(Last Updated On: )
لفظ gigolo کے معنی ہوتا ہے مرد زن داشتہ ۔۔۔۔یعنی Male prostitution…عورتوں کا داشتہ بننا سمجھ میں آتا ہے۔۔۔کہ مرد عورتوں کی طرف کھینچا چلا آتا ہے اور اسکی ہوس کی آگ ایک عورت ہی بجھا سکتی ہے لیکن حاضر دور میں مردوں نے بھی اس شغل کو اختیار کر لیا ہے۔۔۔اس لیے مرد داشتہ کا استمعال اب عورتوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔۔خواص کر عمردراز بیوہ اور کرئیر بنانے میں مشغول عورتیں جنکی عمر شادی کرنے کی نکل چکی ہے ۔۔اور وہ عورتیں جنکے شوہر انہیں جسمانی طور پر مطمئین نہیں کر پاتے ہیں وہ ان Gigolo یا مرد زن داشتہ کی سروس کا مزہ لیتی ہیں ۔۔۔لیکن سب سے اہم سوال ہے کہ روزگار کے اتنے مواقع ہوتے ہوئے بھی نوجوان نسل اس دلدل بھرے کام کو کرتا ہی کیوں ہے۔۔۔؟؟
سب سے پہلے تو اس Giigolo system میں مختلف سماجی آلودگی کی طرح مغربی تہذیب سے در آئی ہے جہاں ننگا پن اس تہذیب کا حصہ ہے۔۔۔مغربی تہذیب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت میں بھی نوجوان نسل اس کام کو کرنے لگا کیونکہ اسے اس کام میں زیادہ محنت نظر نہیں آتا کمائی چکاچک اور مزہ الگ سے ۔۔۔بونس کے روپ میں ۔۔۔ بھارت جیسا ملک جہاں غربت زیادہ ہے اور روزگار کے مواقع بہت کم اور محدود ہیں ویہاں اچھی زندگی کے بارے میں تو چھوڑ ہی دیں جناب اگر عام زندگی بھی جینی ہے تو کافی مشقت کرنی پڑتی ہے ایسے میں بہکتے ہوئے نوجوان نسل کو یہ کام روپیہ کمانے کا نیا اور آسان طریقہ لگتا ہے ۔۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں آپ کو پانی سے لیکر جسم تک فروخت ہوتا نظر آتا ہے اسکے ہمراہ مغربی ممالک کی تقل اب تو ہندوستانیوں کی پہلی پسند بنتی جا رہی ہے ۔۔طوائفوں کا بھوگ کرتے مردوں کو دیکھکر آزاد خیال کی عورتیں اپنی ہوس کو طمانیت بخشنے کے لیے Gigolo یا مرد زن داشتہ کے روپ میں ذرائع دستیاب ہوا ہے ۔۔اور نوجوانوں کے لیے جب روپیہ زندگی سے بڑھکر ہو تو کوئی بھی کام برا اور گندہ نہیں ہوتا ہے: لیکن جب بھی نوجوان نسل اسطرح کا کوئی نیا کام کرتا ہے تو ہمیشہ اسکا صحیح اور خوبصورت چہرہ ہی دیکھتا ہے پر اس نوجوان نسل کو اسکا دوسرا بدصورت بد شکل اور قبیح چہرہ نظر نہیں آتا ہے
مرد زن داشتہ یا Gigolo کا کام نوجوان نسل کو صحیح اور درست لگتا ہے کیونکہ روپیوں کے ہمراہ مزہ بھی آنے لگتا ہے پر اسکا بھیانک اور تاریک پہلو اسوقت نمودار ہونے لگتا ہے جب بہت زائد عورتوں سے جسمانی تعلقات بنانے کے بعد یہ نوجوان مختلف اقسام کے sexually transmission disease کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس میں مخصوص امراض حسب ذیل ہیں
AIds Chlamydia
Gonorrhoea
Pelvic inflammatory disease
Genital warts
Genital Herpes
Syphilis
اسکے بعد جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ نہایت تکلیف دینے والا ہوتا ہے پھر انہیں کوئی عورت ہائیر نہیں کرتی ہے اور نہ ہی یہ شادی کے لائق ہو کر ازدواجی زندگی کا لطف لے پاتے ہیں
ہندوستانی معاشرے کے شہری زندگی میں یہ آلودگی تیزی سے پاؤں پسار رہا ہے کیونکی شہر میں آزاد عورتیں جنہیں ہر چیز پیسے سے مل جاتی ہے وہ اپنے اندر کی آگ کو اور بند جذبوں کو شانت کرنے کے لیے اس Gigolo کا استمعال کرنے سے گریز بھی نہیں کرتی ہیں اب تو باقائدہ اسکے سائٹ اور بازار دونوں موجود ہیں بس آپ کو اپنے انگوٹھے کو حرکت دینے کی ضرورت بھر ہے اور Gigolo آپ کے دروازے پر حاضر ہے
ہندوستانی سماج میں آزادی خود مختاری ہے اس سے اب کوئی انجان نہیں ہے اور ایسے میں عورتیں بھی آسانی سے اس دھندے کو بڑھانے میں بھی اہم کردار نبھانے لگ جاتی ہیں
یعنی اس دھندے کے سماج میں آنے کا سب سے بڑی وجہ یہ سماج ہی ہے
Gigolo
یا مرد زن داشتہ کا کام کتنا برا ہوتا ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب انہیں “مرد طوائف “کہا جاتا ہے۔۔۔اب یہ انسانی معاشرہ اتنی تیز رفتار سے ترقی کر چکا ہے کہ عورتیں اب مردوں کا اسی طرح استمعال کرتیں ہیں جیسے وہ عورتوں کا کرتے تھے یعنی کام نکال کر گھر لانے کی ضرورت ہی نہیں ڈسٹ بین میں ڈالو اور آگے بڑھ جاؤ۔۔۔۔ان سب میں سب سے بڑی اور اہم بات پوشیدہ رہ جاتی ہے کہ بھارتیہ سماج میں یہ چیزیں ہماری تہذیب اور تمدن کے لیے دیمک یعنی Termite کا کام کرتی ہے۔۔۔//
جس نئی پیڑھی نئی نسل پر زمانے کا بھار ہوتا ہے وہ چند مشکلوں اور مصائب کے بوجھ سے شکست کھا کر اس دلدل میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے اور اپنے مستقبل کے ساتھ مذاق کرنے لگ جاتا ہے
اگر اس کام کو قانونی نظر سے دیکھا جائے تو یہ غیر قانونی ہے ۔۔مرد زن داشتہ یا Gigolo کو بھی طوائفیت یعنی prostitution کی طرح ہی دیکھا جاتا ہے اپنے ملک بھارت میں عصمت فروشی کے خلاف کئی قوانین ہیں پر مرد زن داشتہ یا Gigolo کے لیے کوئی ٹھوس قانون نہیں ہے حالانکہ اسکے باوجود بھی بھارتیہ قانون اسے عصمت فروشی ہی تسلیم کرتا ہے ۔۔جبکہ دنیا بھر میں اسے انسان کے آزادی کے حقوق سے براہ راست جوڑ کر دیکھا جاتا ہے
کئی بار مرد زن داشتہ کو خوبصورت الفاظ جیسے لیو ان ریلیشن کا بھی پیرہن اور لباس زیب تن کرا دیتے ہیں ۔۔ایسی صورت میں عورت مرد کے ساتھ ہی رہتی ہے اور ہر طرح کے قانوی داؤ پیچ سے بھی محفوظ رہتی ہے ۔۔یعنی یہ سارے لوگ اپنی اپنی خواہشوں کے خدا بن جاتے ہیں اور بنجر زمین پر saline water سے آبیاری کرتے رہتے ہیں انکا مقصد سیکس اور لذت ۔۔۔۔۔ہوا کرتا ہے ۔۔۔تم مجھے تسکین دو میں تمہیں روپیے دونگی۔۔۔Gigolo کو اب تجارت سے بھی جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔۔ہندوستان کے صوبہ کیرالا میں اب سیاح سیکس اور سیاحت دونوں کے لیے کرنے لگے ہیں جہاں سیاح سیاحت کے ہمراہ سیکس سے بھی لطف اندوز ہونے کے لیے آنے لگے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وباء کے دنوں میں اس تجارت میں بھی گراوٹ آئی ہے ۔۔۔اس تجارت میں سب سے مکروہ چہرہ اسوقت نظر آتا ہے جب اس گندے تجارت میں کم عمر کے بچوں کو بھی دھکیل دیا جاتا ہے ۔۔//
زندگی کو تجارت بناکر دیکھنے والا اشرف المخلوقات اپنی آزادی کا اعلان کرتا ہے خود کی زبان سے تشہیر کرتا ہے کہ ہم مہذب سماج کے مہذب لوگ اپنے معاشرے میں کتنی سڑاندھ رکھتے ہیں
بےجا اور غیر اخلاقی خواہش کی تکمیل کے لیے ہم مہذب معاشرے والے Bipedal locomtory organ رکھنے والے جانور کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔۔۔پر ایک سوال کیا بھارتیہ تہذیب اتنی کمزور اور ناتواں ہے کہ ہم ان کے دباؤ میں آکر اپنی پرمپرا اور سنسکرتی کو ختم کر دیں گے ۔۔۔۔گودی میڈیا اور حکمراں کب اس جانب توجہ دیں گے۔۔۔۔؟؟