کون بھلا سلتا ہے ستائیس دسمبر دو ہزار سات کی سرد شام جب ٹی وی پر خبر چلی کہ راولپنڈی جلسے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کےقافلے میں خود کش دھماکہ ہو گیا ہے۔ ابھی اس خبر سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں یہ خبر چلنا شروع ہو گئی کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہو چکی ہیں۔ میں ان دنوں چھٹیوں پر پاکستان میں ہی تھا اور پروگرام تھا کہ جنوری میں ہونے والے الیکشن کے بعد واپسی ہو گی۔ بی بی شہید کی وطن واپسی اور بھرپور الیکشن مہم سے خیال تھا کہ پیپلزپارٹی کی الیکشن میں کامیابی کا جشن پاکستان میں دوستوں کے ساتھ منانے کے بعد واپسی ہو گی لیکن بی بی شہید کی شہادت کے واقعہ سے سب ارمانوں پر اوس پڑچکی تھی اور محترمہ بینظیر بھٹو اپنی جان کی قربانی دے کر شہید رانی بن چکی تھیں۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا ہونےوالا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں نے سیاست کا انتخاب نہیں کیا بلکہ سیاست نے میرا انتخاب کیا ہے۔ یہی بات چیرمین بلاول بھٹو زرداری پر بھی صادق آتی ہے۔ جب ایک غیر ملکی صحافی نے بلاول بھٹو زرداری سے سوال کیا کہ آپ کی والدہ اور نانا کو مار دیا گیا تو کیا آپ خود کو غیر مخفوظ تصور نہیں کرتے تو بلاول بھٹو زرداری کا جواب تھا کہ میرے پاس دو ہی راستے تھے یا تو باہر چلا جاتا اور عیاشی کی مخفوظ زندگی گزارتا یا پھر پاکستان میں رہتا اور عوام کے حقوق کا تخفظ کرتا تو میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے جو میری والدہ کا راستہ ہے۔ یہ راستہ مشکل اور خطرات سے بھرپور ہے لیکن درست راستہ یہی ہے۔ موروثی سیاست کا الزام لگانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے جو محترمہ بینظیربھٹو شہید اور بلاول بھٹو زرداری دونوں کو حالات کے جبر نے بہت کم عمری میں پہنا دیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے آکسفورڈ سٹوڈنٹس یونین کی صدارت سے لے کر اسلامی دنیا کی پہلی اور کم عمر ترین وزیراعظم بننے تک اورجنرل ضیا کے مارشل لا کے خلاف عظیم جدوجہد سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی وردی اتروانے تک جس جہد مسلسل اور عزم وہمت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک پیدائشی لیڈر تھیں جنہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا نہ صرف پاکستان میں بلکہ اقوام عالم میں بھی منوایا۔ دنیا آج بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو پاکستان کے ایک روشن چہرے اور اقوام عالم کے لئے ایک مدبر اور عظیم قائد کے طور پر یاد کرتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے سیاسی مخالفین جو ساری زندگی محترمہ سے اختلاف کرتے رہے آج محترمہ کی سیاسی سوچ اور جدوجہد سے متفق نظر آتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بدترین مخالفین کی طرف سے بعد از شہادت محترمہ کو پیش کیا جانے والا خراج عقیدت محترمہ کی عظمت اور سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک ایسی عہد ساز شخصیت تھیں جن کی بہادری، عظمت اور آمرانہ نظام کے خلاف مسلسل جدوجہد کو ملکی اورغیر ملکی سطح پر نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ یونیورسٹیوں میں محترمہ بینظیر بھٹو کی آمریت اور استعمار کے خلاف جدوجہد کو بطور نصاب پڑھایا بھی جاتا ہے۔ طالب علم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جدوجہد پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواتین کے لئے گھر سے باہر قدم رکھنا اور عملی زندگی میں حصہ لینا نہایت مشکل کام ہے، اس ملک اورمعاشرے میں محترمہ بینظیر بھٹو کی جانب سے بدترین آمر جنرل ضیا کی آمریت اور اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ حکومتوں کے خلاف عظیم الشان جدوجہد سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے مشکل ترین حالات میں بھی کبھی حوصلہ نہیں ہارا نہ کبھی عوام کے حقوق کی جدوجہد سے دستبردار ہوئیں اور نہ کبھی جمہوریت سے اپنی وابستگی پر آنچ آنے دی۔ یہی وجہ ہےکہ دنیا آج بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو ایک جمہوریت پسند، روشن خیال اور انسانی حقوق کی چمپئین رہنما کے طور پر یاد رکھے ہوئے ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کہا کرتی تھیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے یہی وجہ ہے کہ دو دفعہ برسرِاقتدار آنے کے باوجود محترمہ نے اپنےسیاسی مخالفین کے خلاف کبھی کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی بلکہ ہمیشہ سیاسی ڈائیلاگ پر زور دیا اور ملک و قوم کے مفاد کی خاطر بدترین سیاسی مخالفین کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کے لئے اپنی ذاتی مخالفت اور انا کو ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیا۔ جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف جدوجہد کے لئے ایم آر ڈی کا اتحاد ہو یا جنرل مشرف کے خلاف اے آر ڈی کا اتحاد ہو، ان تمام اتحادوں کے پیچھےمحترمہ بینظیر بھٹو شہید کی یہ سوچ کار فرما نظر آتی ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایم آر ڈی اوراے آر ڈی جیسے اتحادوں میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ان سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کے ساتھ مل کر آمروں کے خلاف جدوجہد کی جو پیپلزپارٹی اور محترمہ کے بدترین سیاسی مخالف تھے۔ اسی طرح ضیا آمریت کی یادگار بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم ختم کرنےاور اسمبلی توڑنے کا صدارتی اختیار ختم کرنے کے لئے محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اس وقت کی حکومت کے ساتھ تمام تر تخفظات کے باوجود اپنا تعاون پیش کیا تاکہ اس بدنام زمانہ ترمیم کو آئین پاکستان سے ختم کیا جا سکے۔ اپنی سب سے بڑی مخالف سیاسی جماعت ن لیگ کے ساتھ دو ہزار چھ میں کیا جانے والا تاریخی میثاق جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا ایسا کارنامہ ہے جس کےنتائج اور ثمرات سے پاکستان کی بُری بھلی جمہوریت آج بھی مستفید ہو رہی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا موقف بالکل واضح تھا۔ ایسے وقت میں جب بڑے بڑے جغادری سیاسی رہنما دہشت گردوں کے خوف سے کوئی واضح ردعمل دینے سے گھبراتے تھے تو محترمہ بینظیر بھٹو ہی تھیں جو بغیر کسی ڈر اورخوف سے کھلے الفاظ میں دہشت گردی کی مذمت کیا کرتی تھیں۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنے آخری جلسے کی تقریر کے دوران ہی محترمہ نے اقتدار میں آنے کے بعد سوات کو دہشت گردوں کے شکنجے سے چھڑانے کا وعدہ کیا جسے محترمہ کی شہادت کے بعد زرداری صاحب نے پورا کرکے دکھایا۔ دو ہزار سات میں پاکستان واپسی اور کارساز بم دھماکوں کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کو پوری طرح اس بات کا ادراک تھا کہ وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن محترمہ بینظیر بھٹو نہ تو گھبرا کر اپنے مشن سے پیچھے ہٹیں اور نہ عوام کا ساتھ چھوڑا۔ سندھ، بلوچستان اور سرحد (خیبر پختونخواہ) میں کامیاب ترین انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے کے بعد شہید رانی کا قافلہ بالآخر ستائس دسمبر دو ہزار سات کو راولپنڈی کی مقتل گاہ پہنچ گیا جہاں بزدل دشمن اپنا وار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
ستائیس دسمبر دو ہزار سات کی سرد شام ایک گہری تاریک رات میں ڈھل چُکی تھی۔ سندھ جی نیانی، دخترِ مشرق، کنیزِ کربلا راولپنڈی کے کربلا میں شہید کی جا چُکی تھی۔ عوام کی روشن اُمید بُجھائی جا چُکی تھی اور تقریباً اٹھائیس برس کے بعد راولپنڈی سے ایک دفعہ پھر گڑھی خدا بخش تک کا سفر درپیش تھا۔ کراچی سے خیبر تک شامِ غریباں شروع ہو چُکی تھی اور پنکی سے شہید رانی تک کا سفرمکمل ہو چکا تھا۔
وہ دریا دیس سمندر تھی
جو تیرے میرے اندر تھی
وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی
وہ لڑکی لال قلندر تھی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...