(Last Updated On: )
اَدب کے تاجور ہوں گے زمانے میں بڑے لیکن
اَدب کے جو پیارے ہیں بڑی تعظیم رکھتے ہیں
جس طرح صدف میں گوہر اورچمن میں دیدہ ور کا وجود امکانی مگر حصولِ جاں فشانی کا متقاضی ہوتا ہے۔ اسی طرح لازم مگر مشکل ربط ِ حال و ماضی ہوتا ہے۔ یادِ جہان و یادِ جہان پرور کے لیے گھڑیاں تلاش لینا جوئے شیر لانے سے کسی قدر کم نہیں ہے۔ خاص کر ایسے حالات میں کہ جب کرونا جیسی آفت ناگہانی کے وار پے در پے آمادۂ آزار ملے ہوں اور روحِ اِقبالؒ ملت کے فرد فرد سے عظمتِ اسلاف سے روگردانی کا نوحہ کناں اور میراثِ مطلوبہ کی پاسداری سے عدمِ انصاف پر شکوہ سنج ہوتے ہوئے کچوکے لگا رہی ہو کہااے ظاہری محبت میں پِچ گئے لوگو
اَدب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
ایسے میں بلامبالغہ لائقِ صد تحسین و تسلیم ہیں وہ ہستیاں جنہوں نے اپنے تئیں وقت کی آواز پہ نہ صرف لبیک کہا بلکہ اپنے استقلالِ پیہم کے بل بوتے جنگل میں دھنک کا سماں باندھ کر ہی دَم لیا۔ اَقلیمِ اَد ب میں حاضر کے دھنک ساز کو ہم ’’محمد یوسف وحید‘‘ کے نامِ نامی سے جانتے اور مانتے ہیں۔
یہ بندۂ خدا اَلوَ لدُ سِر لِاَ بیہِ کا مصداقِ مطلق ہے۔ آپ کے بزرگوںکی علمی و اَدبی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔
ملکِ علم و اَد ب کا کون سا سیرانی ان کے والدِ ماجد ارشاد احمد ارشد مر حوم اور جدِ اَمجد ایم عبد الواحد افغانؔ سے آشنا نہیں ہے۔ خان پور نے علم واَ دب، ثقافت، سیاحت و صحافت کی نہ صرف خدمت کی ہے۔ نخلِ اَدب کی آبیاری میں بھی خان پور کا کردار فقید المثال ہے۔ حتیٰ کہ روحانیت و تصوف، تحقیق و تحریک کا میدان بھی اپنی گراں قدر کامرانیوں کے لیے اس کا ممنون احسان ہے۔ محسنِ اَدب ہونے کا اعزاز رکھنے والی چند ہستیوں کا ذکر کسی بھی ذاکرِ صداقت کا لازمہ حیات رہے گا۔ مجھے صادق ہونے کے ناطے فریضۂ عقیدت اَدا کرنا ہے۔ ورنہ اس بات کا بھی مکمل ادراک رکھتا ہوں کہ
سو بار دھو کر زبان کو مشکِ گلاب سے
گستاخ ہوں جو پھر بھی تیرا نام لے سکوں
مرشد ِ من، زبدۃ المحققین سیّد محمد فاروق القادری مرحوم‘ جن کے لسانِ قلم نے دِلوں کی دنیا پھیر نے کے عمل کو بین الاقوامی جامعات تک رَسائی عطا فرمائی۔ صوفی ٔ اعظم کا اعزاز پانے والے خواجہ غلام قطب الدین فریدی، شاعری سے شعور کے دیپک جلانے والے مولوی لطف علی، خواجہ محمد یار فریدی، امان اللہ ارشد، محمد نواز خوشتر، قیس فریدی اور مرید حسین راز جتوئی نہ صرف زیست ساز بلکہ عشق و اَدب کے پیرِ مغاں کا کردار نبھاتے ہوئے جا سکتے ہیں۔
تو آگے آ طواف کر اَدب کے راج پیر کا
کہ آتا ہے ہوا کے سنگ خراج روز میر کا
راقم الحروف نے پیر ِ مغاں کا لفظ برتا ہی اس لیے ہے کہ نہ اس کا جام رُکتاہے نہ ان کا جام رُکتا ہے فیضانِ بروں اور دردِ دروں کا۔ لنگر دما دم جاری و ساری ہے۔ وردانِ روحانی کی ہر کڑی ذات میں انجمن ہے۔ سید علی رضاالقادری غمِ ظاہر و باطن کا اَزالہ کرتے نہیں تھکتے۔ سید صبغت اللہ سہروردی فیضانِ قلم و قرطاس سے روح پرور آبشاریں فراہم کیے جار ہے ہیں۔ سید رشد اللہ بخاری احیائے سیادت کے تقاضے نبھا رہے ہیں تو خواجہ محمد عالم کوریجہ جامِ فریدی منوا رہے ہیں۔ خواجہ نصیر الدین چراغ قندیلِ تصوف کی لَو بڑھا رہے ہیں۔ کہیں مرزا حبیب وجۂ دوستی کا طُرہ چھکا رہے ہیں۔ الغرض پروانِ ذات بھی جاری ہے۔ زیست سازی بھی ہوئی جارہی ہے۔ جامِ شعور کی ایک اچھال کا نام مجاہد جتوئی ہے کہ جس کا تقرب فرید ی مُودت کو سہہ آتشہ کیے جارہا ہے۔ جی ہاں! میدانِ اَدب کے ایک خاموش مجاہد کو آپ ظفر جتوئی اور راقم الحروف زیست ساز کہتا ہے۔ خان پور کے دامن میں زیست سازی کی دولت وافر آئی ہے۔ سینئر ہیڈ ماسٹر ملک محمد عامر ہوں یا پروفیسر رفیق احمد صدیقی پیہم زیست سازی کیے جارہے ہیں۔ اس مثبت عمل کے نام ڈاکٹر اعجاز فرید اَمرتسری کایہ شعر کہے بنا رہا ہی نہیں جارہا۔
جلووں سے منّور ہیں آنکھیں دل درد سے بھی محروم نہیں
جو آپ سے پایا ہے میں نے وہ آپ کو بھی معلوم نہیں
آج اَدب کے چمن میں اپنی ذات میں انجمن ہونے والے اکابرین سے ہونیوالی اس ملاقات کا سہرا شاعر، اَدیب،کالم نگار، خو ش نویس، خطاط اور اَدب نواز و علم دوست فرد محمد یوسف وحید کے سَر سجتا ہے۔ ان کی زیر ِنظر کتاب ’’خان پور کا اَدب‘‘ حالات کے دَھارے، وَبائی آزمائش اورہمہ قسم عدیم الفرصتی کے دَور میں قابلِ صد ستائش اَدبی کارنامہ ہے۔ بہر طور یہ اَدبی خدمت ہے۔ جس کا انداز و اُسلوب ان شاء اللہ یقینا ًڈاکٹر نذیر احمد بزمی کی ’’خان پور میں اُردو غزل‘‘ کی طرح نئے اذہان کو تحریک دینے میں انتہائی مثبت کردار اَدا کرے گی اور ادب کو زندہ وجاوید رکھنے میں اَہم کڑی ثابت ہوگی۔ اس کارنامے پرمیں محمد یوسف وحید کی نذر اپنا یہ شعر کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا۔ ؎
پڑھی جو عبارت تو ایسا لگا ہے اَدب کو عقیدت کے سانچے میں ڈھالا
وفا کے نگینوں کی تجسیم کر دی صدف کے ہے سینے سے گوہر نکالا
(بحوالہ : خان پور کا اَدب ، تحقیق و تالیف : محمد یوسف وحید ، ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، 2021ء )
٭٭٭