(Last Updated On: )
کسی بھی خطے کے سماجی ،معاشرتی اور تاریخی حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ وہاں ہر دور میں داستانوں کا چلن رہا ہے ۔سال 712ء میں محمد بن قاسم جب شور کوٹ پہنچا تو اس علاقے میں نجد اور طائف سے وابستہ داستانوں کا رواج بڑھنے لگا۔ ممتاز ماہر تعلیم غلام علی خان چین نے بتایا کہ اُن کے آبا و اجدادجو دیبل اور شور کوٹ سے ہجرت کر کے جھنگ پہنچے تھے ۔ روزمرہ زندگی کے معمولات سے فارغ ہو کر رات کے وقت ایک ہزار سال قدیم مسجد شاہ علیانی کے سامنے ایک کھلے میدان میں بیٹھ کر داستانیں سنایا کرتے تھے ۔ ادبی ذوق سے مالا مال لوگ مایوسی کے ازدحام میںسنگِ حوادث کے باعث کرچیوں میں بٹ جانے والے اپنے دِلِ نا صبور کو سنبھالے افتاں و خیزاں ان محفلوں میں کھنچے چلے آتے اور داستانوں کو سنتے اور سر دُھنتے تھے۔ وہ اس تلخ حقیقت سے آ گا ہ تھے کہ ہر انسان کی زندگی اپنی جگہ ایک پُر اسرار داستان ہے۔ ان نشستوں میں جو داستان گو داستانیں سناتے تھے ان میں حافظ بر خوردار خان، حاجی محمد یوسف ، طیب لو ہار ، بہاول سازندہ ،صالح محمد ،سلطان محمود ،شیر خان،سجاد اور منیرشامل ہیں۔ داستان گوئی اور داستان کی سماعت کو تہذیبی اور ثقافتی پہلو سے دیکھا جاتا ہے ۔مطلق العنان مغل بادشا ہ جلال الدین اکبر کے زمانے میںسال 1590 ء میں بر صغیر میں فارسی زبان کی داستان امیر حمزہ کو بہت پذیرائی ملی ۔دکن میں محمد قطب شاہ کے دربار میں 1612ء میں داستان ِ امیر حمزہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ جامع مسجد دہلی کے سامنے رات کے وقت داستان گو اکٹھے ہوتے اور اپنی گل افشانیٔ گفتار سے داستان سننے والوں کو مسحور کر دیتے تھے ۔ رجب علی بیگ سرور نے اپنی داستان ’’ فسانہ عجائب ‘‘ ( 1825) کے پیرایۂ آغاز میں یہ بات واضح کی ہے کہ لکھنو میں داستان گو ادبی نشستوں میں اکثر داستان امیر حمزہ سنایا کرتے تھے۔ اردو زبان میں داستان گوئی کی قدیم تاریخ کے بارے میں جو تحقیقی کام ہوا ہے اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اُنیسویں صدی عیسوی اس خطے میں داستانوں کی مقبولیت تھی۔مرزا سنگین بیگ کی کتاب سیر المنازل ( 1820) اور سر سیّد احمد خان کی تصنیف ’’ آثار الصنادید ‘‘ ( 1849) میں اس کی جانب متوجہ کیا گیا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ پس نو آبادیاتی دور میں جدید اُردو ادب کے ناول ،افسانے ،سوانح او ر سفر نامے تاریخ کے پیہم رواں عمل کے مسلمات کی جانب متوجہ کرتے ہیں تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ اِن کے سوتے سراغ رسانی ،کھوج اور تجسس کی مظہر اُن ابد آشنا تخلیقات سے پُھوٹتے ہیں جن کے ابتدائی نقوش لکھنو میں نموپانے والی داستانوں اور اُن کے وسیع الذّیل عنوانوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ لکھنو کے باذوق ادیبوں نے داستان کو تازیانۂ عمل کے بجائے ایک دلچسپ مشغلہ قرا ر دیتے ہوئے اس کے فروغ میں انہما ک کا مظاہرہ کیا ۔عالمی ادبیات میں داستان گوئی کو ایک پر لطف فن سے تعبیر کیا گیا ہے ۔یہ فن اپنے دائرۂ کارمیں نئے امکانات کے تحت چونکا دینے والے واقعات کو شامل کرلیتاہے ۔داستان کے اسلوب میں طوالت اور تکرار اگرچہ اسے بو جھل سا بنا دیتی ہے مگر اس کی اہمیت ،دل کشی اور جاذبیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ کوئی صنف ادب فن داستان گوئی کی متادل ثابت نہیں ہو سکتی تاہم فن داستان گوئی کے رمز آ شنا اب کم کم دکھائی دیتے ہیںیہی وجہ ہے کہ واقعیت اور حقیقت نگاری کے جدید دور میں داستان گوئی پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ پروفیسر کلیم الدّین احمد نے داستان کے بارے میں لکھا ہے :
’’ داستان کہانی کی طویل ،پیچیدہ ،بھاری بھرکم صورت ہے ۔‘‘(1)
تخیل کی آزادانہ جولانی کی مظہر کسی بھی داستان کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس میںشامل تمام واقعات اور حالات کا محور ہیرو کی ذات ہوتی ہے ۔ہیرو کے ذوق کے مطابق داستان میں ایک یا زیادہ ہیروئنیں پائی جاتی ہیں۔ داستان گو جب ہیروکا انتخاب کرتاہے تو اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ داستان کو جلا ل و جمال سے مزین کرنے کے لیے ہیرو بادشاہ یا شہزادہ ہو تو کیا کہنا ۔ بالعموم بادشاہ کاچھوٹا فرزندہی ہیرو کے طور پر سامنے آتاہے اس طرح داستان میں ایک شان دل ربائی پیدا ہو جاتی ہے ۔ زندگی کی رنگینی ،رعنائی ،بو قلمونی ،رنگ ،خوشبو ،حسن و خوبی اورجہد و عمل کے سب استعارے ہیرو کے مرہون منت ہوتے ہیں۔جہاں تک ہیروئن کا تعلق ہے اس کا دُور دراز علاقے سے تعلق رکھنا لازم ہے ۔ہیرو نے اگرچہ اپنی ہیروئن کو کبھی نہیں دیکھا ہوتا مگر وہ سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے ہیروئن کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوجاتا ہے اور اُس کی تلاش میں مہم جوئی پر آمادہ ہو جاتاہے ۔اس مہم جوئی میں وہ طلسمات ، اسم اعظم ،لوح ،نقش ،قلب ماہیت ،جن ،پری ، چغد ،لنگور ،طوطے ، گیدڑ ،بُھوت ،چڑیل ،ڈائن ،سلیمانی ٹوپی اور خضرؑ کا سہارا لیتاہے ۔ایجاد و اختراع کی غیر معمولی صورت ،دھنک رنگ بیانیہ کی مسحور کن فضا،مافوق الفطرت عناصر کی مہم جوئی اور گونا گو دلچسپیوں کی بنا پر داستانوں کو اردو ادب کا گراں قدر اثاثہ قرار دیا جاتاہے ۔ اُردو ادب میں جس داستان نے اس فن کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا وہ ’’ داستان ِ امیر حمزہ ‘ ‘ہے ۔داستان امیر حمزہ کی ایک اہم کڑی ’’ طلسم ہوش رُبا ‘ ‘ سات جلدوں پر مشتمل ہے ۔
اس عالمِ آب و گِل کے آئینہ خانے میں جو تصاویر آویزاں ہیں ان میں سے بہت کم اصلی ہیں جب کہ اکثر تصاویر چربہ ،سرقہ اور جعل سازی کی مثال ہیں ۔ان حالات میں بروٹس قماش آستین کے سانپ سادہ لوح انسانوں کو تماشا بنا کر اپنی راہ لیتے ہیں ۔ کسی بھی پس ماندہ معاشرے میں آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے مظلوم افراد کی داستان ِ حسرت آگاہی اور تبا ہی کی مبارزت کی ایک لرزہ خیزمثال ہے ۔داستان گوئی کی روایت یہ رہی ہے کہ مقامات ،حالات و واقعات ،کرداروں اور مہمات کو اس قدر پُر اسرار بنا کر پیش کیا جائے کہ قارئین حیرت زدہ رہ جائیں ۔داستان گو اپنے اسلوب کو پر لطف بنانے کے لیے جو حکمت عملی اپناتے ہیں اُس کے بارے میںسیّد وقار عظیم نے اپنی تصنیف ’’ ہماری داستانیں ‘‘ میں لکھاہے :
’’ داستان کے لفظ کے ساتھ تصورات کی ایک رنگین دنیا آباد ہے ،جب یہ لفظ کانوں میں پڑتاہے تو بِیتی ہوئی رنگین صحبتوں کی تصویریں آ نکھوں میں پِھرنے لگتی ہیں اور تصّور ایک ایسے جہان کی گلگشت میں مصروف ہو جاتاہے ،جہاں غمِ عشق اور غمِ روزگار،دونوں ہر طرح کی خلش سے آزادہیں۔ایک ایسا جہاں جس میں ہر چیز نئی ہے ،انوکھی ہے اور جہاں ہر طرف رفعت اور کُشادگی ہے۔‘‘( 2)
معاشرتی زندگی کے افق پر جب بے حسی کا عفریت منڈلانے لگتاہے تو داستان ایک انتباہ کی صور ت اختیار کر جاتی ہے۔ ایسے میں ندائے غیب سنائی دیتی ہے کہ اگر غفلت اور بے حسی کا تریا ق تلاش نہ کیا گیا تو اس معاشرے کی داستاں تک باقی نہ رہے گی ۔ اس دنیا کے آ ئینہ خانے میں بنی نوع انسان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک مسافر کے سفر کے مانند ہے جس کا پرہن سفر کی دُھول میں اَٹا ہوا ہے ۔زمانہ آ ئندہ کے بارے میں ماضی کی سرگوشیوں کی مظہر داستانیں زمانہ حال کے تلخ واقعات سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنانے والے اور تخمین وظن کے عادی افراد کو ہر قسم کے تعصبات سے نجات دلا کراُن کی خاموشیوں کا طلسم کافور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ گیان چند نے لکھا ہے :
’’ انسانی جذبات اور شعور کا ارتقا دیکھنا ہو تو تواریخ کے اوراق ہماری رہنمائی کر سکیں گے ۔اس کی کھوج ادب بالخصوص افسانے کے عہد بہ عہد ارتقا میں مِل سکتی ہے ۔ قصہ گوئی کا فن اِتنا ہی قدیم ہے جتنا نطق ِ انسانی ۔علم الانسان بنی نوع انسان کی تاریخ پر ر وشنی ڈالتاہے ۔ ‘‘( 3)
ملاوجہی( اسداللہ ) نے مقفیٰ انداز میں انسانی جذبات کے تناظر میں عقل اور عشق کی محاذ آرائی پر مبنی داستان کو پیرایۂ اظہار عطا کیاہے۔ داستان گو نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی مہم ایسی نہیں جسے سر نہ کیا جا سکے اور کوئی بھی جارح قوت ایسی نہیں جسے مسخر نہ کیا جا سکے ۔ جاہ و حشمت کے زعم میں مبتلا اورعوج بن عنق ہونے کے داعی کو عبرت ناک انجام سے دو چار ہونا پڑتاہے ۔ اس داستان میںکے اہم اور دلچسپ عنوانات میں ذکر ِلاالہ ، صبر و شکر ،اطاعت مادر و پدر ،معراج عشق ، مذمت طمع اور قلب و ذہن شامل ہیں ۔ یہ داستان ذہن اور قلب ،عشق ،وفا و ایثار ،مہر و مروّت ،عشوہ ،غمزہ و ادا،نظر،ناز و اندازو نیاز،عاقبت ،خیال، دیدار ، جرأت اور عہدِ وفا جیسے امور کو اس دنیا کے آ ئینہ خانے میں اس انداز میں سامنے لاتی ہے کہ قاری اش اش کر اُٹھتاہے ۔ عشق کی دختر کا نام حُسن ہے جب کہ عقل کے پسر کانام دِل ہے ۔ مافوق الفطرت عناصر ،توہمات اور محیر العقول واقعات کی کشید سے اس داستان کو نشاط کاوسیلہ بنایا گیاہے ۔ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے اردو نثر کی پہلی داستان ملا وجہی کی کتاب ’’ سب رس ‘‘کے مقدمہ میں لکھاہے :
’’ وجہی نے کہیں اس کا ذکر نہیںکیاکہ یہ قصہ اُسے کہاں سے مِلا۔دیباچہ پڑھنے سے یہ صاف ظاہر ہوتاہے کہ گویا یہ اُسی کی ایجاد ہے ،اُسی کے دماغ کی اُپج ہے ،حال آنکہ یہ بات نہیں ۔یہ پُر لطف داستان سب سے پہلے محمدیحیٰی ابن سیبک فتاحی نیشا پوری نے لکھی ۔‘‘ ( 4)
اگرچہ ملا وجہی نے سب رس کے بنیادی ماخذ کے بارے میں کچھ نہیں کہا مگر فتاحی کی تصنیف ’’ دستور عشاق‘‘ اور سب رس کے مندرجات میں پائی جانے والی مماثلت سے یہ تاثر ملتاہے کہ وجہی نے فتاحی کی تصنیف دستور ِ عشاق سے بھر پور استفادہ کیاہے ۔
اپنی تحقیقی کتاب دکن میں اردو میں نصیر الدین ہاشمی نے سب رس کے بارے میں لکھاہے :
’’ معلوم ہوتاہے کہ یہ کتاب نہایت مقبول تھی کیونکہ ایک صدی سے زیادہ تک اِس کے نسخے مرتب ہوتے رہے ہیں۔‘‘ ( 5)
داستان ِ امیر حمزہ فارسی زبان میں تخلیق ہوئی مگر اس کے اصل مصنف کا نام ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اس طرح اوجھل ہو گیا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ مختلف تحقیقی کتب میںداستان امیر حمزہ کے جن مصنفین کا ذکر ملتاہے ان میں ابو المعالی ،امیر خسرو معاصر اکبر ،فیضی ،عباس برادر حمزہ ،ملا جلال بلخی ،شاہ ناصر الدین محمد شامل ہیں ۔تاہم داستان امیر حمزہ کے اصل مصنف پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا ۔ تاریخ سیتان میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد کے ایک اور حمزہ کا ذکر ملتاہے جس کے بارے میں محققین کا گمان ہے کہ یہ داستان اسی کے اشہب ِ قلم کی جولانیوں کی مظہر ہے ۔محققین کا خیال ہے کہ اس داستان کا قصر نویں صدی عیسوی کی تصنیف ’’ مغازی حمزہ ‘‘ کی اساس پر استوار کیا گیا ہے ۔ فورٹ ولیم کالج سے وابستہ ادیب خلیل خان اشک نے سال 1801ء میں داستان امیر حمزہ کی اٹھاسی داستانوں پر مشتمل ایک جلد کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ ڈاکٹر عبیدہ بیگم نے اپنی تحقیقی کتاب ’’ فور ٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات ‘‘ میں لکھاہے :
’’ داستان ِ امیر حمزہ اُردو کی سب سے مشہور اور ضخیم داستان ہے ۔یہ محض ایک داستان نہیں بل کہ داستانوں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو صدیوں سے اپنے مترجمین اور مولفین کی مرضی کے مطابق مختلف نشیب و فراز سے گزرتا حذف و اضافے کی نذر ہوتاہوااپنی ہیت بدلتا رہاہے ۔یہ اُن داستانوں میں سے ایک ہے جو ہندوستانی اور ایریانی دونوں تہذیبوں کی نمائندگی کرتی ہے ۔اس کے ترجمے عربی زبان میں بھی ہوئے ۔‘‘ (6)
باغ و بہار پہلی بار ’’ ہندوستانی چھاپا خانہ ‘‘ کلکتہ سے 1804ء میں شائع ہوئی ۔اُردو ادب میں جو بذیرائی میر امن کی باغ و بہارکے حصے میں آئی ہے اس میں کوئی اور داستان اس کی شریک و سہیم نہیں۔گزشتہ دوصدیوںسے یہ داستان تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ رہی ہے ۔ باغ و بہار کے اصل مصنف کے بارے میں ڈاکٹر سلیم اختر نے اس داستان کی پہلی اشاعت کے سرِ ورق پر درج میر امن کے اعتراف کا حوالہ دیا ہے :
’’ باغ و بہار تالیف کیا ہوا میر امن دِلّی والے کا ،ماخذ اس لا نو طرز مرصع کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خان تحسین کا ہے فارسی قصہ چہار درویش سے ۔‘‘(7)
رشید حسن خان نے باغ و بہار کے بارے میں لکھا ہے :
’’ باغ و بہار کو جدید اُردو نثر کا پہلا صحیفہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔‘‘ ( 8)
داستان کو طویل ہونا چاہیے اور نفس مطلب کو پیشِ نظر رکھا جائے ۔داستان کی زبان لطافت اور فصاحت سے لبریز ہو۔داستان قابلِ مطالعہ اور قابل فہم موادکا مرقع ہونی چاہیے ۔داستان میں ایام گزشتہ کی تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالی جائے ۔ڈاکٹر سہیل بخاری نے داستان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھاہے :
’’ داستانوں کا مرکزی خیال ،تہذیب ِ نفس اور شائستگی اخلاق ہے ۔ان کے ذریعے سے لوگوں میں بہتر سے بہتر اخلاق اور عادات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کھلم کھلا پند و موعظت سے بھی کام نہیں لیا جاتا بل کہ دلچسپ واقعات کے پردے میںاخلاقی خوبیوں کے مفید نتائج دکھا کر قاری کو نیکی کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے ۔‘‘(9)
داستان میں شامل عناصر کے متعلق غالب ؔ نے کہا تھا:
آج مجھ سا نہیں زمانے میں شاعر نغز گوے خوش گفتار
رزم کی داستاں گر سنیے ہے زباں میری تیغ جو ہر دار
بزم کا التزام گر کیجے ہے قلم میری ابر گوہر بار
سال 1883-1917 کے دوران داستانِ امیر حمزہ کے عنوان کے تحت نول کشور پریس لکھنو کے زیر اہتمام اس داستان کی جلدیں شائع ہوئیں ۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی تصنیف ’’ داستان امیر حمزہ زبانی بیانیہ ،بیان کنندہ اور سامعین‘‘ میں چھیالیس جلدوں اور تینتالیس ہزار صفحات پر مشتمل زبانی بیانیہ داستان امیر حمزہ کے وہ اشخاص جو عامل کے طور پر پیش کیے ہیں اُن میں آئین طلسم ،امیر حمزہ ،عیار،فتوت ، راستی،ساحر ،صاحب قراں ،دیو ،دیوانہ ،پری زاد ،دست چپی اورقزاق شامل ہیں۔بر صغیر میں نو آبادیاتی دور میں اس خطے کی تہذیبی اور علمی و ادبی میراث پر بہت کم توجہ دی گئی ۔ داستانِ امیر حمزہ کے داستان گو جن میں احمد حسین قمر ،محمد حسین جاہ،شیخ تصدق حسین اور سیّد اسمٰعیل اثر کے سوانح پر شمس الرحمٰن فاروقی نے دادِ تحقیق دی ہے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے داستانوں کے عناصر اور داستانوں میں شامل مواد کے بارے میں لکھاہے :
’’ ایرانی داستانوں میں تین ہی بنیادی عناصر تھے ،یعنی رزم ،بزم اور عیاری ۔بل کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مثنوی اور داستان میں بنیادی فرق یہی تھاکہ مثنوی میں عیار نہیںہوتے تھے۔‘‘ (10)
ارد وداستان نے لکھنو میں خوب رنگ جمایا ۔اپنی کتاب ساحری ،شاہی ،صاحب قرانی داستانِ امیر حمزہ کا مطالعہ ( جلد اول نظری مباحث ) میں شمس الرحمٰن فارقی نے لکھا ہے :
’’لکھنو نے اُردو ادب کو اور اُردو کی تہذیب کو بہت کچھ دیا۔لیکن اس شہرکی اداؤں میں سے ایک ادا یہ بھی ہے کہ اپنے جاں نثاروں کومار رکھتاہے ،یا گاڑ کر بُھول جاتاہے ۔اس کے چاہنے والے اس کا شکوہ بھی کرتے ہیں اور اس کے نازاُٹھانے میں اپنی مدت ِ حیات بھی گزار دیتے ہیں ،سوداؔ اور میر حسن ،میر و مصحفی ،آتش و ناسخ کتنے ہی ایسے ہیں جن کے مزار کیا لوح ِ مزار بھی مفقود ہیں :
مت تربت میر ؔ کو مٹاؤ
رہنے دو غریب کا نشاں تو
مصحفی ؔ کا نہ نشاں پوچھ کہ مدت ہوئی میاں
پائنتی گِھس گئی تربت کا سرہانہ نہ رہا‘‘ ( 11)
لکھنو میں ’’ فسانۂ عجائب ‘‘ جیسی داستان لکھی گئی جس میں اس خطے کی تہذیب و ثقافت کو ادبی رنگ عطا کیا گیا۔ ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی نے لکھنو کے بارے میں جن واقعات کا ذکر کیا ہے ،اس داستان کا ایک حوالہ میری یاداشت میں محفوظ ہے ۔چشم کشا صداقتوں کی مظہر یہ داستان عبرت کا نشان ہے :
تاریخ ،ثقافت اور تہذیب کے دوام کو پوری دنیا میں کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔تاریخ کا خو د کو دہرانے کا عمل مسلمہ ہے سب سے پہلے تو تاریخ ایک المیہ کی جانب متوجہ کرتی ہے ۔جب اس المیہ کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا تو تاریخ درماندہ اور غافل رہرو پر طنز کرتی ہے اور اُسے نشان عبرت بنا دیتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ اقوام و ملل کے وجود پر تو ابلقِ ایا م کے سموں کی گرد پڑ سکتی ہے اور ان کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہتا مگر تہذیب کا معاملہ الگ ہے ۔تہذیب کی بقا در اصل انسانیت کی بقا سے منسلک ہے اگر تہذیب و ثقافت کے نشانات معدوم ہو جائیں تو اس خطے کے عوام کی تاریخ اور ارتقا کے بارے میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے داستانِ امیر حمزہ کی تخلیق کرنے والوں کو بہا لے گئے ۔مکتبہ نول کشور سے شائع ہونے والی داستان امیر حمزہ کو زیب قرطاس کرنے والے اہلِ قلم کا اتا پتا اور مدفن کسی کو معلوم نہیں۔اقوام عالم کی تاریخ کے عمیق مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لکھنوکے اہلِ کمال کو اپنی جنم بھومی ہی میںجس پریشاں حالی اور درماندگی کا سامنا کرنا پڑا دنیا کے کسی بھی خطے میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔آتش و ناسخ کی غزلیات اور میر ببر علی انیس کے مرثیوں سے بلاشبہ لکھنو کی ادبی ثروت میں اضافہ ہوا ۔اس کے علاوہ لکھنو کے اہل قلم کی باقی سب ادبی تخلیقات کا وہ مقام نہیں کہ انھیں داستانِ امیر حمزہ کے سامنے فخر سے پیش کیا جا سکے ۔ یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے اور یہ جہاں ایک صنم کدے کی صورت ہے ۔آج اقتضائے وقت کے مطابق جہد للبقا کی خاطر ہر قسم کے چیلنج کا پوری قوت سے جواب دینا از بس ضروری ہے یہی تہذیب و تمدن کا تقاضا بھی ہے اور زندہ اقوام کا شیوہ بھی یہی ہے ۔جو تہذیب و تمدن عصری آگہی کو پروان نہ چڑھا سکے اور جہد للبقا کی دوڑمیں اپنے وجود کا اثبات نہ کر سکے اس کی داستاں تک بھی داستانوں میں باقی نہیں رہتی ۔ افراتفری اور انتشار کے ماحول میں بھی تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہے ۔اس کے اعجاز سے ربط باہمی اور اتحاد اور تعاون کی فضا پروان چڑھتی ہے ۔یہ تاریخ ہی ہے جس کے معجز نما اثر سے ہر عہد میں نسل نو کو تہذیب و ثقافت کا گنجِ گراں مایہ منتقل ہوتا رہتا ہے۔تہذیب کا تحفظ اور اس کی شناخت انتہائی محنت ،دیانت ،لگن اور احساس ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے ۔اسی طرح اسے آنے والی نسلوں تک پہنچاناجہاں ذہنی بالیدگی کا مظہر ہے وہاں اس سے مستقبل کے متعد دنئے امکانات سامنے آتے ہیں ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی قوم کے تاریخی اثاثے اور تہذیبی میراث کے تحفظ اور اس کوآنے والی نسلوں کو منتقل کرنے میں غفلت کی مہلک روش اپنانے سے ایسے گمبھیر نتائج سامنے آتے ہیں جن کے باعث پورا منظر نامہ ہی گہنا جاتا ہے اور اس کے بعد پتھر کے زمانے کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا اور اپنے قلوب کو اُن کی یاد سے آباد رکھا تو ایک مستحسن فعل ہے مگر الزام تراشی اور بہتان طراز ی کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ۔تاریخ کے بارے میں کروچے نے کہا تھا :
’’تاریخ دو چیزوں کے ملاپ سے تشکیل پاتی ہے ۔ثبوت اور تنقید ،ماضی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔یہ نشانیاں محض بے حس ٹکڑے نہیں ہوتے ۔ان میں ماضی کے افکار اور ماضی کی فکر چھپی
ہوئی ہوتی ہے ۔یہ ماضی کے ذہن و شعور کی عکاسی کرتے ہیں ۔ہم ان نشانیوں کو اس لیے محفوظ رکھتے ہیں تاکہ یہ مستقبل کے مورخ کے لیے ثبوت کے طور پرفراہم ہوں ۔‘‘(12)
تہذیبی میراث کے زیاں کا ایک واقعہ اردو ادب میں بھی پیش آیاجب خدائے سخن میر تقی میرؔ کی قبر کا نشان ناپید ہو گیا ۔میر تقی میرؔ جو 1723 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے ۔اپنے باپ کے انتقال کے بعد 1734میں دہلی پہنچے۔دہلی میں میر تقی میرؔ کا قیام جس علاقے میں تھا اسے کوچہ چہل امیراں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جو بعد میں کوچہ چیلاں کہلانے لگا ۔اس کے بعد یہ عظیم شاعر لکھنو کے نواب آصف الدولہ کی دعوت پر 1782ء میں دہلی کو خیرباد کہہ کر لکھنو پہنچا۔اردو شاعری کا یہ آفتاب لکھنو میںبروز جمعہ 21ستمبر 1810 ء کو عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ۔ بعض روایات کے مطابق میر تقی میرؔ کے جسد خاکی کو اکھاڑہ بھیم لکھنو کے ایک گوشے میں دفن کیا گیا ۔ا س کے بعد اس کی قبر کا نشاں بھی قضا نے مٹا دیا۔ عالمی شہرت کے حامل محقق اور نقاد پروفیسرڈاکٹر نثار احمد قریشی نے رالف رسل اور ڈاکٹر این میر ی شمل کے حوالے سے 1980ء میں ایک توسیعی لیکچر میں اپنے شاگردوں کو بتایا:
’’اردو زبان کے نابغہ روزگار شاعر میر تقی میرؔ نے 1782میں ذاتی مسائل اور معاشی مجبوریوں کے باعث جب لکھنو منتقل ہونے کا فیصلہ کیاتو یہاں ان کا قیام لکھنو کی ایک کم معروف آبادی ست ہٹی میں ہوا۔ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ آبادی ریذڈنسی اور رومی دروازے کے درمیانی علاقے میں ہوا کرتی تھی ۔اس کا محل وقوع اور رہن سہن لکھنو کے اس زمانے کے ترقی یافتہ علاقے سے قدرے کم معیار کا تھا ۔میر تقی میرؔ نے ایک گونہ بے خودی کے حصول کی خاطر مے نوشی اختیار کی ۔دن رات کی بے خودی کے حصول کی تمنا ،ہجوم غم اور نا آسودہ خواہشات نے میر تقی میر پر جنونی کیفیت طاری کر دی ۔کثرت مے نوشی ،آلام روزگار کی مسموم فضا ،سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں اور ہجوم غم نے بالآخر ان کی زندگی کی شمع بجھا دی ۔میر تقی میرؔ کی وفات کے بعد ان کی تدفین ست ہٹی سے کچھ فاصلے پر واقع ایک قبرستان میں ہوئی جسے بھیم کا اکھاڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔اب یہ تمام آثار تاریخ کے طوماروں میں دب کر عنقا ہو چکے ہیں اور ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔‘‘حقیقتوں کا خیال و خواب ہو جانا کس قدر روح فرسا اور اعصاب شکن المیہ ہے اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا :
بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے ‘‘
نامور ماہر تعلیم ،دانش ور محقق اور ادیب رانا عبدالحمید خان جو 1926میں گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل تھے وہ سال 1927 ء کے آ غاز میںکالج کے طلبا اور اساتذہ کے ہمراہ دہلی ،لکھنو اور آگرہ کے مطالعاتی دورے پر گئے ۔اس دورے میں حاجی احمد بخش نے پرنسپل کی کار کے ڈرائیور کی حیثیت سے شرکت کی ۔میں نے 1980میں حاجی احمد بخش سے ایک انٹرویو کیا جس کا ملخص گورنمنٹ کالج جھنگ کے مجلہ ’’کارواں ‘‘میں شائع ہو ا ۔اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے حاجی احمد بخش نے بتایا:
’’ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج جھنگ کے بیس طالب علم اور تین اساتذہ تھے ۔ان میں پروفیسر رانا عبدالحمید خان ( پرنسپل )، پروفیسر لال چند لالہ اور پروفیسر سردار پریم سنگھ بھی شامل تھے ۔رانا عبدالحمید کو میر تقی میر ؔکی شاعری سے عشق تھا ۔دہلی ،آگرہ اجمیر اور علی گڑھ کے بعد جب ہم لکھنو پہنچے تو میر تقی میرؔ کی قبر کی تلاش شروع ہوئی مگر اس کا کہیں اتا پتا نہ ملا۔مقامی باشندوں کی زبانی اتنا معلوم ہوا کہ قدیم زمانے میں جس علاقے کو بھیم کا اکھاڑہ کہاجاتا تھا اب اس کے آثار کہیں نہیں ملتے ۔‘‘
حاجی محمد یوسف ( نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے چچا زاد بھائی )کا تعلق ایک کاروباری خاندان سے تھا ۔وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میںذاتی طور پر کئی مرتبہ لکھنو گئے۔وہ اردو کی کلاسیکی شاعری اور میر تقی میرؔ کے اسلوب کے شیدائی تھے۔وہ چاہتے تھے کہ میرؔ کی لحد کے سرہانے بیٹھ کر آہستہ بول کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کریں اور اس لا فانی تخلیق کار کے حضور آنسوئوں اور آہوں کا نذرانہ پیش کریں مگر انھیں بھی میر تقی میرؔ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں کوئی معلومات نہ مل سکیں ۔پہلی عالمی جنگ کے دوران میاں عبدالواحد لکھنو چھاونی میں تھے ان کے علاوہ محمد خان پوسٹ ما سٹر بھی اسی علاقے میں تعینات تھے وہ بھی میر تقی میرؔ کی لحد کا کوئی اتا پتا معلوم نہ کر سکے ۔سردار باقر علی خان جو انڈین سول سروس میں اعلیٰ افسر تھے بعد میں ملتان کے کمشنر رہے انھوں نے کچھ عرصہ لکھنو میں گزارا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے عرصہ قیام لکھنو میں وہ میر تقی میر ؔکی آخری آرام گاہ کا صحیح تعین کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ان کی اولاد اب جھنگ میں مقیم ہے ۔مجھے 1970 ء میں ان سے ملنے کا موقع ملا جو چراغ سحری تھے ۔ان کی یادداشتوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جس علاقے میں بھیم کا اکھاڑہ بتایا جاتا ہے اس کا محل وقوع لکھنو شہر کے ریلوے سٹیشن کے قرب و جوار میںشمال کی سمت میں تھا ۔اس علاقے میں خشک میوے فروخت ہوتے تھے بالخصوص یہ مارکیٹ مونگ پھلی کی فروخت کے لیے مشہور تھی ۔گمان ہے کہ دریائے گومتی کے کنارے جو کچی آبادیا ں اس زمانے میں وجود میں آگئی تھیں یہ اس میں شامل ہو سکتا ہے ۔ جھنگ میں میر تقی میرؔ کی یاد میں قائم ہونے والی ’’بزم میرؔ ‘‘جو 1900میں اس عظیم شاعر کے فکر و فن پر تحقیقی کام میں مصروف تھی ۔اس میں متعدد دانش ور شامل رہے ۔ان میں سے چند نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے قابل قدر کام کیا ۔ سید عبدالباقی( عثمانیہ)،پروفیسر تقی الدین انجم (علیگ)،پروفیسر عبدالستار چاولہ ،ڈاکٹر سید نذیراحمد ،رانا سلطان محمود ،رانا عبدالحمید خان ، نامور ماہر تعلیم غلام علی خان چینؔ ،میر تحمل حسین ،میاں اللہ داد ،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ ، محمد شیر افضل جعفری ،کبیر انور جعفری ،یوسف شاہ قریشی (بار ایٹ لا)،رام ریاض ، پروفیسر محمد حیات خان سیال ،پروفیسر خلیل اللہ خان ،مہر بشارت خان ،دیوان احمد الیاس نصیب ، امیر اختر بھٹی ،عاشق حسین فائق ،بیدل پانی پتی ،مرزا معین تابش،شیر خان ،سجاد حسین ،منیر حسین اور سید جعفر طاہر سب نے مختلف اوقات میں میر تقی میرؔ کی آخری آرام گاہ کے آثار معدوم ہو جانے کو ایک بہت بڑے تہذیبی زیاں سے تعبیر کیا ۔یہ بات تو سب نے تسلیم کی کہ لکھنؤ میں جس جگہ پر میر تقی میرؔ کو دفن کیا گیا تھا اب وہاں پر ریلوے لائن اور جنکشن موجود ہے جو نہ صرف بے مہری ٔعالم کی دلیل ہے بل کہ اسے حالات کی ستم ظریفی بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ حساس شاعر جس نے اپنے سرہانے آہستہ بولنے کی استدعا کی اب وہ منوں مٹی کے نیچے پڑا بھاری بھرکم ریل گاڑیوں اور انجنوں کی چھک چھک کے شور میں دب چکا ہے ۔وہ بے مثال تخلیق کار جسے غالبؔ ،ذوقؔ اور متعد د شعرا نے اپنا پیش رو تسلیم کیا اور اس کے اسلوب کو ابد آشنا اور لائق تقلید قرار دیا اب اس کی قبر کا نشاں تک موجود نہیں ۔وہ یگانۂ روزگار شاعر جس نے 13585اشعار پر مشتمل اپنے چھے دیوان لکھ کر اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ کیا اور اردو ادب کو مقاصد کی رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیا آج اس کا جسد خاکی لکھنو ریلوے سٹیشن اور ریلوے جنکشن کے شور محشر میںنو آبادیاتی دور میں برطانوی استبداد کے فسطائی جبر کے خلاف انصاف طلب ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میر تقی میر ؔ کو اپنے بارے میں معلوم تھا زمانے کے حالات کس قدر تلخ صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ابلق ایام کے سموں کی گرد میں تمام واقعات اوجھل ہوجاتے ہیں اور حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں ۔اس دنیا میں دارا اور سکندر جیسے نامیوں کے نام و نشاں نہ رہے تو ایک شاعر کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہونا تخیل کی شادبی کے سوا کیا ہو سکتا ہے ۔وفات کے صرف چھے عشروں کے بعد ایک عظیم شاعر کی قبر کا نشان تک معدوم ہو جانالمحۂ فکریہ ہے ۔
میرے تغیر حال پہ مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
بعد مرنے کے میری قبر پہ آیا وہ میرؔ
یاد آئی میرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب غاصب برطانوی تاجر تمام اخلاقی اور قانونی حدود سے تجاوز کر کے تاجور بن بیٹھے تو وہ تمام علامات اور نشانیاں جو اہل ہندوستان کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص قابل احترام تھیں انھیں چن چن کر ان طالع آزما، مہم جو اور انسانیت سے عاری فاتحین نے نیست و نابود کر دیا ۔لکھنو شہر کے سٹیشن کے قریب چھٹی والا پل کے قریب ریلوے لائن کے درمیان ایک قبر کے آثار موجود تھے ۔آج سے کوئی اسی سال قبل اس مرقد کو مقامی باشندے شاہ افجشن کا مزا رخیال کرتے تھے ۔اسی مزار کے بارے میں ادبی حلقوں کی رائے یہ رہی کہ ہو نہ ہو یہی تو میر تقی میرؔ کی قبر کا نشان بننے کے گمان کی ایک صور ت ہو سکتی ہے ۔ حیف صد حیف کہ اب اس مر قد کا بھی کوئی سراغ کہیں نہیں ملتا۔ اس طرح دل کی تسلی کی ایک موہوم صورت بھی نا پید ہو گئی ۔حال آں کہ میر تقی میرؔ کی قبر تو 1857ء کے بعد برطانوی افواج کی بزدلانہ ، ظالمانہ اور جارحانہ خونیںواقعات کے فوری بعد مکمل طور پر منہد م کر دی گئی تھی ۔سرابوں میں بھٹکنے والوںکے لیے اب مزید کسی خوش فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ لکھنؤ میں ہونے والے اس المیے کے بارے میںبس یہی کہا جا سکتاہے :
جہاں سے ریل کی پٹڑی گزر رہی ہے میاں
وہاں سنا ہے کبھو میر ؔ کا مزار ساتھا
میر تقی میرؔ کی تمام زندگی مفلسی ،کس مپرسی ،پریشاں حالی اور درماندگی میں بسر ہوئی ۔ایک بیٹے ،بیٹی اور اہلیہ کی وفات سے میر تقی میرؔ کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ۔اس ہجوم یاس میں اس کے دل پر جو کوہ ستم ٹوٹا اس کے باعث اس کی زندگی کی تما م رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔میر تقی میرؔ کے مرقد کا نشاں نا پید ہو جانادر اصل موت کے جان لیوا صدمات اور تقدیر کے نا گہانی آلام کے مسائل و مضمرات کی جانب توجہ دلاتا ہے ۔اس عالم آب و گل کی ہر ایک چیز کو فنا ہے ااور بقا صرف رب ذوالجلال کی ذات کو حاصل ہے ۔میر تقی میرؔ کی شاعری اور اس کے الفاظ ہی اب اس کی یاد دلاتے رہیں گے ۔
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
کینیڈا میں مقیم ممتاز محقق طارق غازی نے اپنے ایک حالیہ مضمون ’’رفعت سروش : 1926-2008)‘‘ میں لکھا ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں سال 2002 ء میں احمد آباد میں اردو کے قدیم شاعر ولی محمد ولیؔ دکنی( 1667-1707) کی قبر پر سے ایک شاہراہ گزاری گئی جس کے نیچے قبردب کر معدوم ہو گئی ہے۔
ادبی مجلہ ’’نیرنگ خیال ‘‘ راول پنڈی جلد 95 ، شمارہ 9 ستمبر 2020 ء ، صفحہ 15 میں اس مضمون کی اشاعت کے بعد میرے ایک عزیز نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ افادیت سے لبریز متعدد تاریخی واقعات کے امین اس مضمون کو قارئین کے وسیع حلقے تک پہنچانا چاہیے ۔اس مقصد کے لیے اس مضمون کو سکین کیا اور انٹر نیٹ پر مختلف ادبی حلقو ں اور علی گڑھ اردو کلب کو ارسال کیا۔ اردو زبان و ادب کے ذوق سلیم سے متمتع قارئین نے اس مضمون میں گہری دلچسپی لی اور اس پر اپنی وقیع رائے سے نوازا۔ یہ برقی ڈاک (E.Mail) تاریخ کا ایک ایسا معتبر حوالہ ہے جو مستقبل میںمیرتقی میر ؔکے سوانح نگار اور ادبی محقق کے لیے خضر راہ ثابت ہو گا ۔ لا ہور کی ادبی ویب سا ئیٹ کے مدیر مدثر بھٹی نے لکھا :
’’ محترم ڈاکٹر صاحب! ـ میرا نام مدثر بھٹی ہے اور میںلا ہور سے ایک اردو سا ئیٹ ’’ ـصر ف اردو ‘‘ کا ایڈیٹر ہوں آپ کا مضمون ’’ میر تقی میر :نہ کہیں مزار ہوتا‘‘ملا ہے پڑھ کر خوشی ہوئی ہے اگر آپ اپنے مضمون کی کمپوز شدہ فائل ارسال فرما سکیں تو آپ کا مضمون محققین اور طلبا کے لیے مفید ثابت ہو گا۔‘‘
میں نے اس مضمون کی فائل اِن پیج ( In Page ) کی صورت میں ویب سائٹ ’ صرف اردو ‘کے مدیر کو ای میل کر دی ۔اس کے بعد علی گڑھ اُردو کلب کے فورم سے لکھنو میں مقیم تانیثیت کی علم بردار ممتاز ادیبہ محترمہ فرزانہ اعجاز صاحبہ، کینیڈا میں مقیم مایہ ناز محقق محترم طارق غازی اورامریکہ ( شکاگو) میں مقیم بھارت سے تعلق رکھنے والے مورخ ،ادیب ،محقق ،نقاد اور ماہر آثار قدیمہ سیّد حشمت سہیل کی طرف سے ای میلز موصول ہوئیں ۔اس داستان کی تفہیم کے سلسلے میں یہ مراسلت بہت اہم ہے اس لیے یہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے ۔
محترمہ فرزانہ اعجاز صاحبہ نے لکھنو میں آسودہ ٔ خاک شاعر میر تقی میر ؔ سے متعلق داستان کے اہم پہلوؤں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا :
’’ تسلیم !آپ کا مضمون پڑھا ،آج کل ہم گولا گنج میں رہتے ہیں جو سٹی سٹیشن کے قریب ہے ۔فرنگی محل ( ہمارے میکہ ) سے اب ہمارے موجودہ گھر کے راستے میں وہ مو نگ پھلی منڈی پڑتی ہے جو ریلوے لائن کے ایک پُل کے پاس ہے ۔ہم کو خُوب یاد ہے کہ بچپن میںہم لوگ جب اپنے ابُو کے ساتھ اِس راستے سے آتے تھے تو اَبُوضرور بتاتے تھے کہ اسی کچے میدان میں میر تقی میرؔ کی قبر ہے ۔در اصل گولا گنج کا علاقہ ’’مقبرہ ملکہ عالیہ ‘‘ تھاجو قبرستان تھا۔انگریزوں نے جیت کے بعد قبرستان کھود ڈالا اور سڑک نکال دی۔اسی سلسلے میں ریلوے لائن بھی بنائی جس میں میرؔ کی قبر کھوئی گئی ۔ہم آج بھی جب اس راستے سے گزرتے ہیں تو حضرت شاہ مینا صاحب ،حکیم باقر مہدی اور میر ؔکا فاتحہ پڑھتے رہتے ہیں ۔مونگ پھلی منڈی کا علاقہ بد حالی کی حالت میں ہے ،لکھنو کے ایک مخیر صاحب جناب مقبول لاری صاحب نے ’’ میرؔ اکیڈمی ‘‘ بنائی تھی تو اِس راستے میں ’ یادگار میر ؔ ‘ قائم کی تھی ۔تیراہے پر ایک پارک میں کتبہ لگاتھااور ایک کتاب پر ایک قلم اور دوات پتھر سے بنوائی تھی ۔یہ وہی اکھاڑے کا علاقہ ہے۔افسوس کہ لکھنو والے اپنی یادگاروں کی حفاظت نہ کر سکے ۔
’ آوازِ دوست ‘ میں مصنف نے مولانا حسر ت موہانی کی قبر بھی لا پتا بتائی ہے ۔ہم آپ کے ذریعے بتانا چاہتے ہیں کہ حسرت موہانی کا وصال ہمارے میکے ’ فرنگی محل ‘ میں ہوا تھا۔اُن کی تدفین بھی ہمارے خاندانی قبرستان ’’ باغ مولانا انوار صاحب ‘‘ رکاب گنج میں ہوئی تھی ۔ہم لوگ قبر پر کتبہ نہیں لگاتے مگر مختار مسعود کی اس غلط فہمی کو دُور کرنے کومولانا کی قبر پر کتبہ لگا اور AMUکے سابق سٹوڈنٹسیوم وفات کو فاتحہ خوانی بھی کرتے ہیں ۔‘‘
کینیڈا میں مقیم بھارت سے تعلق رکھنے والے نابغہ ٔ روزگار محقق ،دانش ور اور ماہر علم بشریات طارق غازی نے میرے مضمون کے حوالے سے علی گڑھ اردو کلب کے قارئین سے مخاطب ہو کرلکھا:
’’ میر تقی میر پر ہمارے عصر کے ممتاز محقق اور ادبی مورخ ڈاکٹر غلام شبیر ر انا کے مضمون اور اس پر عزیزبہن فرزانہ اعجاز کی شرح احوال پڑھ کر ایک پُرانا شعر یاد آ گیا،بارہ سال پہلے کہیں میر ؔ کا ذکر سا تھا تواُس کے بعد ایک شعر ہو گیا تھا۔فی الحال وہ شعر حاضر ہے بعد میں کبھی پُوری غزل پیش کروں گا:
جہاں سے ریل کی پٹڑی گزر رہی ہے میاں
وہاں سُنا ہے کہیں میر ؔ کا مزار سا تھا
سیّدحشمت سہیل نے سوموار پانچ اپریل 2020ء کو علی گڑھ اردو کلب کے نام اپنی ای میل میں لکھا:
Thank you Dr.Ghulam Shabbir Rana .Very good essay on Mir Taqi Mir,s grave ,though in Lucknow near Rifah-e – Aam club there is a grave near City Station by the railway line.I have seen that grave .It is called Mir Taqi ,s grave.
نو آبادیاتی دور میں یہ تاثر عام تھا کہ یاس و ہراس اور انقباض کی کیفیت میں داستان کا مطالعہ ایک گونہ بے خودی کے احساس سے سرشار کر دیتاہے ۔اس عرصے میں طویل داستانوں کے بجائے’’ باغ و بہار‘‘ اور ’’ فسانہ ٔ عجائب‘‘ جیسی نسبتاً مختصر داستانوں کو بہ نظر تحسین دیکھا گیا۔ اُنیسویں صدی کے آغا میںفورٹ ولیم کالج میں بھی داستانوں پر کام ہوا ۔
داستا نوں کی غیر معمولی طوالت سے قاری اکتاہت اور تکان کا شکار ہو جاتا ہے ۔داستانوں میں عریانی ،فحاشی اور اخلاق سوز واقعات کی بھر مار ہوتی ہے ۔داستان کا تعلق تدریس یا مطالعہ سے نہیں بل کہ گویائی اور سماعت سے ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں جب تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں معاشرتی زندگی میں افراد کو جس سماجی معنویت کی احتیاج ہے ڈرامے ،ناول ،فلم ،تھیٹر اور افسانے میں وہ اسے کسی حد تک دستیاب ہے مگر داستان کا دامن اس سے تہی ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں داستان کی روایت اور اُس کی پہچان تاریخ کے طوماروں میں دب چُکی ہے ۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ تخلیق ادب کے لا شعوری محرکات بدل چکے ہیں اور خوشبو کے سفر پر نکلتے وقت آرزوؤں اور اُمنگو ں نے قلب ِ حزیں کی رفاقت سے منھ مو ڑ لیا ہے۔داستان گو جنھیںبیتے وقت کی تُربت کے خستہ حال مجاور سمجھا جاتا تھا عرصہ ہوا اپنی دکان بڑھا گئے ہیں۔خواب پیہم آہ وفغاں کرتے ہیں کہ مرکز ِ تعبیر کے بارے میں کچھ معلو م نہیں۔ ماضی کے داستا ن گو اپنی بساط سخن سمیٹ کر گلشنِ ادب سے اپنا آشیانہ اُٹھا کرنہ جانے کِس جہاں میں کھو گئے ہیں۔کتب خانوں میں داستانوں کی قدیم کتابیں قارئین کو اس جانب متوجہ کرتی ہیں کہ تصاویر تو موجود ہیں مگر مصور اور صاحبِ تصویر کے بارے میں سب خاموش ہیں ۔
مآخذ :
1۔کلیم الدّین احمد : اُردو زبان اورفنِ داستان گوئی ،دائرہ ٔ ادب ،بانکی پور،پٹنہ ، سال اشاعت درج نہیں ،صفحہ 10
2۔پروفیسر سیّد وقار عظیم : ہماری داستانیں ،اعتقاد پبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی ،بار اوّل ستمبر 1980ء ،صفحہ 8
3 ۔گیان چند : اردو کی نثری داستانیں ،اُتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنو،سال اشاعت 1987ء ،صفحہ16
4۔ڈاکٹر مولوی عبدالحق ( مرتب): سب رس،انجمن ترقی اردو ،کراچی ، اشاعت سوم ،1964،صفحہ7
5۔ نصیر الدین ہاشمی : دکن میں اردو ،قومی کونسل برائے فروغ اردو ،دہلی ،سال اشاعت 1985،صفحہ 165
6۔ ڈاکٹر عبیدہ بیگم : فور ٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات ،نصرت پبلشرز ،لکھنو،سال اشاعت 1983ء ،صفحہ299
7۔ڈاکٹر سلیم اختر ( مرتب ) : باغ و بہار ،اعجا زپبلشنگ ہاؤس ،نئی دہلی ،سال اشاعت ،1990،صفحہ36
8۔رشیدحسن خان (مرتب ) :باغ و بہار،انجمن ترقی اردوہند ،نئی دِلّی ،سال اشاعت ،1992،صفحہ13
9۔ ڈاکٹرسہیل بخاری: اُردو داستان تحقیقی و تنقیدی مطالعہ )مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد ،سال اشاعت 1987ء ،صفحہ400
10۔ شمس الرحمٰن فاروقی : داستان امیر حمزہ زبانی بیانیہ ،بیان کنندہ اور سامعین،مکتبہ جامعہ ،نئی دہلی،سال اشاعت 1998ء ،صفحہ 18
11۔شمس الرحمٰن فاروقی : داستان امیر حمزہ زبانی کا مطالعہ ( نظری مباحث ) جلد اول ، قومی کونسل برائے فروغ اردو ،سال اشاعت 1999ء،صفحہ 20
12 ۔بہ حوالہ مبارک علی ڈاکٹر :تاریخ اور فلسفہ تاریخ ،فکشن ہائوس،لاہور ،اشاعت اول ،1993،صفحہ 214۔