وہ تینوں اپنے باپ کی صحت سے پریشان حال رمضان کی آخری افطاری کر رہے تھے کہ بوڑھے وزیر کی ذور ذور سے کھانسنے کی آواز آنے لگی۔ جسکا ہاتھ جہاں تھا وہیں رک گیا اور وہ تقریباً بھاگتے ہوئے اپنے باپ کے سرہانے جا پہنچے جو کھانسی سے نڈھال ہو اپنے گھُٹنوں پر دوھرا ہو چکا تھا۔ نادر نے باپ کی پیٹھ ملنا شروع کر دی جبکہ منجھلا کھڑکی بند کرنے اور دوسرا پانی لانے کیلئے لپکا۔۔
پانی کا دوسرا ہی گھونٹ اندر گیا کہ کھانسی کا پہلے سے بھی شدید دورہ جیسے نازل ہو گیا اور وزیر لمبے غوطے میں چلا گیا، لاچاری سے تینوں بھائیوں کی روحیں کِلبلانے لگیں تو اسد اللہ سے رہا نہ گیا، وہ بھرائی آنکھوں کیساتھ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے باہر صحن میں آگیا۔ اس نے آسمان کیجانب نگاہِ مُلتجی کی اور نہ جانے کتنے ہی شکوے دعا بن کر اسکی آنکھوں میں ابھر آئے۔
شہد نے گلے میں لیپ کیا تو کھانسی رکی مگر رہ رہ کر ٹھُنکے آتے رہے۔ بوڑھے وزیر نے آنکھیں موند لیں اور چھوٹے چھوٹے سانس لیتے ہوئے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اسکے چہرے سے صاف پتہ چلتا تھا کہ کئی مہینوں کی کھانسی سے گلے میں آنے والے چیروں پر کالی مرچ لگ رہی ہے جس سے اسکا چہرہ اور کان سرخ ہو رہے تھے۔
تینوں بیٹے چُپ چاپ اسکے پاس کھڑے باپ کے چہرے کی تلاوت کرتے ہوئے اپنی لاچاری کا ماتم کرتے رہے۔ کوئی گھنٹے بھر میں بوڑھے وزیر کی سانس لمبی ہونے لگی، عادل نے مشعل قریب کر کے غور سے دیکھا تو وزیر کے ماتھے کی شکنیں معطل ہو چکی تھیں یعنی وہ پرسکون ہو کر نیند میں چلا گیا تھا۔ اگلے دن بوڑھا وزیر دنیا سے رخصت ہو گیا۔
مرنے سے پہلے اُس نے اپنے بیٹوں کو اپنی جاگیر کی سند اور ایک طلائی انگوٹھی دی جو بوقت رُخصت بادشاہِ وقت نے اسے دی تھی اور نصیحت کی کہ اگر زندگی میں کبھی بُرا وقت آ جائے تو یہ انگوٹھی لیکر بادشاہ کے پاس چلے جانا، وہ تمھاری حاجت روائی کرے گا۔
تینوں بھائی انتہائی محنتی اور خدا ترس تھے اور انکے باپ کی چھوڑی جاگیر کی پیداوار انکے پورے گاوں کیلئے کافی تھی سو سالہا سال وہ نظامِ زندگی میں مگن رہے یہاں تک کہ انکے علاقے میں سوکھا پڑ گیا۔ ایک برس تو جیسے تیسے گزرا لیکن اگلے برس بھی بارش نہ ہونے سے فصل تین چوتھائی رہ گئی اور طے تھا کہ قحط ابکے جان کو آوے گا سو بھائیوں نے آپس میں صلاح کی اور بادشاہ سے اپنے گاوں والوں کیلئے مدد مانگنے نکل کھڑے ہوئے۔
محل کے داروغہ نے پہلے تو انہیں بھوکے ننگے جان کر دھتکار دیا لیکن جب انھوں نے اپنے باپ کا نام لیا اور شاھی مُندرا دکھائی تو اُلٹا وہ انکی منت سماجت کرنے لگا کہ اسکے روئیے بارے بادشاہ سے کچھ نہ کہیں۔۔ انہوں نے وعدہ کر لیا تو اس نے انہیں بتایا کہ جس بادشاہ نے انکے باپ کو یہ انگوٹھی دی تھی اسکا پچھلے ساون انتقال ہو گیا ہے اور اب اسکا بیٹا تخت افروز ہے۔ بھائی مایوس ہونے لگے تو داروغہ نے کہا کہ نیا بادشاہ انتہائی رحم دل اور خوش مزاج ہے اسلیئے انکی مایوسی بے جا ہے، تب جا کر تینوں کو ہمت بندھی۔۔
داروغہ محل نے انہیں ناظم مہمان خانہ کے حوالے کیا اور پہچان بتلائی جسکی بڑی بڑی سفید مُونچھیں تھیں اور صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ انکے باپ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ ان سے انگوٹھی لے لی گئی اور خادماوں کو حکم دیا گیا کہ مہمانوں کو بادشاہ سلامت سے ملاقات کیلئے تیار کیا جائے.
نادر کو محل کا ایک ایک کونہ جانا پہچانا سا لگا، کیوں نہ ہو، جب انکا باپ وزیر تھا تو وہ اسی محل میں دوسرے مکینوں کے بچوں کیساتھ کھیلا کرتا تھا۔
انہیں حمام لیجایا گیا جہاں کسی شاھی مہمان کیطرح انکی خاطر مدارت کر کے انہیں نئے لباس زیب تن کرائے گئے اور خوشبووں سے معطر کر کے واپس مہمان خانے پہنچا دیا گیا۔ کچھ ہی دیر میں خادمائیں اور ایک انتہائی سلیقہ مند خواجہ سرا انکے آگے بھانت بھانت کے اخوان پروسنے لگے اور اعلان ہوا کہ کھانے کے فوراً بعد بادشاہ سلامت انہیں شرفِ ملاقات بخشیں گے۔
کھانا شروع ہوا تو خدام ایکدم غائب ہو گئے لیکن یہ احساس موجود رہا کہ کسی بھی چیز کی ضرورت پیش آنے پر یونہی کسی پردے کے پیچھے سے نکل آئیں گے۔
کھانا شروع ہوا تو بادشاہ مہمان خانے پہنچ گیا لیکن مہمانوں کو تکلفات سے بچانے کیلئے پردے کے پیچھے انکا کھانا ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
اُدھر پہلا لقمہ لیا تو عادل بولا، “یہ روٹی جس نے پکائی ہے، وہ پاک نہیں ہے۔”
اسد بولا، “مجھے تو لگتا ہے اس بکرے نے بھی کسی کتیا کا دودھ پیا ہے۔”
بادشاہ نے بھنویں اچکائیں تو نادر بول اُٹھا۔۔
“مجھے تو یہ بادشاہ بھی اپنے باپ کی اولاد نہیں لگتا۔۔”
بادشاہ غصے سے لال پیلا ہو گیا لیکن وہ بچپن سے سنتا آیا تھا کہ جب اسکا باپ چھوٹا بچہ تھا تو انہی لڑکوں کے باپ نے اسکی جان بچائی تھی سو وہ چُپ ہو رہا اور جُنبش تک نہ کی۔ جب تینوں بھائی کھانا کھا چکے تو اس نے خادمہ سے کہا کہ انکو پائیں باغ لایا جائے اور چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔۔
خادمہ نے کچھ ساعت انتظار کیا اور پھر انہیں پائیں باغ لے آئی۔ پائیں باغ حرم کیساتھ ملحق تھا جہاں پہنچنے کیلئے انہیں میل بھر پیدل چلنا پڑا۔ رستہ بھر کنیز انکو بادشاہ کی خدمت میں پیش ہونے کے آداب سکھلاتی رہی۔
بادشاہ سپاٹ چہرے مگر بظاہر گرمجوشی سے مہمانوں کو ملا، انکے والدین کا پوچھا، وفات کا سن کر افسوس کر ہی رہا تھا کہ ایکدم ادب سے اٹھ کھڑا ہوا، اسے دیکھ کر تینوں بھائی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور ملکہ عالیہ یعنی بادشاہ کی والدہ آ گئیں۔
تینوں بھائیوں کو بڑا تعجب ہوا جب ملکہ نے تینوں کے ماتھے پر بوسہ دیا اور گلے سے بھی لگایا۔ انکے والدین کے گزر جانے کا سن کر ملکہ عالیہ آبدیدہ ہوئیں تو بادشاہ بھی حیران رہ گیا۔ خیر، اس نے مہمانوں کے آنے کی وجہ پوچھی اور آنکھ جھپکنے سے پہلے انکی حاجت روائی کر دی گئی۔ تینوں بھائی خوش ہو گئے تو بادشاہ گویا ہوا۔
“معاف کیجیئے گا، جب آپ لوگ کھانا تناول فرما رہے تھے تو میں پردے کے پیچھے موجود تھا اور بدقسمتی سے آپ تینوں بھائیوں نے جو کچھ کہا، وہ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ کیا آپ لوگوں کے پاس اپنے دعویٰ جات کی کوئی دلیل موجود ہے یا اسے آپکی بیوقوفی سمجھا جائے؟”
بادشاہ کا خیال تھا کہ تینوں بھائی اسکے پیروں میں گر جائیں گے اور زندگی کی بھیک مانگنے لگیں گے لیکن انکے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ملکہ عالیہ نے ٹوکنا چاہا تو بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کی تلقین کی اور عادل کیطرف دیکھا جس نے سر کو ہلکا سا داہنی طرف جھکایا اور یوں گویا ہوا۔
“میں نے جب روٹی کو شوربے میں ڈبو کر نکالتا تو وہ ٹوٹ کر واپس اس میں گر جاتی تھی جس سے مجھے پتہ چلا کہ جس کسی نے اسے پکایا ہے وہ ناپاک تھا۔۔”
فوراً نان بائی کو طلب کیا گیا اور اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ وہ حیض سے ہے اور کیونکہ ملکہ عالیہ آج ہی تشریف لائی ہیں لہذا باقی نان بائیاں حرم کے کھانے تیار کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔ تسلی ہوئی تو بادشاہ نے اسد کیجانب دیکھا تو اُسنے کہا،
“بکرے میں چربی گوشت کے اوپر کیجانب ہوتی ہے جبکہ پیش کردہ بکرے کی چربی نیچے کیطرف تھی اسلیئے میں نے کہا کہ اس بکرے نے غالباً کتیا کا دودھ پیا ہے۔”
ناظمِ گلہ کو بلوایا گیا تو اسنے بتایا کہ “مہمان خانے کیلئے آج جس بکرے کو ذبح کیا گیا اسکے پیدا ہونے پر اسکی ماں مر گئی تھی اور اتفاق سے اسی دن گلے کی نگہبان کتیاء نے بھی بچے دیئے تو یہ بکرا اسکے بچوں کیساتھ کتیا کا دودھ پیتا رہا ہے۔۔”
اب تو بادشاہ کا ماتھا ٹھنکا، اسنے نادر کیطرف دیکھا اور اسکا دایاں ہاتھ غیر ارادی طور پر قبضہِ تلوار پر چلا گیا جو نادر نے اسکی یہ حرکت بھانپ لی۔ وہ مسکرایا اور بولا
“ہم چھ دن سفر کر کے آپکے محل پہنچے تھے، بجائے اسکے کہ اپنے والد کے محسن وزیر بارے سن کر آپ فوراً ہمیں باریابی بخشتے، آپکے لوگوں نے ہمیں لباس، حمام، خوشبو اور طعام کے چکروں میں پہروں انتظار کروایا جبھی تو میں نے کہا کہ مجھے تو یہ بادشاہ کا اپنا بیٹا ہی نہیں لگتا کہ حلالی کہ اپنی جد سے نسبت سن کر کسی کو ایسے انتظار نہیں کروا سکتا۔۔”
آج تین دن ہو گئے ہیں کہ میڈیاء بالخصوص سوشل میڈیاء پر لوگ وزیر اطلاعات شبلی فراز کو انکے والد مرحوم احمد فراز کے ایسٹبلشمنٹ مخالف اشعار سنا کر یا پھر ان پر گرھیں لگا لگا کر وزیر موصوف کی سوئی ہوئی دُم کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر لاکھ نسبتیں دینے پر بھی شبلی صاحب کیطرف بالکل خاموشی ہے۔ فراز صاحب میں لاکھ عیب سہی لیکن آج بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے زندگی کے کسی موڑ پر حق بات سے روگردانی کی یا پھر وہ کہیں ظالم کی حمائیت میں کھڑے ہوئے ہیں۔
شومئیِ قسمت کہ ہمیں “پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں” سکھا کر خراب کرنے والے احمد فراز کا اپنا بیٹا آج انہی پیشہ وروں کا ماوتھ پیس بنا ہوا ہے اور انکے سارے کالے دھندوں کی پردہ پوشی کرنے پر معمور ہے۔ انکے وزیر بنتے ہی سرکاری ٹرولز کی ایک تازہ دم فوج اپوزیشن لیڈران اور انکے چاہنے والوں پر بااجازت چھوڑ دی گئی ہے اور وہ طوفانِ بدتمیزی بپاء ہے کہ لوگ چند ہی دنوں میں غفورا برگیڈ کی لغویات کو میٹھی گولیاں کہتے پائے گئے ہیں۔ صد افسوس لیکن مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ شبلی صاحب احمد فراز کے جنسی بیٹے تو کہلا سکتے ہیں مگر فکری وارث نہیں کیونکہ عملاً وہ اپنے باپ کے دشمنوں کے بوٹوں میں تشریف فرماء ہیں۔۔