہوگئے۔
قائد اعظم کے شجرہ نسب پر جب نظر جاتی ہے تو ان کے پردادا کا نام ہیر جی بتایا جاتا ہے ۔ان کے بیٹے میگھ جی اور میگھ جی کے بیٹے کانام پونجا بھائی تھا۔
پونجا بھائی یا جناح پونجا میگھ جی کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے.
قائد اعظم محمد علی جناح کے دادا کاٹھیاواڑ کے ’’گونڈل ‘‘شہرکے ایک گاؤں ’’پنیلی ‘‘میں رہائش پذیر تھے۔’
قائد اعظم کے دادا پونجا بھائی کی چار اولادیں تھیں:
سب سے بڑی اور اکلوتی بیٹی مان بی ،
بڑے بیٹے والجی،
منجھلے بیٹے ناتھو بھائی اور چھوٹے بیٹے قائد اعظم کے والد بزرگوار جن کا نام جناح پونجا تھا۔
اس وقت پنیلی کی آبادی ایک ہزار سے کم تھی ۔پونجا بھائی کے سب سے چھوٹے بیٹے ’’جن کی پیدائش 1850 کے ہنگامی دور میں ہوئی ‘‘ جوصحت کے نکتہ نظر سے بہت ہی کمزور تھے۔’’جناح (بھائی) پیدائش کے وقت بہت دبلے اور کمزور تھے اسلئے دیکھنے والوں نے انہیں جھینا کہنا شروع کر دیا ۔جھینا کے معنی کمزور کے ہیں اردو زبان میں جھینا تقریباً انہی معنوں میں بولا جاتا ہے ۔جناح بھائی نے گھر پر ہی معمولی تعلیم حاصل کی تھی
پنیلی کے چھوٹا گاؤں ہونے کی وجہ سے وہاں پر کاروباری مواقع زیادہ نہ تھے۔جبکہ جناح بھائی کا کاروبار بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا تھا۔کاروبار کی وسعت کی وجہ سے جناح بھائی آبائی گاؤں سے نکل کر گونڈل شہر میں آگئے۔جہاں انہوں نے اپنے کاروبار پر بھر پور توجہ دی جس کے نتیجے میں جناح بھائی کو کافی منافع ہونے لگا۔اس کامیابی پر ان کے والد بے حد خوش تھے۔مگر پونجا بھائی ان کی کمزور صحت کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔بیٹی اور دونوں بڑے بیٹوں کی شادیاں وہ پہلے ہی کر چکے تھے۔اب انہیں اپنے چھو ٹے اور ہونہار بیٹے کی شادی کے لئے اچھے رشتے کی تلاش تھی۔انہیں ایک پتلی دبلی اور خوش مزاج لڑکی گونڈل شہر سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤ ں ’’ڈھرفامیں ایک با عز ت خاندان کی اسمٰعیلی خوجہ لڑکی مل گئی‘‘یہ خوبصورت لڑکی ہنس مکھ اور خوش مزاج ہونے کی وجہ سے میٹھی بائی کے نام سے پکاری جاتی تھی۔ان کے والدکانام موسیٰ جمعہ تھا۔ جبکہ میٹھی بائی کا نام’’شیریں بی بی ‘‘تھا۔فاطمہ جناح فرماتی ہیں کہ’’ میر ے والد جناح پونجا اور میری والدہ میٹھی بائی کی شادی ڈھرفا میں 1874، میں ہوئی تھی‘‘
جناح پونجا کے ہاں سات بچوں کی ولادت ہوئی جن کے نام
محمد علی،
رحمت علی،
مریم،
احمد علی،
شیریں،
فاطمہ
بندے علی ۔
اس بات کی تصدیق جی الانا نے بھی کی ہے۔اس کے برعکس رضوان احمد نے جناح پونجا کے بچوں کی تعداد آٹھ بتائی ہے ۔یہ بات محترمہ فاطمہ جناح کے قول کے سامنے درست تسلیم نہیں کی جا سکتی ہے۔ جنہوں نے اپنے بہن بھائیوں کی تعداد سات ہی بتائی ہے۔ ان میں سے بندہ علی اور بچو بھائی کا انتقال کم سنی میں ہوگیا تھا۔
جناح پونجا جس وقت کراچی آئے تو اُس وقت کراچی آج جیسا بڑا شہر نہ تھا۔بلکہ یہ مختصر آبادی کا ایک قصبہ تھا۔جس میں دور دور فاصلوں پر کچے پکے مکانات تھے۔
نیو نہم روڈ کی پتلی گلیوں میں آج بھی وہ گھر موجود ہے۔جس میں بالکونیاں بنی ہوئی ہیں جہاں محمد علی جناح پیدا ہوے.انکی پیدائش نیو نہم روڈ کھارا در کے مکان کی بالائی منزل پر ہوئی تھی۔جو وزیر میشن کے نام سے موسوم ہ.یہ دو کمروں پر مشتمل ایک مختصر سا فلیٹ تھا۔ جس کو جناح پونجا نے کرائے پر حاصل کیا تھا۔اس مکان میں محمد علی جناح سے متعلق بہت ساری چیزیں آج بھی محفوظ ہیں۔جہاں حکومت پاکستان نے ایک لائبریری بھی قائم کر دی ہے۔اس مکان کی نگرانی اور حفاظت کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے۔
کچھ عرصہ کراچی کے کاروباری ماحول کو سمجھنے کے بعد بولٹن مارکیٹ کے قریب ’’والجی انڈ کمپنی ‘‘کے نام سے جناح بھائی نے اپنے کاروبار کی شروعات کر دی۔’’ان کا کاروبار چمڑے،گوند اور (خشک) مچھلیوں کا تھا۔مگر ان کی توجہ زیادہ تر بیرونی تجارت پر مرکوز ہوگئی اور وہ بہت جلد بڑ ے برآمدی تاجر بن گئے۔انہوں نے برطانوی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار شروع کیا۔وہ ان کو فش ماؤز(مچھلی کی آنت)فراہم کرتے تھے۔جس کی برطانیہ اور چین میں طلب بہت زیادہ تھی۔انکا یہ لاکھوں روپے کا کاروبار تھا‘‘
اس زمانے میں کچھ انگریزی فرمیں بھی کرا چی میں کاروبار کر رہی تھیں۔جو کراچی کی بندر گاہ کے ذریعے بر صغیر کی اشیاء یورپ کے دور دراز علاقوں میں لیجا کر فروخت کرتی تھیں اور بھاری سرمایہ کماتی تھیں۔
’جناح پونجا کے سب سے بڑے بیٹے محمد علی جناح تھے، جنکو آج ہم قائد اعظم کے لقب سے جانتے ہیں۔
یہ واضح رہنا چاہئے کہ قائد اعظم کا آبائی تعلق “آغاخانی گھرانے” سے تھا اور مڈل کے بعد ان کی ساری تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی۔ شعوری طور پر انہوں نے اہلسنت کے عقائد کو بہت بعد میں (ایک مذکورہ واقعے کے بعد) قبول کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ من عقیدہ خوجہ شیعہ تھے۔ لیکن جناح صاحب کے بھانجے اکبر پیر بھائی جو ہندوستان کے مشہور بیرسٹر تھے، سنی العقیدہ اور حنفی المذہب تھے۔ محمد علی جناح صاحب کا خوجہ شیعیت سے اہل سنت عقائد کی طرف جحان کا سبب یہ واقعہ بنا جو اسطرح بتایا جاتا ہے، اپنی پہلی زوجہ کی وفات پر بمبئی آغاخانی مرکز کے اس مطالبہ پر کہ متوفیہ کی جنت میں بکنگ (آغاخانی عقیدہ کے مطابق) کے لئے مطلوبہ رقم فراہم کی جائے اور قائد اعظم کی طرف سے ادائیگی سے انکار پر بمبئی ہائی کورٹ میں اس مقدمہ کی روئیداد اور قائد اعظم کا اپنے آبائی مذہب سے لاتعلقی اور اہل سنت (بعض جگہ پر اثنا عشریہ شیعہ عقائد ) پر “ایمان لانے کے اقرار” کو اختیار کیا، جس کے بعد قائد اعظم نے پہلی مرتبہ اسلام کے اہلنست اور اہل تشیع مسالک کا اچھا خاصہ مطالعہ کیا تھا۔ورنہ اس سے پہلے وہ مغربی تعلیم اور تربیت سے ہی زیادہ اگاہ تھے۔ لیکن اس واقعے یعنی اپنی پہلی بیوی کی وفات کے بعد انہوں نے صحیح سے اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور انکی زندگی میں اسطرح بدلاؤ آگیا۔
جناح پونجا کی پہلی بیٹی رحمت بائی جن کی کلکتہ شادی کرائی گئی تھی، اس کے بعد مریم بائی اور ان کے بعد احمد جناح تھے جن کا ممبئی میں انتقال ہوا۔ ان کی شادی ایک سوئس خاتون سے ہوئی تھی۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھیں فاطمہ۔ ان کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔
تیسری بیٹی شیریں بائی جن کی جعفر بھائی سے شادی ہوئی تھی جو اسماعیلی خوجہ تھے۔ شیری بائی کا ایک ہی بیٹا تھا اکبر جعفر جو ماں سے پہلے کراچی مہتا پیلس میں انتقال کرگئے۔ اس وقت ان کے خاندان میں کوئی نہیں ہے۔‘
’سب سے چھوٹی بیٹی فاطمہ جناح نے کبھی شادی نہیں کی تھی۔
قائد اعظم کے بھائ احمد علی جناح کی صرف دو تصاویر دستیاب ہیں۔ انہوں نے ایک یورپین خاتون ایمی سے شادی کی تھی جس کے ساتھ ان کی ایک تصویر دستیاب ہے۔ بندے علی جناح کی نہ تو کوئ تصویر دستیاب ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئ تفصیلات دستیاب ہیں۔
جناح پونجا کا انتقال 17 اپریل 1902 کو ہوا تھا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...