16 دسمبر 1971 ہماری تاریخ کا المناک دن ہے اس روز کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آنے والا اسلامی جمہوریہ پاکستان دولخت ہوگیا۔ بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل اپنی تاریخ اور مشرقی پاکستان کے واقعہ سے نابلد ہے۔ آیئے آج ہم اس واقعہ کا مختصرآ جائزہ لیتے ہیں۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے ہمیں یاد دلایا تھا کے ہندو اور مسلم ایک قوم نہیں بلکہ دو الگ الگ قومیں ہیں۔
انہوں نے کہا تھا اگرچہ برطانیوی سامراج سے چھٹکارا ناگزیر ہے تاہم ہندوّں قوم کے تعصب اور نفرف سے محفوظ رہنے کے لئے مسلمانوں کو اپنی ایک آزاد ریاست کی اشد ضرورت ہے جہاں وہ آزادی سے اسلامی ارکان اور اسلام کی ترویج کے لئے کام کر سکیں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی بلاخوف و خطر کر سکیں۔
ڈاکٹرعلامہ اقبال اورسید بوالاعلی مودودی کے درمیان مشاورت بھی ہوتی رہی۔
سید بوالاعلی مودودی نے اپنی کتاب “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش” میں دو قومی نظریہ کو ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کیا تھا 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں قراردادپاکستان کے ذریعے اس نظریئے کو عملی جدوجہد کا عنوان دیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی موجودگی میں شیربنگال مولوی عبدالحق نے قرارداردپاکستان پیش کی۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے رہنماء بھِی اس موقع پر موجود تھے۔
پھر 1946 میں صوبہ سرحد اور بنگال کے صوبہ کے ضلع سلحق میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے طلب کی گئی 99 فیصد سے ذائد عوام نے اس حق میں ووٹ دیا کے وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ برصغیر کے باقی حصوں کی طرح بنگال کے لاکھوں مسلمانوں نے تحریک آزادی پاکستان میں ایک بھرپور کردار ادا کیا۔ 14 اگست 1947 کو دنیا کے خطے میں ابھرنے والا نیا ملک پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان اس نو آزاد ملک کی تشکیل تعمیر و ترقی میں برابر کے شریک تھے۔
۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین اور حسین شہد سہروردی پورے پاکستان کے وزیراعظم بنے پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندل ناتھ مندل کا تعلق بھِی ڈھاکہ سے تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلام کی عملی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے لیکن ہندوستان اپنی ناپاک سازشوں سے ملک میں تعصبات کے ذہر گھولنے لگا، نسلی، لسانی، علاقائی، جغرافیائی نفرتوں کے بیج بوئے گئے۔
مشرقی پاکستان میں بھِ اس تعصب کی لہر اٹھائی گئ کے تم سے تمہاری شناخت بنگلہ زبان چھین لی گئ ہے اسے تمہاری زبان ہونا چاہئے تھا۔ کبھی کہا گیا تمہارے وسائل پر مغربی پاکستان ہڑپ کر رہا ہے۔ شیخ مجیب کا ذہر میں بجھا یہ جملہ تاریخ کا حصہ ہے کہ “اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے” مفکر اسلام سید بوالاعلی مودودی نے اہل پاکستان کو سمجھایا تھا کے سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر دونوں بازوں صرف اسلامی اخوت کی بنیاد پر اکھٹے رہ سکتے ہیں لیکن انہیں اور ان کے ساتھیوں کو عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا خود مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس تعصبات کو بجھانے اور اہل پاکستان کو اخوت کا سبق یاد دلانے کی بھرپور کوشش کی انہوں نے 2 مارچ 1956 کو فریڈم اسپیشل ٹرین مارچ کے ذریعے مشرقی پاکستان کے طول و عرض کا دورہ کیا اکتوبر 1956 میں جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔
ان کے عہد اقتدار میں مشرقی پاکستان میں تعصبات کے شعلے مذید بلند ہونے لگے ڈکٹیٹر ایوب خان نے صدارتی انتخابات میں مشرقی و مغربی پاکستان سے واضح اکثریت حاصل کرنے والی مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے شکت دی تو اسے بھی خود پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ ملک کو سنگین گرداب کا شکار کرنے کے بعد 25 مارک 1959 کو جنرل ایوب خا نے پاکستان کا اقتداریحییٰ خان جن کا پورا نام آغا محمد یحییٰ خان تھا ان کے اور اس کے ٹولے کے سپرد کر دیا جس کی بنیادی شناخت شراب و شباب رقص و سرور کی محفلیں تھی۔
۔ حالات خراب سے خراب اور سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے گئے۔ 15 اگست 1969 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلباء کے 22 سالہ رہنماء عبدالمالک کو شہید کر دیا گیا تو سید بوالاعلی مودودی نے جرآت سے اس سفر کو جاری رکھتے ہوئے کہا عبدالمالک ہمارا پہلا شہید تو ہے لیکن آخری نہیں جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں عام انتخابات کا اعلان کردیا پاکستان کی 56 فیصد آبادی مشرقی پاکستان میں رہتی تھی قومی اسمبلی کے 300 ارکان میں سے 162 وہیں سے منتخب ہونا تھے شیخ مجیب الرحمان وہاں پر 6 نکات کی بنیاد پر بنگلہ دیش میں تعصب کی آگ مذید بھڑکا دی ادھر مغربی پاکستان میں ذُوالفِقارعلی بُھٹّو “روٹی کپڑا اور مکان” کے نام پر کھیل کھیلتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کیا۔
خطرناک امر یہ تھا کے پیپلز پارٹی کا ایک امیدوار بھِی مشرقی پاکستان سے انتخاب نہیں لڑ رہا تھا اور شیخ مجیب الرحمان کی پوری تحریک صرف مشرقی بازوں تک محدود تھی۔ مغربی پاکستان میں اس کے صرف چند امیدوار برائے نام حصہ لے رہے تھے صرف جماعت اسلامی وہ سیاسی قوت تھی جس نے مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان میں بھرپورقوت کے ساتھ انتخاب لڑا۔ سید بوالاعلی مودودی نے اہل پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر علاقائی جماعتوں کو جیت ہوئی تو پھر فوج بھی ملک کو اکھٹا نہیں رکھ سکے گی اس پاداش میں سید بوالاعلی مودودی اور ان کے رفقاء کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔
وہ ڈھاکہ کے بلٹن پارک میں جلسہ منعقد کرنے گئے تو انہیں شدید غنڈہ گردہ کا سامنا کرنا پڑا درجنوں کارکنان شہید و زخمی ہوئے اور جب نتائج آئے تو شیخ مجیب الرحمان کو 162 میں سے 160 اور ذُوالفِقارعلی بُھٹّو کو مغربی پاکستان کی 138 میں سے 81 نشیتیں حاصل ہوئی۔ سید بوالاعلی مودودی نے تمام تر اختلافات کے باوجود جیتنے والی پارٹی کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
3 مارچ کو ڈھاکہ میں نو منتخب اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا لیکن جنون اقتدار کا شکارذُوالفِقارعلی بُھٹّو نے اعلان کے جو بھی اس اجلاس کے شرکت کے لئے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی پھر اس نے “ادھر تم ادھر ہم” کا نعرہ بلند کیا اس نعرہ کا واضح مطلب یہ تھا کے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان الگ الگ حکومتیں قائم ہوں ملک ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے مجھے اقتدار سے مطلب ہے۔
3 مارچ کو اسمبلی کا اجلاس منظور ہوا شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں بغاوت پر مشتمل کاروائیاں شروع کر دی جنرل یحیِی خان نے معاملات کو سنبھالنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کردیا سازشوں کے تانے بانے بننے والا ازلی دشمن اسی موقع کے انتظار میں تھا۔ ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں فوجیں اتار دیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خوفناک جنگ مشرقی پاکستان کی سرحدوں سے آٹھ کر مغربی پاکستان تک بھی آپہنچی اس جنگ کا اولین مقصد مشرقی پاکستان کا بازوں ہم سے الگ کرنا تھا اس موقع پر ایک بار پھر مشرقی پاکستان کے مخلص،باوفا اور حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے کوشاں شہریوں نے ہندوستان اور مکتی باہنیوں کے لاکھو سپاھیوں اور غنڈوں کے مقابلے میں اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے ملک کا دفاع کیا اور ہندوں افواج اور اس کی پیدا کردہ مکتی باہنیوں نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاکھوں سہاگنوں سے ان کا سہاگ اجاڑ لیا لاکھوں شہری شہید کردیئے، لاکھوں بچے یتیم ہوگئے۔
اس سفاکی کا جیتا جاگتا ثبوت بنگلہ دیش مِیں تاریک کیمپوں میں محصور وہ لاکھوں شہری ہیں جن کے آباوّاجداد کو بنگالی نا ہونے کے کے جرم اور پاکستان کا ساتھ دینے کے پاداش میں بنگلہ دیش کے تاریک کیمپوں میں کیڑے مکوڑوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 1971 کی جنگ کا اختتام 16 دسمبر 1971 کی شام ساڑھے چھ بجے ڈھاکہ کی ریس کورس گراونڈ میں بچھی اس میز پر ہوا جس کی ایک طرف ہندوستان کی فوج کا جنرل جگجیت سنگھ تنا بیٹھا تھا اور اس کے پیچھے ہندوستانی فوجی افسروں میں ایک نمایاں چہرا یہودی افسر میجر جیکب کا تھا جو سقوط ڈھاکہ مِں شریک دیگر عالمی قوتوں کا تعارف کروا رہا تھا۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کا جنرل عبداللہ خان نیازی اس دستاویز پر دستخط کر رہا تھا جس کے بعد ہمارے 93 ہزار فوجی ہندوستان کی قید میں چلے گئے۔ ہندو وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس موقع پر فخر سے کہا کے آج ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا لیکن اسے اپنا یہ خواب اس وقت بکھرتا ہوا دکھائی دیا جب علحیدگی کے صرف 4 سال بعد ہی 15 اگست 1975 کو شیخ مجیب الرحمن اپنے اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت ان ہی فوجی افسروں کے ہاتھوں قتل ہوگیا جنہوں نے اس کی خاطر اپنے ملک کی قربانی دے ڈالی اور ہمارا مشرقی بازوں ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش کے نام پر ہی تعمیر و ترقی طے کر لیتا۔
مگر وہاں انتقام کا بھوت آج تک خون کی ندیاں بہا رہا ہے شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد نے اپنے اقتدار میں ہزاروں سیاسی مخالفین کو جیل بھیج دیا۔ دو ہزار سے ذائد بے گناہ شہری شہید کر دیئے گئے فرشتہ نما 90 سالہ پروفیسر غلام اعظم کو 99 سالا قید کی سزا سنا کر جیل میں ہی شہید کر دیا گیا۔۔ متعدد بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے 87 سالہ مولانا ابوکلام یوسف بھی جیل میں شہادت کے رتبہ پرفائز ہوئے 18 نومبر 2016 کو جماعت اسلامی کے ضیعف 82 سالہ رہنماء یوسف علی جیل میں تشدد کا شکار ہوکر شہید ہوگئے جبکہ بہت سے دیگر رہنماوّں کو نام نہاد عدالتی کاروائی کے تحت پھانسی دے دی گئی۔
ان سب پر 1971 میں جنگی جرائم کے مقدمات لگائے گئے تھے۔۔۔ غرض سانحہ سقوط ڈھاکہ ایک ایسا واقعہ ہے جسے ہمیشہ سیاہ باب کے طور یاد رکھا جائے گا۔ آج ہی کے دن 16 دسمبر سانحہ اے پی ایس رونماء ہوا جہاں پھول جیسے معصوم بچوں پر گولیوں کی بوجھاڑ کر دی گئی تھی جسے تاریخ کبھِی فراموش نہیں کرسکے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...