ایجنٹی، چوبیس کروڑ پاکستانیوں کیلئے قومی کھیل کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ غلام طبیعت ہوں تو خاکی جبکہ دیگر منش نکلیں تو حسب روجھان بھارتی، ایرانی، افغانی، سعودی، روسی، امریکی یا پھر اسرائیلی ایجنٹ کہلاتے ہیں۔ ان تمام اقسام میں خاکی ایجنٹ نسبتاً بہتر درجے کے شہری ہیں جنکےسیاست، تجارت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کے امکانات روشن ترین ہوتے ہیں جبکہ دیگر قسموں کے ایجنٹ بھلے عوام کیلئے پھانسی جھُول جائیں انکی متنازعہ حیثیت کبھی نہیں جاتی۔ کیونکہ ایجنٹی کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والوں کی علمی استطاعت محدود ہے لہذا انہوں نے اس نیک کام کیلئے انتہائیعامیانہ اصول باندھ رکھا ہے۔ اگر متحارب پشتو اسپیکنگ ہے تو اسے افغانی ایجنٹ کہیں گے، اُردو اسپیکنگ ہے تو بھارتی، شیعہ ہو تو ایرانی، دیوبندی سلفی ہے تو سعودی، کمیونسٹ ہو تو روسی جبکہ روشن خیال ہے تو امریکی یا پھر اسرائیلی ایجنٹ کہہ کر اسے غیر سرکاری ڈیکلئر کر دیا جاتا ہےتا کہ خاکی کمپنی سے وابسطہ افراد کو اسے حسبِ حال گالی دینے میں آسانی رہے۔کیونکہ خاکی ایجنٹ ملکی وسائل پر بہ ذورِ بندوق قابض ہیں لہذا دیگر اقسام پر سیدھا سیدھا الزام یہ ھیکہ وہ ملکی وسائل کو افغانی، بھارتی، ایرانی، سعودی، روسی، امریکی یا پھر اسرائیلی ایجنڈوں کے تابع کرنے کے داعیہیں لہذا غدار ہیں۔ انکا شُکریہ کہ یہ غداری دائمی نہیں ہے اور جونہی ایجنٹوں کوئی قِسم خاکی مفادات تئیں لچک دِکھاتی ہے وہ پھُدک کر سرکاری کیمپ کا ناصرف حصہ بنتی ہے بلکہ کچھ سالوں کیلئے محدودہ بحدودِ خاکی اقتدار کے مزے بھی لُوٹتی ہے۔ ان ساری اقسام میں مذھبی ایجنٹ سب سے کایاں تاریخرکھتے ہیں اور ہر ہر دور میں کسی ناں کسی صورت خاکی مفادات کے امانت دار بنکر ڈوبتے اُبھرتے رہے ہیں۔ پچھلی دھائی میں غیر روائیتی ایجنٹوں کی ایک نئی قسم بھی مارکیٹ میں متعارف ہوئی ہے جسے سوشل میڈیا ایجنٹ کہتے ہیں۔
انکی تعداد ابھی سینکڑوں میں ہے مگر عالمی پزیرائی کے باعث یہ قسم سرکاریغیر سرکاری ایجنٹوں کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے اور رائے عامہ کو ہر دم متحارب اصولوں پر سرگرم رکھ کر جہاں خاکی ریشہ دوانیوں کو بینقاب کرتی ہے وہیں غیر سرکاری گروہوں کی بے اعمالیوں پر سوال اٹھا کر انہیں بھی متعون کرتی رہتی ہے جسکی وجہ سے انکی کسی بھی کیمپ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ سرکاریاور غیر سرکاری گروہ بالترتیب کھُلے اور ڈھکے چھُپے انداز میں انکی بیخ کنی کے درپے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رائے عامہ پر ان سوشل میڈیائی ایجنٹوں کی گرفت ختم ہو جائے تا کہ انکی بداعمالیوں یا بے عملی پر کوئی گرہ نہ لگا سکے۔کہتے ہیں یتیمی سے ظالم کچھ نہیں ہوتا، یہ بندے کو روڑے کیطرحگول کر دیتی ہے لیکن پاکستانی غلامی کا بظرِ غائر مشاہدہ بتاتا ہے کہ اسنے ہماری پوری نسل کو فکری اعتبار سے بانجھ کر دیا ہے۔ غلام ایجنٹوں کی کُلُ ھُم ساری اقسام اللہ سے زیادہ خاکی اقتدارِ اعلی کی قائل ہوتی جا رہی ہیں اور باقاعدہ جدوجہد نامی فاختہ کب کی ہوا ہو چُکی ہے۔ ہماری نسل کےغلام ابنِ غلام اپنے اپنے لیڈران کو لفظی موشگافیوں پر دادِ شجاعت دیکر حق ادا ہونے سے تعبیر کرنے پر ملکہ حاصل کیئے بیٹھے ہیں جبکہ سیاسی اشرافیہ کی ساری توجہ کا مرکز انکی اپنی منجی ہے جسکے چار میں سے تین پائے خاکی ایجنٹوں کی ٹیکوں پر کھڑے ہیں۔ نظامِ ملکی مقبوضہ ریاستوں کی طرز پربد شکلا جبکہ انسانی سوچ کی پرواز اپنے ہی گھر کے روشندان سے ٹکرا کر واپس زمین بوس ہو جاتی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق صرف اسوقت یاد آتے ہیں جب ذاتی مفادات پر قدغن آئے، دوجے گروہ پر بن آئے تو اول الذکر کے گھر میں میٹھے چاول پکتے ہیں۔کوئی زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی کو جماعت کی بجائےہجوم کہہ کر اسکے کارکن کی تذلیل کی جاتی تھی آج حالت یہ ہے کہ ایجنٹوں کے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ ہر کسی کی الگ ڈیڑھ اِنچ کی مسجد ہے جسمیں پیش امام کے گرد چاپلوس تہہ در تہہ حصار باندھے بیٹھے ہیں اور ایسا شدید حصار کہ پیش امام کو انکے چہروں یا آوازوں کے سوا کچھ دکھائی دیتا ہے نہہی سُنائی دیتا ہے۔۔ ایسے نچار خانے میں آواز لگانا بے مول ہے لہذا صاحبانِ غیرت و حُرمت مستور ہونے میں عافیت جان کر کونوں کھُدروں میں گھس بیٹھے ہیں اور تعویز گنڈا بھی انکے سکوت کو توڑنے سے قاصر ہے۔ حال ہی میں وادیِ ہنزہ کے ایک ساتھی سے آمدہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی پوزیشنبارے استفسار کیا تو معلوم پڑا کہ 1970 سے لیکر 2008 تک گلگت بلتستان میں ناقابلِ شکست رہنے والی پیپلز پارٹی کے آخری دور میں سرکردہ قبائلی عمائدین کو دھشتگردی کا لیبل لگا کر ساٹھ ساٹھ سال کیلئے جیلوں کا ایندھن بنا دیا گیا جسکے ری ایکشن میں مقامی لوگ بڑی تعداد میں پارٹی چھوڑ گئے ہیں۔میں نے اسکو اس مدعے پر پارٹی صفوں میں آواز اٹھانے کا کہا تو اس دوست نے تردد کا مظاہرہ کیا۔ میں نے کہا لوگوں کو بتاو کہ دھشتگردی عطاء کرنے کے کاپی رائٹ تو خاکی کمپنی کے پاس ہیں تو اسکے جواب نے مجھے ساکت ہی کر دیا، بولا
"بھائی، مجھے ابھی زندہ رہنا ہے۔ اگر ایسی آواز اٹھائی تو پارٹینے بھی لاتعلقی کر لینی ہے، لہذا خامشی بہتر ہے۔"
وہ ذوالفقار علی بھٹو جسکے لیئے معاشرے کے محروم ترین طبقات بھی اقتدارِ اعلی پر قابض خاکی فتنے سے بھِڑ گئے تھے، آج اگر اسکی جماعت کے عہدہ دار اپنے معصوم لوگوں کے حق کیلئے آواز اٹھاتے یہ یقین نہیں رکھتے کہ بھٹو شہید کے ورثاء انکےلیئے آگے آئیں گے تو یقیناً کچھ غلط ہو رہا ہے۔یہی نہیں، تمام سیاسی جماعتیں عوامی حقوق سے دست بردار ہو چکی ہیں اور ملکی سیاست خدمت سے زیادہ تکنیک کی پیروکار نظر آتی ہے۔ بظاہر اقتدار کا واحد راستہ پشاور روڈ راولپنڈی سے ہو کر گزرتا ہے لہذا ہر کسی نے سو رکعت نماز منہ طرف پنڈی شریفاللہُ اکبر کہہ کر نیت باندھی ہوئی ہے اور چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے، یہ دھیان ٹوٹنے میں نہیں آ رہا۔ انسانی و سیاسی آزادی کیلئے کوئی گروہ بھی لڑنے کو تیار نہیں اور یہی بے عملی ہماری آنے والی نسلوں کے غلام پیدا ہونے پر سند کرتی ہے۔
پرویز مشرف بیشک آج نو باڈی بن چکا ہے مگرآئینِ پاکستان بارے اسکی تشریح آج بھی Most Relevant ہے اور ماسوائے کاغذی پلندے یا ڈسٹ بِن کی زینت ہونے کے اسکی اوقات بساط کچھ نہیں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو ماورائے عدالت اغواء و قتل کیا جا رہا ہے، عورتوں بچوں کی عزت غیر محفوظ ہے اور لب کشائی فوراً اُٹھائی کے زمرے میںآتی ہے۔ ایسے ایجنٹ معاشرے میں جہاں سیاسی اقابرین کی کردار کُشی سُنتِ رسول کیطرح معتبر جبکہ جرنیلوں کے کاروباروں پر انگلی اٹھانا توھین صحابہ کیطرح واجب القتل جرم کہلاتا ہو، سیاسی نجات دہندوں کی نا اتفاقی بدمعاشیہ کے قبضہ کی ضمانت دار ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے قومی کی بجائے گروہی مفاداتکے تابع رہ کر غلام معیشتوں میں اپنے حصے کی حد تک لڑنے میں عافیت جانتے ہیں اور یک جُٹ ہو کر حتمی لڑائی کرنے سے اسلیئے بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے کھوکھلے پن کا مکمل ادراک ہوتا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی یہی بے عملی آج ملک گیر بے چینی کا باعث ہے اور جبتک عوامی مینڈیٹ کی حاملجماعتیں عوامی حقوق کیلئے لڑائی پر آمادہ نہیں ہوتیں، یہ پریشر بڑھتا رہے گا۔ بلاول بھٹو، ایمل ولی خان، مریم نواز اور منظور پشتین سمیت بلوچ نیشنلسٹ نوجوان قیادت کو اپنے اپنے بڑوں کی رہنمائی میں سر جوڑنے کی ضرورت ہے تا کہ آئینی حقوق کی جنگ کا آغاز کیا جا سکے۔ اگر عوامی مینڈیٹ کے حاملاقابرین جوں کے توں پر قانع رہے تو وہ وقت دور نہیں جب عوامی امنگیں، گروہی مفادات کو تیاگ نئے رستے ڈھونڈنے لگیں گی جو ان علاقائی جماعتوں کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ پیڈ سوشل میڈیاء ٹیموں سے میں میں کروانے سے بکرے بکریاں تو پیدا ہو سکتے ہیں،قربان گاہوں کو سجانے والے کارکن نہیں کیونکہہمارے لوگوں کو غلامی کی زنجیریں کاٹنے والے پھاوڑے برداروں کی ضرورت ہے پراپرٹی ڈیلروں کی نہیں۔ اس ایجنٹ کہانی کا انجام بالخیر عوام کے خ سُکھ چین اور مکمل آئینی آزادی میں مُضمر ہے اور سیاسی اشرافیہ کی بقاء بھی اسی سے جُڑی ہے۔ جو قیادت جتنی جلدی ہوش کے ناخن لے لیگی، اسکے اپنے مستقبلکیلئے اچھا ہے وگرنہ متحارب ایجنٹ اسپر سبقت لیجائیں گے۔ جدید دنیا میں قومیں گروہوں سے نہیں بلکہ گروہ اپنی قوموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ گروہی مفادات سے اوپر اٹھنے میں جو دیر کرے گا مارا جائے گا کیونکہ بقول راوی
"جنج(گروہی مفاد) جیڈی مرضی وڈی ہووے پِنڈ(قومی مفاد) نالوں وڈی نئیں ہُندی"