(Last Updated On: )
رات کے وقت کھلے آسمان میں ستاروں اور دوسرے خلاٸی آبجیکٹس کو دیکھنا ایک پرکشش اور حسین منظر ہوتاہے۔اس کا مزا تب دوبالا ہوجاتاہے جب آپ شہر سے دور ایک پرکشش فضا میں جہاں دور دور تک کوٸی آبادی موجود نہ ہو صرف آپ اس پرسکون ماحول میں موجود ہو۔آسمان میں موجود ستارے ہم سے بہت دور ہوتے ہیں جس وجھ سے ہمیں صرف ایک نقطے جتنے روشن اجسام لگتے ہیں۔لیکن حقیقت میں یہ بہت بڑے ہوتے ہیں۔
ہم اپنی آنکھ سے تقریبا آسمان میں موجود دو ہزار سے لیکر چھ ہزار تک ستارے دیکھ سکتے ہیں۔آسمان سے سب سے روشن ستارہ sirius ہے۔۔یہ ستارہ ہمارے سورج سے دو گنا بڑا ہے۔اگر ہم اپنے سورج کی جگھ اسے رکھیں تو یہ سورج سے بیس گنا زیادہ روشن ہوگا ہمارے آباواجداد بھی اس ستارے سے صدیوں سے باخبر تھے یہ ستارہ سردیوں کی موسم میں شمالی کرہ میں اچھے طریقے سے دیکھا جاسکتا ہے۔۔۔لیکن ستارے ہمیشہ اپنی اصلی حالت میں نہیں رہتے ایک وقت آتاہے جب ان میں موجود ھاٸڈوجن ہیلیم نہیں بنا پاتی اور ان کا ایندھن ختم ہوجاتاہے۔جس عمل کے ذریعے ھاٸڈروجن مل کر ہیلیم بناتی ہے اسے نیوکلٸر فیوژن کہا جاتا ہے
………………………….
۔ہمارا جسم بہت سارے عنصروں سے ملکر بنا ہے ۔ان میں سے کچھ اہم عنصر ان ستاروں میں ہی بنتے ہیں جن میں ہمارے جسم کا اہم عنصر کاربان بھی شامل ہے۔یہ تب ہوتا ہے جب ستاروں کے اندرونی حصے میں دباٶ بڑھ جاتاہے اور ھیلیم آپس میں ملکر کاربان بناتے ہیں۔اور کاربان اور زیادہ دباٶ اور تواناٸی سے آکسیجن سے لیکر ستاروں کے اندر آٸرن تک بناتے ہیں۔کاربان کے بغیر زمین پر زندگی ممکن نہیں ہے۔آپ جو بھی غذا استعمال کرتے ہیں ان میں اکثر کاربان ایک اہم عنصر کے طور پر موجود ہوتا ہے جیسے کہ چربی۔۔کاربوھاٸڈریٹ۔۔۔پروٹین۔۔یہ وہ مرکبات ہیں جو ہمارے لیے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
……………………….
جب سورج جیسے ستاروں کے core میں ہائیڈروجن ختم ہوجاتی ہے تو وہ ستارے کشش ثقل کے وجھ سکڑنے لگ جاتے ہیں۔تاہم اس کے باوجود کچھ ہائیڈروجن کا ایندھن اوپری تہوں میں موجود ہوتا ہے۔ جیسے جیسے سورج کا اندرونی حصہ سکڑتا جاتا ہے تو core گرم ہوتا جاتا ہے جس وجھ سے ان ستاروں کے اوپری تہہ بھی گرم ہونے لگتاہے ۔ ،اور وہ پہیلنے لگ جاتا ہے۔ بیرونی تہوں کے پھیلنے کی وجھ سے ستاروں کا رداس بڑھتا جاتاہے اور وہ سرخ دیو (red giant ) کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔۔ آنے والے تقریبا چارسے پانچ ارب کے بعد ہمارا سورج سرخ دیو بن جاۓ گا اور وینس ،مرکیوری سے زمین تک پہیل جاۓ گا۔ ۔ اس کے بعد کور اتنا گرم ہوجائے گا کہ ہیلیم سے کاربان بننے لگ جاۓ گا۔ جب ہیلیم ایندھن بھی ختم ہوجائے گا ، تو وہ وسیع اور ٹھنڈا ہوجانا شروع ہوجاۓگا۔ اوپری تہیں وسیع ہونا شروع ہوجاٸیں گی اور اپنے اندر سے مادے ک کو خارج کریں گی۔ جو مرتےاس ہوئے ستارے کے گرد جمع ہو کر گر پلانٹیرٕی نیبولا کو تشکیل دے ڈالے گا۔پلانٹری نبولا گول دھول اور گیسز کی شکل کا ہوگا۔ آخر کار ، core ٹھنڈا ہونے لگے گا اور ایک سفید بونے کی شکل اختیار کرلے گا اور پھر آخر کار ایک سیاہ بونے کی شکل اختیار کرلے گا۔اس سارے عمل میں چند ارب سال لگ سکتے ہیں۔
…………………………….
وہ ستارے جو سورج سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں ان کے core میں جب ہائیڈروجن ختم ہوجاتی ہے ، تو یہ ستارے بھی سورج کی ہیلیم کو ملالکر کاربان بناتے ہیں لیکن ان کے پاس اتنا ماس ہوتاہے کہ میں کاربان آپس میں ملکر ، بڑے پیمانے پر آکسیجن ، نیان ، سلیکان ، میگنیشیم ، سلفر اور آئرن جیسے بھاری عنصروں بناتے ہیں۔ایک بار جب core میں کاربان فیوز ہوکر آٸرن تک عناصر بنالیتاہے ، تو یہ اس سے مزید جل نہیں سکتا۔ کر کوٸی دوسرا بھاری عنصر نہیں بنا سکتا اور آٸرن تک بس اس کا آخری سفر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ستارہ اپنی کشش ثقل کی وجھ سے سکڑنے لگ جاتا ہے اور زیادہ گرم ہونے لگتا ہے۔۔
کور اتنے مضبوطی سے ٹاٸٹلی پیکٹ جاتا ہے کہ پروٹان اور الیکٹران مل جاتے ہیں اور نیوٹران بنا دیتے ہیں۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں ، آئرن کور ، جو فرض کرلیں کہ زمین کے سائز کے برابر ہے(۔یہاں کور کی بات ہورہی ہے ستارے کی نہیں) ، تقریبا 10 کلو میٹرکے رداس کے ساتھ ایک نیوٹران کور کے طور پر سکڑ جاتاہے ستارے کی بیرونی پرتیں کشش ثقل کی وجھ سے نیوٹران کے اندرونی کور کی طرف سکڑنے لگ جاتی ہیں۔ جس وجھ سے درجہ حرارت اربوں سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔۔ اور وہ ستارہ سپر نووا کی صورت میں پہٹ جاتا ہے. جس سے خلاء میں بڑی مقدار میں توانائی اور مادا خارج ہوتے ہیں۔اس سپرنووا سے پارٹیکلز بہت زیادہ موممینٹم سے ٹکراتے ہیں اور آٸرن سے آگے عنصروں کو بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ سپرنووا کی وجھ سے پیدا ہونے والی shock wave دوسرے خلاٸی بادلوں میں ستاروں کی تشکیل کا آغاز کرتی ہیں ۔ ستارے کا core کا بچا ہوا حصا نیوٹران اسٹار یا بلیک ہول تشکیل دے سکتاہے۔۔
………………….رچرڈ ڈاکنز……………