(Last Updated On: )
تحریر: خورخے لوئیس بورخیس (ارجنٹائن)
Jorge Luis Borges (Argentina): 1899-1986
اردو ترجمہ: صغیر ملال (1992ء-1951ء) راولپنڈی/کراچی
وہ اُسے یوٹوپیا (مثالی دُنیا) کہتا تھا۔ یٹوپیا ایک یونانی لفظ ہے، جس کا مطلب ہے “ایسی جگہ جس کا کہیں وجود نہ ہو۔” (کوئی وی ڈو)
دُنیا کا ہر پہاڑ دوسرے پہاڑ سے مختلف ہے۔ مگر روئے زمین پر تمام میدان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ میں بھی ایک ایسے ہی میدان سے گزر رہا تھا۔ جو بقیہ تمام میدانوں جیسا تھا۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ یہ کون سا ملک یا علاقہ ہے۔
راستہ ناہموار تھا اور چند لمحے قبل بارش شروع ہوگئی تھی۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو درختوں کے جھنڈ میں ایک چوکور مکان نظر آیا جس کی کھڑکیاں روشن تھیں۔ دروازہ کھولنے والا شخص اس قدر دراز قد تھا کہ اُسے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے مجھے ہلکا سا خوف محسوس ہوا۔ وہ گردن سے پاؤں تک ایک ہی رنگ کے لبادے میں ملبوس تھا۔ میری دستک پر اُس نے یوں بلا تاخیر دروازہ کھولا کہ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ کسی کی آمد کا منتظر تھا۔ دروازے پر قُفل کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
ہم لکڑی کی دیواروں والے ایک طویل کمرے میں داخل ہوئے جہاں ایک میز کے گرد چند کرسیاں رکھی تھیں۔ معلوم نہیں کیوں مجھے وہ میز عام میزوں سے مختلف نظر آیا۔ میز پر وقت کی پیمائش کا ایک قدیم آلہ رکھا تھا۔ پورا کمرہ چھت سے لٹکی ایک لالٹین کی زرد روشنی سے لبریز تھا۔ اجنبی نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
میں متعدد زبانوں میں بات کرنی چاہی مگر ناکام رہا۔ بالآخر اجنبی نے لاطینی گفتگو کا آغاز کیا۔ مدتوں پہلے اسکول میں سیکھی جتنی لاطینی مجھے یاد رہ گئی تھی اُسے بروئے کار لاتے ہوئے میں ہمہ تن گوش ہوگیا۔
“تمہارے لباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمہارا تعلق ماضی کی کسی صدی سے ہے۔” اجنبی نے کہا “اسی لیے تم اتنی زبانیں بولتے ہو۔ ایک سے زیادہ زبانوں کے باعث ایک سے زیادہ گروہ بن جاتے ہیں اور گروہ ایک نہ رہے تو جنگ چھڑ جاتی ہے اس لیے دنیا واپس لاطینی کی جانب لوٹ گئی۔ممکن ہے انسان دوبارہ زوال پزیر ہوجائے اور زمین پر ایک بار پھر طرح طرح کی بولیاں بولی جائیں، مگر مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔۔۔۔ اور یوں بھی گزشتہ اور آئیندہ کے بارے میں سوچنا بے معنی اور لاحاصل ہے۔”
میں خاموش رہا۔
“اگر تم کسی کو کھانا کھاتے دیکھ کر کراہت محسوس نہیں کرتے تو میں تمہیں کھانے کی دعوت دیتا ہوں۔” چند لمحوں بعد وہ بولا۔
میں نے تائید میں سر ہلایا۔
ہم لکڑی کی سیڑھیاں اتر کر باورچی خانے میں گئے جہاں ہر چیز دھات کی بنی ہوئی تھی۔ ہم نے کھانے کی چیزیں ایک تھال میں رکھیں اور میز کی سمت لوٹ آئے۔ تھال میں پانی کا بڑا پیالہ، دلیہ، انگور اور انجیر جیسے ذائقے والے چند پھل شامل تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کھانے میں روٹی نہیں تھی۔ میرے میزبان کے چہرے کی رنگت ہلکی زرد اور نقوش تیکھے تھے، لیکن جو چیز اُس کے چہرے کو ناقابلِ فراموش بنارہی تھی وہ اُس کی آنکھیں تھیں۔ اُن میں غیر معمولی چمک تھی۔ مجھے لاطینی زبان میں اظہارِ خیال کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ مگر کچھ دیر تک مناسب الفاظ سوچنے کے بعد میں نے اُس سے پوچھا “میری اچانک آمد نے تمھیں حیران نہیں کیا؟”
“نہیں” اُس نے کہا “ہر صدی میں کوئی نہ کوئی آہی جاتا ہے۔ اور یوں بھی کوئی زیادہ دیر نہیں ٹھہرتا۔ کل تک تم بھی گھر واپس چلے جاؤ گے۔”
اُس کے جواب نے میری ہمت بڑھائی۔ مجھے خیال آیا کہ میں نے اب تک اپنا تعارف نہیں کرایا۔ “میرا نام ایڈرو ہے میں 1897ء میں پیدا ہوا تھا میں بیونس آئرس کا رہنے والا ہوں۔ میری عمر ستر سال ہے۔ میں انگریزی ادب کا استاد ہوں۔ اور اپنی مادری زبان میں افسانے لکھتا ہوں۔”
“عرصہ ہوا میں نے دو افسانوی کتابیں پڑھی تھیں۔ جو خاصی پُر لطف تھیں۔” اجنبی بولا۔ “کچھ لوگ اس طرح کی کہانیوں کو حقیقت قرار دیتے ہیں۔ مگر ہم حقیقت کے بارے میں بات نہیں کریں اس طرح کی کہانیوں کو حقیقت قرار دیتے ہیں۔ مگر ہم حقیقت کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔ اب حقیقت سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ دلیل اور ایجاد کا عمل حقیقت سے زیادہ اہم ہے ہمار ے مدرسوں میں اب بچوں کو شک اور فراموشی کا فن سکھایا جاتا ہے۔ تشکیک اور نسیان کو طویل غور و خوض کے بعد شامل نصاب کیا گیا ہے۔ خاص طور پر ذاتی اور علاقائی چیزوں کو بھولنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہم روان وقت میں زندہ رہتے ہیں۔ ماضی سے ہمارے پاس کچھ نام پہنچے ہیں۔ مگر انہیں زبانِ واحدہ بہت جلد گم کردے گی۔ ہم لاحاصل تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ دنوں کے نام اور تاریخوں اور اعداء کو بے معنی پاکر ترک کیا جاچکا ہے تم نے اپنا نام ایڈرو بتایا ہے۔ مگر میں تمھیں اپنا نام نہیں بتا سکتا کیونکہ مجھے فقط “ایک شخص” کہہ کر بلایا جاتا ہے۔”
“تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟”
“اُس کا کوئی نام نہیں تھا۔”
میں نے کمرے میں رکھی چند کتابوں میں سے ایک کتاب اُٹھا کر ورق گردانی شروع کردی۔ ہاتھ سے لکھی تحریر صاف، مگر ناقابلِ فہم تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا اشاروں کی زبان، بجائے قلم کے کسی اوزار سے کاغذ پر ثبت کی گئی ہے۔ مجھے خیال آیا کہ مستقبل کے یہ لوگ زیادہ دراز قد ہی نہیں بلکہ متعدد باریک فنون میں مہارت رکھتے ہیں۔ میری نظریں خود بخود اجنبی کی لمبی اور خوشنما انگلیوں کی طرف اُٹھ گئیں۔
“میں تمہیں ایک ایسی چیز دکھاتا ہوں، جو شاید تم کبھی نہ دیکھی ہو۔” اجنبی نے کہا، اور ایک طباعت شدہ کتاب کھول کر میرے سامنے رکھ دی۔
“چھاپے خانے میں تیار کردہ ایک عام سی کتاب ہے۔” میں نے کتاب کی عمومیت کے پیشِ نظر لاپروائی سے کہا۔ “میرے گھر میں اس طرح کی دو ہزار سے زائد کتابیں ہیں۔”
اجنبی میری بات پر ہنس دیا۔ “کوئی بھی شخص اتنی کتابیں نہیں پڑھ سکتا۔” وہ بولا، “میں نے اپنی عمر کے چار سو سال میں چھ سے زیادہ کتابیں نہیں پڑھیں۔ اور پھر اہم بات پڑھنا نہیں بلکہ دوبارہ پڑھنا ہے۔ زمانہ ہوا ہم نے کتابیں چھاپنی بند کردیں۔ اس سے غیر ضروری مواد کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔ اور یہ انسان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔”
“لیکن جو زندگی میں نے گزاری ہے۔ اس میں تو ضروری ہے کہ ہم صبح سے شام تک رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رہیں۔” میں نے اجنبی کو بتایا “کم و بیش ہر شخص جانتا ہے کہ قومی رہنماؤں کے اجلاس میں کیا طے پایا۔ کن دو ملکوں کے سفارتی تعلقات ٹوٹ گئے۔ پہلے کے صدر نے کیا کہا۔ دوسرے وزیرِاعظم نے کیا جواب کیا۔ اس طرح کی تمام چیزیں چند گھنٹوں تک گفتگو کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہیں۔ کیونکہ کچھ دیر بعد دوسری باتیں منظرِ عام پر آجاتی ہیں۔ جو پہلی تمام اطلاعات کو پرانا بنا دیتی ہیں۔ سب سے زیادہ سیاستدان کے بیانات چھپتے اور پڑھے جاتے ہیں۔ وزیروں اور سفیروں کو نہ جانے کیا معذوری لاحق ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ ہر وقت ان کی حفاظت کرنے والے موجود رہتے ہیں۔ مگر لوگ پھر بھی انکی تصویریں کھینچنے کے لیے قطاریں توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ اور بعض اوقات قدموں تلے روندے جاتے ہیں۔ ریاستوں کے حکمران ہمہ وقت ہجوم میں گھرے رہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے انکی کوئی بات اور کوئی چیز ان کی اپنی نہیں ہے۔ اخباروں میں چھپنے والی تصویروں اور خبریں حقیقت سے زیادہ حقیقی سمجھی جاتی ہیں۔ شوروغل کو بامعنی آوازوں کی حیثیت حاصل ہے۔ عام آدمی سمجھتا ہے کہ اسے وہی چیز خریدنی چاہیئے جس کے بارے میں اسکے تیار کندگان خود چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ وہ معیاری ہے، اور اچھی ہے، اور سستی ہے۔ لوگ ڈاکے بھی ڈالتے ہیں حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ دولت سے نہ خوشی ملتی ہے۔ نہ ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔”
“دولت” اجنبی کی گونج سُنائی دی۔ “اب دولت کسی کے پاس نہیں ہے۔’ کیونکہ اس سے بے آرامی اور بازاری پن پیدا ہوتا ہے، اسی لیے اب کوئی غریب بھی نہیں ہے کہ غیر ضروری پریشانی سے دوچار ہو۔ سب کا اپنا مقدس کام ہے۔”
“مقدس کام سے کیا مراد ہے؟” میں نے پوچھا۔
شاید وہ میری بات نہیں سن سکا۔ اُس نے اپنی بات جاری رکھی۔ “نہ ہی اب شہر تعمیر کئے جاتے ہیں ذاتی ملکیت اور وراثت کا تصور بھی ختم ہوگیا۔ سو سال کی عمر میں جب آدمی بالغ ہوجاتا ہے تو وہ اپنا اور اپنی تنہائی کا سامنا کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتاہے۔ اس وقت تک وہ ایک بچہ بھی پیدا کرچکا ہوتا ہے۔”
“صرف ایک بچہ؟”
“ہاں۔ صرف ایک۔ انسانوں کی تعداد بڑھانے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا مؤقف تھا کہ خدا اپنی مخلوق کے ذریعے خود کو دیکھتا ہے اپنی ذات کا عرفان حاصل کرتا ہے لیکن کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ خدا وجود رکھتا ہے اسکے علاوہ زمین پر موجود تمام انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی خودکشی بھی موضوع بحث بن چکی ہے۔۔۔۔ مگر میرے خیال میں ہمیں اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹنا چاہیئے؟”
میں نے تائید میں سر ہلایا۔
“۔۔۔۔ تو سو سال کے بعد آدمی اکیلا رہ سکتا ہے۔ اُسے محبت یا دوستی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لیے گناہ اور موت کو مسئلہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ وہ فلسفہ کی تہہ داریوں یا ریاضی کے فن سے دل بہلاسکتا ہے۔ اس کے بعد وہ جب چاہے خود کو ہلاک کرسکتا ہے آدمی اپنی زندگی کا مالک ہے۔ آدمی اپنی موت کا بھی مالک ہے۔”
“کیا یہ کوئی مقولہ ہے؟” میں نے دریافت کیا۔
“ہاں۔ ہماری زبان اب فقط اقوال پر مشتمل ہے۔”
“لیکن۔۔۔ ” میں کچھ جھجکا مگر پھر وہ بات پوچھ ہی لی جو میرے نزدیک بہت اہم تھی۔” زمین والوں نے خلائی سفر کی ابتدا کردی تھی۔ اس کا کیابنا؟”
“قدیم زمانے کے لوگ اسے بہت اہم پیش رفت سمجھتے تھے۔” اجنبی نے اطمینان سے کہا، “مگر ہمیں ان کوششوں کی لایعنیت کا احساس ہوگیا تھا۔ آدمی جہاں بھی چلا جائے اپنے ساتھ ہی رہتا ہے اور پھر۔۔۔۔۔ ” اجنبی عجیب انداز میں مسکرا کر بولا، “ہر سفر خلائی سفر ہوتا ہے۔ ایک سیارے سے دوسرے سیارے پر جانا، ایک کھیت ہے، دوسرے کھیت میں جانے سے مختلف نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم خلا میں سفر کرتے ہوئے ہی اس کمرے میں آئے ہو۔”
“یہ تو درست ہے، مگر کیمیائی عناصر اور جانداروں کے ارتقاء پر بھی بہت گفتگو ہوا کرتی تھی۔”
اجنبی اس بات کا کوئی جواب دیے بغیر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ برف سے ڈھکے میدان پر چاندنی پھیلی تھی۔ ماحول پریشان کن حد تک خاموش تھا۔
“عجائب گھر اور کتب خانے وغیرہ ہیں؟” میں نے سناٹے سے بے چین ہوکر دریافت کیا۔
“نہیں ہم ماضی کو بھول جاتے ہیں۔ کوئی مرجائے تو اس کے لیے نوحہ لکھنے کی اجازت ہے۔ لیکن یادگاریں قائم کرنا یا برسیاں منانا یا پُتلے وغیرہ بنا کر رکھنے کا رواج ختم ہوگیاہے۔ ۔۔ ہر شخص اپنی پسند کے علوم و فنون خود تخلیق کرتا ہے۔”
اس کا مطلب ہے ہر آدمی خود اپنا برناڈشا ہے۔ اپنا عیسیٰ ہے اپنا آرشمیدس ہے۔”
اجنبی نے کوئی لفظ کہے بغیر تائید میں سر ہلایا۔
“حکومتیں قائم ہیں؟”
“نہیں” اس نے جواب دیا۔ “رفتہ رفتہ حکومتوں کا کوئی کام باقی نہیں رہا تھا۔ جب ہر شخص اپنی تنہائی کے ساتھ زندہ رہنے لگا تو جنگیں اور انتخابات اور گرفتاریاں اور رہائیاں اور لگان اور حقوق و فرائض بے معنی ہوگئے۔ سیاستدانوں کی خبریں اور تصویریں چھپنی بند ہوگئیں۔ تو انہوں نے روزمرہ کے عام پیشے اپنا لیے اور ایمانداری سے روزی کمانے لگے۔ ان میں چند اچھے مزاحیہ اداکار ثابت ہوئے اور کچھ محض اپنی گفتگو سے لوگوں کا دل بہلا کر گزر اوقات کرنے لگے۔” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ نسبتاً تند لہجے میں بولا۔ “یہ گھر میں نے خود تعمیر کیا ہے اور یہ دنیا کے بقیہ تمام گھروں جیسا ہے۔ کرسیاں، میز اور برتن بھی میرے ہاتھ کے بنے ہوئے ہیں۔ یہ کھیت میری محنت سے قابلِ کاشت ہوئے ہیں۔ میں ان لوگوں کو نہیں جانتا میرے بعد آئیں گے اور انہیں بہتر بنائیں گے۔۔۔ آؤ میں تمہیں کچھ چیزیں دکھاؤں”
ہم ساتھ والے کمرے میں گئے۔ اُس نے چھت سے لٹکی لالٹین روشن کی۔ کمرے کے کونے میں تاروں والا ایک ساز رکھا تھا۔ دیواریں پر لکڑی کی چوکور تختیاں ٹنگی تھیں جن پر مختلف طرح کی تصویریں بنی تھیں تمام تصویر میں زرد رنگ نمایاں تھا۔
“یہ میرا فن ہے” اجنبی نے کہا۔
میں نے تصویروں کو غور سے دیکھا۔ سب سے چھوٹی تصویر میں غروبِ آفتاب کے منظر سے لا انتہا کا تاثر اُبھارا گیا تھا۔
“اگر تمہیں یہ تصویر پسند ہے تو اسے میری جانب سے تحفہ سمجھو۔” اجنبی نے جزبات سے عاری آواز میں کہا۔ “یہ تمھیں مری یاد دلاتی رہے گی۔۔۔۔ مستقبل کے آدمی کی یاد۔”
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن اُس وقت تک مجھے دیواروں پر ٹنگی چند تختیاں ناقابلِ فہم انداز میں متاثر کرنے لگی تھیں۔ میری نظر باربار ان کی جانب اُٹھ رہی تھی۔ یہ کہنا تو شاید غلط ہوکہ وہ تختیاں خالی تھیں۔ مگر بہرحال ان پر کوئی چیز واضح نہیں تھی۔
“ان تصویروں میں وہ رنگ استعمال کیے گئے ہیں جو تمہاری ماضی کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔”
اجنبی نے میری بے چینی دور کرنے کے لیے کہا۔
اور کچھ دیر بعد جب اُس نے اپنی لمبی ناک اور نازک اُنگلیوں سے ساز کی تاریں چھیڑیں تو مجھے کچھ سُنائی بھی نہیں دیا۔
۔۔۔۔ دروازے پر دستک ہوئی اور ایک لمبی عورت اور تین یا چار مرد اندر آئے۔ وہ سب بہن بھائی لگ رہے تھے۔ یا شاید صدیوں کے ساتھ نے ان کے نقوش ایک جیسے کردیے تھے۔
“مجھے معلوم تھا تم آج رات ضرور آؤگے۔” میرے میزبان نے کہا اور اپنے گھر کا سامان سمیٹنا شروع کردیا۔ برتن، کرسیاں، میز، تصویریں اور ساز میں سامان اٹھانے مین ان صحت مند اور دراز قامت لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ بالآخر ہم سامان سمیت گھر سے باہر نکل آئے۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ گھر کی چھت چمڑے کی تھی اور اسکی ساخت گھوڑے کی زین جیسی تھی۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ہم ایک مینار کے سامنے آکھڑے ہوئے جس کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد بنا تھا۔
“موت کا مینار ہے” کسی نے کہا۔ “اس کے اندر جل کر راکھ ہونے کا انتظام ہے۔ یہ ایجاد ماضی کے ایک محسنِ انسانیت سے منسوب کی جاتی ہے۔۔۔ غالباً اس کا نام ایڈولف ہٹلر تھا۔”
مینار کا پھاٹک کھولنے والا شخص بھی طویل القامت تھا۔ مگر اب مجھے ان کی دراز قدی پر حیرت نہیں ہورہی تھی۔ میرے میزبان نے مینار کے دربان سے چند الفاظ کا تبادلہ کیا اور مینار میں داخل ہوگیا۔ اندر جانے سے قبل اُس نے گھوم کر ہماری جانب دیکھا اور الوداعی انداز میں ہاتھ ہلایا۔
“لگتا ہے برف باری ہوگی۔” عورت نے واپسی پر کہا۔
میکسیکو اسٹریٹ پر واقع میرے گھر میں لکڑی کی ایک تختی رکھی ہے، جس پر ہزاروں برس بعد کوئی شخص اُن رنگوں کی مدد سے ایک تصویر بنائے گا، جو اس وقت پورے کرہء عرض پر بکھرے ہوئے ہیں۔
انتخاب و کمپوزنگ: یاسر حبیب
نوٹ: یہ افسانہ بورخیس کے اسپانوی زبان میں لکھے افسانے “Utopía de un hombre que está cansado”کے انگریزی ترجمے”A Weary Man’s Utopia” کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ افسانہ پہلی بار 1975ء میں اسپانوی زبان میں شائع ہوا۔ اسکا انگریزی ترجمہ بورخیس کی کتاب The Book of Sand میں موجود ہے۔ (یاسر حبیب)