(Last Updated On: )
ڈریکولا، یعنی “خون آشام نواب” کا کردار 1897 میں “برام سٹاکر” نے اپنے ناول Dracula میں تخلیق کیا۔۔۔ جس کے بعد سے اب تک ڈریکولا کے کردار پر سینکڑوں ناولز، کہانیاں، کومکس، موویز اور سیریز لکھی اور جاری کی جاچکی ہیں۔
جن میں میری پسندیدہ فلم Dracula Untold ہے کیونکہ یہ فلم کچھ حد تک ہی سہی حقیقت کے قریب ہے۔
اس تحریر میں ہم “ڈریکولا” کے افسانوی کردار اور ڈریکولا کے حقیقی کردار کا جائزہ لیں گے۔
۔
ڈریکولا کا افسانوی کردار:
ہارر فینٹیسی میں ڈریکولا ایک ویمپائر نواب ہے جسے ایک بیماری کی وجہ سے انسانی خون کی لت لگ جاتی ہے اور اس میں پراسرار شیطانی صلاحیات پیدا ہوجاتی ہیں جیسے بھرپور جسمانی طاقت اور غائب ہوجانے کی صلاحیت۔
ویمپائر یعنی خون آشام طبقہ کئی صدیوں سے یورپی folklore کا حصہ ہے۔
ویمپائرز کی کمزوری دھوپ، صلیب کا نشان، بائبل کی آیات اور لہسن ہے۔
ویمپائر صرف رات کے وقت شکار کرتے ہیں کیونکہ دن کو دھوپ کی وجہ سے نہیں نکل سکتے۔
اور کسی ویمپائر کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے دل میں لکڑی کی کھونٹی گاڑھ دی جائے۔۔۔ویمپائر جس انسان کا خون پی لے وہ انسان بھی ویمپائر بن جاتا ہے۔ (یہ سب فرضی کہاوتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں)۔
۔
ڈریکولا کا حقیقی کردار:
اب آتے ہیں اس کردار کی حقیقی تاریخ کی طرف۔
ڈریکولا کا اصل نام “ولاد سوئم” Vlad III اور اس کا لقب “امپیلر” (بمعنی: شہتیر میں پیلنے والا) تھا۔۔۔ ولاد 1431 میں مملکت ولاشیہ (موجودہ رومانیہ) کے شہر Sighișoara میں پیدا ہوا۔۔۔ اس کا تعلق شاہی خاندان سے تھا اور اور اس کا باپ “ولاد دوئم” ولاشیہ کا بادشاہ تھا جس کا لقب Dracul (بمعنی: شیطان یا ڈریگن) تھا ۔۔۔۔۔۔ ڈریکولا کا مطلب ہے “دراکول کا بیٹا” یعنی یہ ولاد کی کنیت تھی۔
ولاد سوئم کے 2 بھائی تھے:
رادو بے Radu Bey
مرسیاء دوئم Mircea II
رادو کی ماں کا نام Cneajna تھا جس کا تعلق ملداویہ(موجودہ رومانیہ) سے تھا۔
۔۔۔
ڈریکولا ترکی 🇹🇷 میں:
جس طرح آج کے دور میں امریکہ اور برطانیہ علم و تعلیم کا مرکز ہے 13ویں صدی میں ترکی(تب سلطنت عثمانیہ) یورپ میں علم و فنون کا مرکز تھا۔۔۔۔چنانچہ۔ دراکول نے 1442 میں اپنے دو بیٹوں ولاد اور رادو کو تعلیم اور عسکری تربیت کے لیے قسطنطنیہ(موجودہ استبول) روانہ کردیا ۔ یادرہے اس وقت ترکی اور ولاشیہ کے درمیان امن معاہدہ تھا۔۔۔
اس وقت ترکی پر مشہور زمانہ “محمود دوئم”( المعروف سلطان محمد فاتح ) کی حکومت تھی۔
( یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ ترکوں کے ہاتھوں بازنطینیوں کو شکست دیتے ہوئے قسطنطنیہ کی آزادی کو ابھی محض چند سال ہی بیتے تھے اور پورا یورپ ابھی تک اسی غم و غصے میں تھا۔ جس میں ولاشیہ بھی شامل تھا)۔
ولاد سوئم ترکی میں 5 سال تک رہا ۔۔۔۔ بعض روایات میں 7 سے 10 سال بھی رقم ہے۔
اس عرصے کے دوران ولاد نے ترکی میں اعلی تعلیم اور عسکری حکمت عملی کے ساتھ ساتھ ترک اور عربی زبان اور عثمانی فوج کے جنگی ٹیکٹکس کے بارے میں بھی تفصیلی مطالعہ و مشاہدہ کیا۔۔۔۔اس کے دماغ کے تاریک کونوں میں ترکوں سے سقوط قسطنطنیہ کی شکست کا انتقام لینے کی خواہش زور پکڑ رہی تھی۔ مگر اس نے ہمیشہ اسے خفیہ ہی رکھا۔
دوسری طرف ڈریکولا کے بھائی Radu نے اسلام قبول کرلیا اور ترک فوج میں کمانڈر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کرلی۔
تعلیم مکمل ہونے پر ولاد واپس ولاشیہ چلا گیا جبکہ رادو ترکی میں ہی ٹھہر گیا۔
نومبر 1447 کو ولاشیہ کے بادشاہ دراکول کو Bălteni کے مقام پر قتل کردیا گیا۔ اور 1448 میں ڈریکولا نے ولاشیہ کا تخت و تاج سنبھال لیا ۔۔۔۔ یہ شخص ترکوں کی نفرت میں جل رہا تھا (حالانکہ اس کے باپ کو اس کے سابق حلیف “ہنیادی” نے قتل کروایا تھا نا کہ ترکوں نے۔ ترک اس وقت دراکول کے دشمن نہ تھے۔ بلکہ دراکول کا بیٹا رادو خود اس وقت ترک فوج کا کمانڈر تھا)۔
باپ کے قتل، بھائی سے جدائی اور ترکوں سے اندھی نفرت نے ولاد کو ایک مستقل نفسیاتی مریض اور شراب نوشی کا مستقل عادی بنادیا تھا ۔
بادشاہ بنتے ہی ایک طرف اس نے اپنی افواج کو مستحکم کرنا شروع کردیا تو دوسری طرف بہانوں بہانوں سے ترکی سے پنگہ بازی کا سلسلہ شروع کردیا۔
۔
سانحہ 1459 :
سنہ 1459 میں (تاریخ مجھے کنفرم نہیں )
ترک حکومت کا ایک وفد ولاد سے ملنے ولاشیہ آیا تاکہ ولاد کے ساتھ اس امن معاہدہ کی تجدید کی جاسکے کہ جو اس کے باپ دراکول اور ترکوں کے درمیان چلتا آیا تھا۔۔۔۔(جب ٹرانسلوینیا نے ولاشیہ پر حملہ کیا اور تو اصولا ترکی کو دراکول کی مدد کرنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہوسکا جوکہ افسوس کا مقام ہے۔ شاید ولاد کی ترکوں سے نفرت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی ۔ ستونت)۔
اس ملاقات کے دوران ولاد نے اپنی متعصب طبعیت سے مجبور ہوکر ترک سفیروں سے کہا کہ وہ سب اس کے احترام میں اپنی پگڑیاں اتار دیں۔ کیونکہ تب بادشاہ سے ملتے وقت سر ننگا رکھنے کی روایت تھی یورپ میں۔ لیکن ترکوں نے پگڑیاں اتارنے سے انکار کردیا (کیونکہ انہیں اس سے استسثناءحاصل تھی دراکول کے زمانے سے ہی)۔۔۔۔۔ جس پر ولاد نے انہیں گرفتار کروادیا اور حکم دیا کہ ” ان سب کے سروں میں لوہے کی میخیں گاڑھ دی جائیں تاکہ اب پگڑیاں کبھی ان کے سروں سے جدا نہ ہو سکیں”۔
ترک سفیروں کا اس بیدردی سے قتل امن معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ جس کے بعد یہ معاہدہ کالعدم ہوگیا۔
اس سانحہ کے بعد ترکی نے ولاشیہ کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کردیے۔۔۔اور ولاد نے ہنگری کے بادشاہ “میتھیاس کاروینس” کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانا شروع کردیا تاکہ ترکی کے خلاف ولاشیہ-ہنگری اتحاد قائم کیا جاسکے۔
۔
سانحہ بلغاریہ، فروری 1462:
فروری 1462 میں ولاد کے حکم پر ولاشیہ کے افواج نے بلغاریہ پر حملہ کردیا جو کہ اس وقت سلطنت عثمانیہ کا اتحادی تھا۔
بلغاریہ میں ہزاروں ترک فوجی تعینات تھے جنہوں نے بلغاری فوج کے ساتھ مل کر ولاشیہ کے حملے کا مقابلہ کیا۔۔۔لیکن۔۔۔شاطر ولاد ترکی میں گزارے اپنے سالوں میں ترک فوج کے ٹیکٹکس خوب اچھی طرح سے جان پرکھ چکا تھا چنانچہ اب کی بار ترک و بلغاری فوج کو خوفناک جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔۔۔۔ ولاشیہ کی فوج نے اس جنگ میں 20,000 ترک فوجیوں کو گرفتار کرلیا اور سب کے سب گرفتار ترکوں کو امپیل کردیا۔۔۔۔۔۔۔ اس بھیانک طریقہ موت میں ولاد نے وسیع میدان میں ہزاروں لکڑی کے شہتیر گڑھوائےاور ترک فوجیوں کو اوپر سے ان پے اچھال کے شہتیروں کو ان کے جسم میں گھونپ دیا جاتا اور وہ بلندی پر ہی انتہائی درد ناک موت کا شکار ہوجاتے جس میں کئی گھنٹے یا بعض اوقات چند دن بھی لگتے۔
جب سلطان محمد فاتح کو اس بھیانک سانحہ کا علم ہوا تو اسے اندازہ ہوگیا کہ اب ولاد اور اس کی فوج کا کوئی مستقل بندوبست کیے بغیر گزارہ نہیں ہے۔۔۔۔چنانچہ سلطان محمد فاتح نے رادو کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔
۔
ڈریکولا کی بربریت:
جیسا کہ آپ جان چکے کہ ولاد یعنی ڈریکولا کا حد تک اذیت پسند اور ظالم انسان تھا۔
اس پر مستزائد یہ کہ اس دشمن فوجیوں کی لاشوں کا مثلہ کرنے۔ ان کے اعضا چبانے۔ اور ان کا خون شراب میں ملا کر پینے کی بد عادات پڑ چکی تھیں۔ خون پینے کی اسی عادت کی وجہ سے اسے ویمپائر کہا جاتا ہے۔
۔
معرکہ ترگوویستاء 1462:
سانحہ بلغاریہ کے چند ماہ بعد جون 1462 میں سلطان محمد فاتح نے بلغاریہ کے شہر Târgoviște کا دورہ کیا۔۔۔ جب اس دورے کا ولاد کو علم ہوا تو اس نے اپنے اس دشمن کو ایک ہی مرتبہ راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور سلطان محمد فاتح کو قتل کرنے کی نیت سے 17 جون 1462 کو پوری طاقت سے بلغاریہ پر ترگوویستاء کے مقام پر حملہ کردیا اور اس کا ہدف تھا سلطان محمد فاتح اور اس کی فوج۔ لیکن اس مرتبہ فوج کی کمان ڈریکولا کے سگےبھائی رادو بے کے ہاتھ تھی جو ولاشیہ کی فوج کے ٹیکٹکس اور بربریت سے اچھی طرح آگاہ تھا۔ ولاد نے اس جنگ میں ولاشیہ کی فوج کے سب سے بہترین دستے اور سب سے اعلی ہتھیار جھونک دیے تھے۔ لیکن اس مرتبہ حالات قدرے مختلف تھے۔ اب کی بار بلغاریہ میں 150,000 ترک فوجی بہترین جنگی سازوسامان، کمک اور رسد کے ساتھ لیس موجود تھے جنہوں نے ولاشیہ کی فوج کے حملے کا رخ موڑ دیا۔
ولاشیہ کو جنگ کے پہلے گھنٹوں میں ہی بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور تقریبا 3000 فوجی مارے گئے۔ مزید چند گھنٹوں میں ترکوں نے رادو کی قیادت میں مزید 2 ہزار ولاشی فوجیوں کو ہلاک اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا۔۔۔۔۔۔اب ڈریکولا اپنے باقی بچے 6 ہزار فوجیوں کو چھوڑ کر Moldovia کی طرف فرار ہوگیا اور ترکوں نے ولاشیہ کی طرف پیش قدمی کا آغاز کردیا۔۔۔۔ لیکن کیونکہ ترک فوج کی قیادت رادو کے ہاتھ تھی اور رادو خود ولاشی تھا اس لیے نا تو ولاشیہ میں قتل عام ہوا اور نہ ہی ترکوں نے ولاشیہ پر قبضہ کیا بلکہ۔ 2 لاکھ گھوڑے اور مویشی مال غنیمت میں حاصل کرنے کے بعد ترک فوج تھم گئی۔
۔
ڈریکولا کا انجام:
ولاد کے فرار کے بعد رادو نے ولاشیہ کا تخت و تاج سنبھال لیا۔۔۔ ولاد کئی سال تک مفرور رہا آخر کار 1476 میں ترک انٹیلی جنس نے بخارست میں ولاد کا سراغ لگا لیا اور اسے دھر دبوچا۔
1476 میں ولاد کا سرقلم کرکے استنبول بھجوادیا گیا جہاں اس سر کو عبرت کے لیے پبلک مقام پر آویزاں کردیا گیا۔
۔
کیا ڈریکولا اب بھی زندہ ہے ؟
ڈریکولا کے بارے میں ایک Myth یہ مشہور ہے کہ موت سے قبل اس نے شیطان کو اپنی روح سونپ دی تھی اور وہ ہزاروں سال تک کسی نہ کسی حالت میں انسانوں کا خون ہی کر زندہ رہے گا۔۔۔۔لیکن یہ ظاہر ہے ایک فرضی بات ہے ورنہ اگر ایسا ہوتا تو ڈریکولا سب سے پہلے “طیب اردگان” کو کھاتا 😝😜 کہ جو سلطنت عثمانیہ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔