۱۹۲۷ء کی بات ہے کہ لکھن پور میں دو زمیندار رہتے تھے۔ ایک کا نام تھا امراؤ سنگھ، دوسرے کا دلدار خاں۔ دونوں بدیشی راج کے خطاب یافتہ تھے۔ امراؤسنگھ کو انگریزوں نے رائے صاحب بناکر نوازا تھا اور دلدار خاں کو خاں صاحبی دے کر ممتاز کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک میان میں دو تلوار، ایک مملکت میں دو سلطان اور ایک کچھار میں دو شیر نہیں رہتے۔ لیکن لکھن پور میں رائے صاحب اور خاں صاحب دونوں موجود تھے۔ دونوں خاندانی رئیس تھے۔ اگر رائے صاحب کئی سیڑھیاں پھاند کر رائے پتھورا سے ناتا جوڑتے تو خاں صاحب اللہ داد خاں شرقی صوبیدار تک کسی نہ کسی طرح اپنا سلسلہ پہنچاتے۔ دونوں کے مزاج میں گھمنڈ اور غرور تھا اور دونوں کو اس کی کد رہتی تھی کہ میری بات اور میری مونچھ اونچی رہے۔
لکھن پور بالکل یوپی کے دوسرے قصبوں کی طرح ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ آٹھ ہزار کے قریب آبادی تھی۔ دو چھوٹے چھوٹے بازار تھے کچے پکے مکانات، پھوس کے جھونپڑے، ناہموار کچی سڑک، تنگ غلیظ سے بھری گلیاں، ننگے بھوکے کسان و رعایا پرجا کے لڑکے، بازاروں سے جانوروں کے ریوڑ صبح شام گزرتے ہوئے، سوکھے، خارشت زدہ، بدقوم کتے ادھر ادھر لوٹتے ہوئے، بازار کی ہر چیز پر گرد کی چادر چڑھی ہوئی یا مکھیوں کی نشست و برخواست کی چھاپ پڑی ہوئی۔ قصبہ بھر میں صرف دو شاندار پختہ عمارتیں تھیں۔ بلند کرسی، بلند آستاں، وسیع صحن، بڑے بڑے کمرے، دالان، مردانے و زنانے حصے الگ الگ۔ بلند بلند دیواروں کے حلقے میں خانہ باغ۔ یہ تھیں کوٹھیاں دونوں مالکوں کی۔ ایک قصبہ کے پچھمی حصہ کی حدود دوسری پوربی حصہ کی۔ گویا قصبہ فرش تھا اور میرِ فرش تھے یہ دونوں مکان۔ پورب کا حصہ رائےصاحب دبائے ہوئے اور پچھم کا کونا خاں صاحب۔
لکھن پور کا بٹوارہ ہوگیا تھا۔ بازار، آبادی، کھیت باغ رائے صاحب اور خاں کے نام سرکاری کاغذوں میں الگ الگ لکھ گئے تھے۔ مگر ہر برسات میں کسی نہ کسی کھیت کی مینڈھ بڑھنے گھٹنے پر دونوں میں فوجداری ضروری تھی۔ ان دونوں کا نہ اپنا سر پھٹتا تھا، نہ ان کی ہڈیاں ٹوٹتی تھیں۔ گماشتے، کارندے رعایا پر جا آخر کر کس دن کام آتی۔ انھیں حق نمک تو ادا کرنا ہی تھا۔ اس لیے ان کی آویزش کے لیے معمولی بہانے بھی کافی تھے۔ کسان اکثر مشترک ہوتے۔ ایک ہی آدمی رائے صاحب کا کھیت بھی جوتتا، خاں صاحب کا بھی۔ اگر خاں صاحب کے حصے میں بسے ہوئے اسامی پر رائے صاحب نے دعویٰ کیا یا رائے صاحب کی رعیت پر خاں صاحب نے بقائے لگان کا مقدمہ دائر کیا تو زمیندار اور کسان میں مقدمہ بازی نہ ہوتی بلکہ زمیندار زمیندار میں۔ دونوں کو فوجداری کرنے اور دست گریباں ہونے کے لیے بس حیلہ چاہیے تھا۔
خاں صاحب کو اس کا گھمنڈ تھا کہ لکھن پور ہی نہیں بلکہ آس پاس کے سارے گاؤں بھی ۱۸۵۷ء کے پہلے تک ان کے بزرگوں کی ملکیت میں تھے۔ ان کے دادا نےہندوستان کی سب سے پہلی کوشش آزادی میں زور و شور سے حصہ لیا اور انگریزوں نے اس کی پاداش میں سوائے لکھن پور کے سب کچھ ان سے چھین کر رائے صاحب کے بزرگوں کو اس لیے دے دیا کہ انھوں نے بدیشی حاکموں کا ساتھ دیا۔ رائے صاحب کو اس کا گھمنڈ کہ ان کاخاندان حکومت کی نظر میں مقبول و ممدوح ہی نہ تھا بلکہ اس کی اکثر فردیں اچھی اچھی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں اور وہ خود خطاب سے سرفراز کئے گئے تھے۔ ضلع کے حکام ان کے ہاں اکثرآتے رہتے تھے اور ہر نیا کلکٹر ان کے ہاں ایک بار دعوت کھانے ضرور آتا۔ خاں صاحب کو یہ عزت حاصل نہ تھی۔
انھیں یہ بات بہت کھلتی تھی اس لیےجنگ عظیم میں انھوں نے رائے صاحب سے دگنا چندہ دیا اور دگنے سپاہی بھرتی کرائے۔ امراؤ سنگھ کو رائے صاحبی ملی، ان کو خاں صاحبی۔ مگر باوجود اس نئی سرفرازی کے خاں صاحب کا انگریزی سرکار میں وہ مان دان نہ تھا جو رائے صاحب کا تھا۔ اس کی دو وجہیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ ہر نیا کلکٹر کام سنبھالتے ہی وہ خفیہ نوٹ ضرور پڑھ لیتا جو اس کے پیش رو ضلع کی نمایاں شخصیتوں اور خاندانوں کے متعلق لکھ گیا تھا۔ ان میں خاں صاحب کا خاندان مشتبہ اور رائے صاحب کے گھروالے وفادار، لکھے تھے۔ دوسرے یہ کہ خاں صاحب کے خاندان میں اب تک انگریزی تعلیم کا چلن نہ تھا۔ ان کے ہاں یہی دستور تھا کہ تھوڑی سی عربی فارسی پڑھ لی، ادب تہذیب سیکھ لی اور شریفوں کی صحبت میں بیٹھنے کے قابل ہوگئے۔ بس اتنا کافی تھا گھر پر کھانے کوموجود ہی تھا کسی کی نوکری نہیں کرنا تھی۔ رائے صاحب کے خاندان میں بی-اے، ایم-اے کا زور تھا۔ کوئی تحصیلدار تھا۔ کوئی ڈپٹی کلکٹر، کوئی وہیں ضلع کچہری میں مختار یا وکیل۔ غرض ایک گرتا ہوا، مٹتا ہوا خاندان تھا۔ دوسرا ابھرتا ہوا، بڑھتا ہوا گھرانا۔ مگر مونچھوں کی لڑائی جاری تھی۔ خاں صاحب کے بھرے بھرے گالوں پر تھیں بھی وہ خاصی بڑی بڑی اور نوکیلی۔ بھلا وہ کیسے جھک سکتی تھیں۔ رائے صاحب نے کرزئی ریت پر عمل کیا تھا۔ وہ صفاچٹ تھے۔ روز داڑھی کے ساتھ ساتھ ان پر استرہ چلتا تھا، مگر مونچھوں کاخال دم کے ساتھ تھا۔ اسی لیے دونوں باوجود پچاس کے قریب ہونے کے ہر وقت ایک دوسرے کو نوچنے کاٹنے اور بھنبھوڑنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ بس یہی فکر کہ کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ دوسرے کی ناک کٹ جائے۔ اور ہماری بات اونچی رہے۔ ان کی آپس کی رنجش ادھر اس لیے اور بھی بڑھ گئی تھی کہ ایک گڑہیا پر بڑا سخت جھگڑا ہوگیا تھا۔ پچھلی برسات میں مہتو گڑہیا خوب بڑھی تھی۔ اس نے رائے صاحب کے کھیتوں کی تقریباً نصف بیگہ زمین اپنے پیٹ میں رکھ لی تھی۔ گڑہیا لکھی تھی خاں صاحب کے حصے میں اور وہی سالہا سال سے اس کی ساری سائر وصول کرتے تھے۔ اس کی مچھلیاں پکڑی جاتیں تو انھیں کے لیے۔ اسمیں سنگھاڑے ڈالے جاتے تو انہیں کی اجازت سے اور اس سے آبپاشی کے لیے پانی لیا جاتا تو انھیں کے حکم سے۔ اب جو رائے صاحب کے کھیت گڑہیا میں بہہ کرمل گئے تو وہ بھی سائر میں حصہ بٹانے کے خواہش مند ہوئے۔ خاں صاحب نے کہا ’’سبحان اللہ۔ یہ تو اللہ کی دین ہے۔ گڑہیا میری ہے۔ وہ جتنی بڑھے، جدھر بڑھے میری ہی رہے گی۔ کہہ دو کسی اور گڑہیا میں منھ دھو رکھیں! حصہ بخرا کیسا؟‘‘ جب وہ زیادہ غرائے تو یہ فوجداری کے لیے آمادہ ہوگئے۔ بارے انہوں نے خون کی ندی نہ بہائی بلکہ مقدمہ دائر کردیا۔ کاغذات کی چھان بین ہوئی تو کھیت رائے صاحب کے بے شبہ نکلے، مگر گڑہیا خاں صاحب کی مقبوضہ ثابت ہوئی۔ اور اسی قبضہ کی بناپر بورڈ تک سے رائے صاحب ہارے اور خاں صاحب جیتے۔اس جیت پر جس طرح خاں صاحب کے ہاں چراغاں کیا گیا، خوشیاں منائی گئیں، اسی طرح رائے صاحب کے ہاں رنج کیا گیااور سوگ منایا گیا۔ لگانے بجھانے والوں نے اس آگ کو خوب خوب بھڑکایا۔ رائے صاحب کو ہر وقت یہ فکر دامنگیر رہنے لگی کہ کون سا موقعہ ہاتھ آئے کہ میں خاں صاحب کو اس طرح کی زک دوں کہ انھیں چھٹی کا دودھ یاد آجائے۔ اتنا ذلیل ہوں کہ مونچھ پر تاؤ دینا ہی نہ بھول جائیں بلکہ ساری ہیکڑی خاک میں مل جائے۔
اتفاق سے اسی زمانے میں خاں صاحب کی چھوٹی بیٹی کی برات آئی۔ دوسرے ضلع کے ایک مشہور رئیس کے لڑکے سے بات ٹھہری تھی۔ لڑکا تعلیم یافتہ بھی تھا اور منصفی کے لیےنام زد بھی ہوچکا تھا۔ خاں صاحب کے خاندان میں یہ پہلا حاکم آنےوالا تھا۔ اس لیے ادھر جتنی خوشی، رائے صاحب کے ہاں اتنی ہی جلن کہ ’’لو اب ان کے ہاں بھی سرکار میں رسوخ کا وسیلہ پیدا ہوا‘‘۔
پرانے دستور کے مطابق خاں صاحب نے گھر گھر نیوتا بھیجا تھا۔ نہیں پوچھا تھا تو ایک رائے صاحب کو۔ بہت دنوں سے شادی بیاہ میں آنا جانا بند تھا۔ اس وقت جب کہ کھیت والے مقدمہ کی وجہ سے زخم ہرے تھے،اگر وہ پوچھتے بھی تو یہ اس نوید کو زخم پر نمک چھڑکنا سمجھتے۔ اس لیے وہ تو خوشی میں بھولے رہے اور یہ شریک نہ ہونے کے مصمم قصد کے باوجود نہ پوچھے جانے پر دل میں کڑھتے رہے۔
برات بڑی شان سے آئی۔ ہاتھی بھی تھے۔ گھوڑے بھی تھے۔ روش بھی تھی، آتشبازی بھی تھی، بینڈ بھی تھے۔ براتیوں میں بڑے بڑے رئیس، مشہور بیرسٹر، وکیل، مختار، ایک ڈپٹی کلکٹر، دو تحصیلدار کئی داروغہ بھی تھے۔
برات کے اتارنے کے لیے قصبہ کے باہر، بڑی املی کے درخت کے نیچے شامیانہ تانا گیا تھا۔ کئی خیمے اور راؤٹیاں لگادی گئی تھیں۔ وہیں ان لوگوں نے سرشام آکر آرام کیا، نہایا دھویا، کپڑے بدلے، چائے پی اور برات کے لیے تیار ہوئے۔ بڑی املی سے لے کر خاں صاحب کی کوٹھی تک کی کچی سڑک خاص طور سے ہموار کی گئی تھی اور پانچ پانچ گز پر دور روپیہ ہندے گاڑے گئے تھے۔ رات کو دن بنایا گیا تھا۔ کوٹھی میں جھنڈیاں، قندیلیں، کنول، گیسیں، ہار پھول، بیلیں، سارے سامان آرائش و زیبائش لگاکر اسے دلہن کی طرح سجادیا گیا تھا۔ بینڈ بجاتی انار چھوڑتی جب شان و شوکت سے برات کوٹھی میں چٹھائی کے لیے آئی تو سارے قصبہ نے مہمانوں کے خیر مقدم میں حسب حیثیت حصہ لیا۔ اس مجمع میں رائے صاحب کے مختار عام ہمت رائے بھی تھے۔ کچھ تو وہ گاؤں کی ریت نباہنے آئے تھے، کچھ یہ خیال تھا کہ برات، نکاح، کھانا، دان جہیز، سب کچھ بغور دیکھیں گے اور ان میں قابل اعتراض پہلو ڈھونڈ کر اپنے مالک کو سنائیں گے اور انھیں حریف پر ہنسنے کا موقع دیں گے۔ یہاں پیٹھائی میں فقرہ بازیاں بھی ہوئیں، ضلع جگت سے بھی کام لیا گیا اور خواہ مخواہ براتیوں کی صورت شکل پر قہقہہ بھی لگایا گیا۔ دولہا کے گھوڑے سےاترتے ہی دونوں طرف والوں نے اس کی جگہ گھوڑے کی پیٹھ پر سب سے پہلے بیٹھ جانے کی کوشش کی۔ لکھن پور کاایک جوان اس میں بازی لے گیا۔ گھراتی تالیاں بجابجاکر خوب ہنسے۔ جب دولہا مسند پر بیٹھ چکا تو دلہن والوں کی طرف سے خلعت پہنایا گیا اور قاضی جی اندر جاکر دلہن کی رضامندی لے آئے۔ اب انھوں نے دولہا سے آہستہ سے پوچھا کہ اتنے مہر پر فلاں بی بی سے نکاح منظور ہے۔ دولہا نے مہر کی رقم سنتے ہی صاف صاف انکار کردیا۔
پہلے تو اسے لوگ رسمی روکد سمجھے۔ مگر جب بار بار پوچھنے پر دولہا ’’نہیں نہیں‘‘ کہتا گیا تو باپ کو رجوع کیا گیا، انہوں نے پوچھا کتنا مہر مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ بتایا کہ خاں صاحب کے خاندان میں صدیوں سے پچپن ہزار کا دستور چلاآتا ہے اور اسی پر اصرار ہے۔ انھوں نےکہا میں ایسے ناہنجار دستور وستور کا قائل نہیں۔ غرض اب بات بڑھی! بااثر لوگوں نے دونوں طرف سمجھانے کی کوشش کی مگر ان کی ضد تھی کہ ہم پانچ سو ایک سے ایک پیسہ زائد نہ دیں گے۔ ادھر سے یہ کہہ کر پچپن کے پونے پچپن ہزار نہ ہوں گے۔ اس سے خاندانی وقار کو ٹھیس لگتی ہے، عورتوں کو طرح طرح کے وہم ہوتے ہیں۔ انھیں باتوں میں تیز تیز فقروں نے اور آپس کی نوک جھونک نے آگ لگائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دولہا کے باپ بول اٹھے، ہماری ڈال ہمیں واپس کیجیے، ہم برات پلٹا لے جائیں گے۔
اب تو پورا قصبہ برہم ہوگیا۔ لکھن پور کی ناک کٹ گئی۔ برات چڑھ کر آئی، لڑکی مایوں بیٹھ گئی۔ وہ بغیر بیاہ کے باہر کیسے نکلے گی۔ دوسرے گاؤں والے طرح طرح کے نام دھریں گے۔ بس سارے گھروں سے لاٹھیاں نکل آئیں۔ آج براتیوں کی لاشیں ہی قصبہ سے اٹھ کر جائیں گی۔ اب تو ڈپٹی صاحب بھی گھبرائے، تحصیلدار صاحبان بھی اور داروغہ جی بھی لیکن خاں صاحب نے خلاف معمول بڑی سوجھ بوجھ سے کام لیا۔ انھوں نے قصبہ والوں کو روکا، سمجھایا، یہ لوگ ہمارے مہمان ہیں، انھیں گاؤں سے صحیح سلامت واپس جانے دو۔ اسی میں ہماری بات اونچی رہے گی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ایک ایک چیز گنواکر سارے مجمع کے سامنے واپس کی۔ پھر ایک ایک سےخوشامد کی کہ نکاح نہیں ہوا، نہ سہی۔ لڑکی میں کوئی عیب نہیں، اللہ اس کو دوسرا بر دے گا۔ مگر کھانا تیار ہے۔ اسے کیوں برباد کیجیے۔ کھانا کھا لیجیے۔ مگر براتیوں نے ایک نہ سنی۔ سب یوں ہی بھوکے جائے قیام پر پلٹ گئے۔ لاری میں، موٹروں میں سامان رکھے جانےلگے۔
ہمت رائے ہنستے، کھل کھلاتے، رائے صاحب کے یہاں پہنچے وہ ابھی رسوئی سےاٹھے تھے اور حقہ پی کر بستر پر آرام کے لیے جانے والے ہی تھے۔ ہمت رائے نے کھیسیں نکال کر کہا۔
’’مبارک ہو سرکار۔ لیجیے، بھگوان نے خاں صاحب کو آج اتنا ذلیل کردیا کہ اب وہ زندگی بھر سر نہیں اٹھا سکتے۔ برات دروازے پر چڑھ کر واپس گئی۔‘‘
رائے صاحب نےایک ایک بات پوچھی۔ چہرے پر مسکراہٹ دوڑ رہی تھی کہ دفعتاً سات برس کی موہنی دوڑی دوری باہر آئی۔ ’’بابوجی! بابوجی! گھر میں آئیے، دیدی بلاتی ہیں۔‘‘ بیٹی پر نظر پڑتے ہی رائے صاحب کی ہنسی غائب ہوگئی۔ وہ سناٹے میں آگئے۔ موہنی سے کہا ’’اچھا تو چل، میں آتا ہوں۔‘‘ مگر اندرنہ گئے۔ اٹھ کر ٹہلنے اور کچھ سوچنے لگے۔ ہمت رائے باتوں کی جھڑی لگائے رہے۔ اسی سلسلے میں یہ بھی کہہ گئے کہ ’’اب تو کوئی عزت والا خاں صاحب کی اس لڑکی کو پوچھے گا بھی نہیں۔‘‘
رائے صاحب ایک بار گرج پڑے۔ ’’کیا بکتے ہو، جیسی میری منوہنی، جیسی تمہاری بیٹی، ویسی ہی ان کی لڑکی۔ گاؤں بھر کی ناک کٹ جائے گی اور تم ہو کہ بغلیں بجارہے ہو!‘‘
ہمت رائے نے ’’جی! جی‘‘ کہا اور سٹ پٹاکر خاموش ہوگئے۔ رائے صاحب نے آدمی کو آواز دی۔ اچکن منگواکر پہنی، سر پر منڈیل رکھی اور ہمت رائے سے بولے ’’دیکھو، میرے سارے آدمیوں کو بلاؤ کہ لاٹھیاں لے کر ساتھ چلیں۔‘‘
تھوڑی دیر میں ایک آدمی لالٹین لیے آگے آگے اس کے پیچھے رائے صاحب اور ان کے پیچھے تقریباً بیس آدمی لاٹھیاں لیے ہوئے اس شان سے یہ دوسرا جلوس برات کی قیام گاہ پر پہنچا۔ گاؤں والے پہلے ہی سے موجود تھے۔ رائے صاحب کو دیکھتے ہی سب ان کے ساتھ ہولیے۔
رائے صاحب نے آہستہ سے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ برات کو گھیرلو اور خود سمدھی صاحب کی طرف متوجہ ہوئے۔ سمدھی صاحب کو غصہ اس لیے اور بھی زیادہ تھا کہ ان کے سارے براتی بھوکے تھے۔ خاں صاحب کے ہاں کھانے سے انکار کرکے تو چلے آئے تھے مگر اب آنتیں قل ہو اللہ، پڑھ رہی تھیں۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ قصبہ کے سارے بازار دوکانیں بند تھیں اور کھلی بھی ہوتیں تو شاید ان کو ایک کھیل بھی نہ ملتی۔ یہ دوکاندار کھانا مہیا کرنے کی جگہ جوتے ڈنڈے سے ضیافت کرنے کے لیے تیار تھے۔
رائے صاحب نے ان کو سلام کرکے پوچھا ’’آپ ہی لڑکے کے والد ہیں!‘‘
وہ جھنجھلاکر بولے ’’جی ہاں، میں ہی ہوں، آپ کا کیا نام ہے؟‘‘
رائے صاحب نے بہت ملائمت سے کہا ’’جی! مجھ کو امراؤ سنگھ کہتے ہیں!‘‘
وہ ان کی اور خاں صاحب کی عداوتوں کے حال سے اچھی طرح واقف تھے۔ خاں صاحب اب ان کے بھی دشمن تھے۔ اس لیے بہت خوش ہوکے بولے۔
’’رائے صاحب! واللہ خوب ملے!! اجی آپ ہی کو تو آنکھیں ڈھونڈ رہی تھیں۔ ابھی ابھی ڈپٹی نصراللہ خاں صاحب، تحصیلدار موہن سنگھ اور بخت بہادر کوتوال یہی کہہ رہے تھے کہ شاید رائے صاحب کو ہمارے آنے کی خبر نہ ہوئی ورنہ ہمیں اس طرح کی تکلیف نہ ہوتی!‘‘
رائے صاحب نے کہا ’’جی یہ ان کی اور آپ کی عنایت ہے۔ مگر آپ لوگوں کو تکلیف کیا ہے؟ یہ معلوم نہ ہوا۔ کیا خاں صاحب نے آؤ بھگت میں کوئی کمی کی۔ شامیانہ، خیمے، روٹیاں سب تو موجود ہیں۔ کھانا بھی میں نے سُنا کہ انھوں نے بڑا اہتمامی پکوایا ہے۔ شہر کے حلوائیوں کے علاوہ بنارس سے کشمیری پکانے والے ہندوؤں کے اور لکھنؤ کے باورچی مسلمانوں کے لیے بلوائے ہیں۔‘‘
وہ بولے۔ ’’اجی وہ آئے ہوں گے سب، مگر ہم تو یونہی بھوکے جارہے ہیں۔‘‘
رائے صاحب نے کہا ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ خاں صاحب کے چچازاد بھائی منّو خاں کی طرف پلٹ پڑے۔ ’’کیا آپ نے اپنے مہمانوں کو کھانا نہ کھلایا۔‘‘
منو میاں نے کہا۔ خاں صاحب نے خود ان لوگوں سے فرداً فرداً کہا کہ برات شوق سے واپس لے جائیے مگر کھانا کھا لیجیے۔ ان لوگوں نے مانا ہی نہیں۔
سمدھی صاحب بولے۔ ’’اجی، ہم خاں صاحب کے ہاں کا ایک دانہ بھی منہ میں ڈالنا اب حرام سمجھتے ہیں۔‘‘
رائے صاحب نے تیور بدل کر کہا ’’تو جناب ان کے علاوہ اس وقت اس قصبہ میں کوئی دوسرا آپ کو ایک دانہ بھی نہیں کھلا سکتا۔‘‘
سمدھی صاحب نے گھبراکر کہا ’’تو یہ کہیے کہ آپ بھی انہیں لوگوں میں شامل ہوگئے۔‘‘
رائے صاحب بولے ’’جنابِ من، وہ خاں صاحب کی لڑکی ہو، یا میری، یا نتھو بھنگی کی وہ گاؤں بھر کی بیٹی ہے۔ آپ سمجھتے ہیں آپ صرف خاں صاحب کی ذلّت کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ آپ سارے گاؤں کی ناک کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
سمدھی صاحب جھلاکر بولے۔ ’’تو رائے صاحب جس کی بھی ناک کٹے، ہم تو جارہے ہیں۔‘‘
رائے صاحب نے کہا ’’جی بڑے شوق سے تشریف لے جائیے، مگر ایک تحریر دے دیجیے۔‘‘
انھوں نے دیدے نکال کر پوچھا ’’کیسی تحریر؟‘‘
رائے صاحب نے کہا ’’جی یہی کہ آپ جتنی چیزیں ساتھ لائے تھے وہ سب آپ نے واپس پائیں اور بسلامتی جان و مال یہاں سے واپس جارہے ہیں۔‘‘
سمدھی صاحب نے غرّاکر پوچھا ’’اور اگر تحریر نہ دیں تو؟‘‘
رائے صاحب نے مجمع کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’تو آپ خود ہی سمجھ لیں کہ آپ یہاں سے کیسی صورتیں لے کر جائیں گے!‘‘
سمدھی صاحب بھڑک اٹھے۔ ’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘
رائے صاحب نے کہا۔ ’’کچھ نہیں۔ بس یہ کہ ہم سب چھوٹے آدمی ہیں۔ ہماری عقلیں بھی چھوٹی ہیں اور ہمارا پیمانۂ صبر بھی چھوٹا ہے۔ اس لیے اگر ہم اپنی ذلّت برداشت نہ کرسکیں تو ہم پر زیادہ تعجب کی گنجائش نہیں۔‘‘
سمدھی صاحب چیخ پڑے۔ ’’تو جناب آپ ہمیں دھمکاکر تحریر لکھوانا اور ہمیں قانون کے شکنجے میں پھنسانا چاہتے ہیں۔ یہ تو نہ ہوگا۔‘‘
ان کی آوز جو بلند ہوئی تو براتی سمٹ آئے۔ ڈپٹی نصراللہ نے بڑھ کر پوچھا ’’کیا معاملہ ہے رائے صاحب؟‘‘
رائے صاحب نے کہا ’’کچھ نہیں ڈپٹی صاحب۔ میں سمدھی صاحب سے ایک تحریر مانگ رہا تھا، اسی پر وہ چراغ پا ہوگئے۔ اب آپ لوگ انھیں سمجھائیے۔ آپ قصبہ والوں کے تیور دیکھ رہے ہیں پھر اس پر بھی غور فرمائیے کہ براتیوں میں آپ سرکاری ملازم بھی شامل ہیں۔ اگر یہ اپنی بات پر اڑے رہے تو آپ لوگ بھی ان کے ساتھ پہلے اسپتالوں میں جائیں گے پھر دوسروں کی کچہریوں میں!‘‘
سرکاری افسران جلدی سے سمدھی صاحب کو الگ لے گئے۔ انہیں بہت کچھ سمجھایا بجھایا۔ اپنی شرکت کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ بالآخر ڈپٹی نصراللہ نے فیصلہ سنایا۔ برات خاں صاحب کے ہاں واپس جائے گی۔ اور نکاح پچپن ہزار ہی پر ہوگا۔ اور پھر بینڈ بجاتی برات واپس ہوئی۔ رائے صاحب بڑے پھاٹک تک ساتھ ساتھ آئے مگر وہاں سے اپنے آدمیوں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف مڑگئے۔
خاں صاحب کو جب معلوم ہوا کہ رائے صاحب نےگاؤں کی لاج رکھ لیح، مگر پھاٹک سے پلٹ گئے تو وہ قاضی صاحب کو روک کر بولے ’’ٹھہر جائیے! نکاح ابھی نہیں ہوگا۔‘‘ اور جلدی سے کوٹھی سے نکل گئے۔ لوگ گھبرا گھبراکر ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے۔ یا اللہ اب کون سا نیا فتنہ کھڑا ہوا۔ براتی ڈرے کہ کہیں گھر میں بند کرکے مرمت کرنے کا ارادہ تو نہیں۔ گھراتی پریشان کہ خاں صاحب کو کیا بات ناگوار ہوئی کہ اندھیری رات میں یوں تن تنہا چل دیے ، دو ایک ان میں سے پکارتے ہوئے پیچھے دوڑے۔ مگر خاں صاحب بالکل خاموش لپکے ہوئے سیدھے رائے صاحب کے مکان کی طرف بڑھے چلے گئے۔ وہ گردن جھکائے کچھ سوچتے ہوئے لالٹین کی روشنی میں چلے جارہے تھے کہ خاں صاحب جاکر لپٹ گئے۔ وہ رائے صاحب کی گردن میں باہیں ڈال کر مشکل سے یہ کہہ سکے۔
’’بھائی امراؤ سنگھ! میرا قصور معاف کرو۔ چل کر اپنی بیٹی بیاہ دو!‘‘
تھوڑی دیر بعد براتیوں، گھراتیوں کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ آگے آگے لالٹین لیے آدمی ہے اور اس کے پیچھے رائے صاحب اور خاں صاحب ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے چلے آرہے ہیں۔
دالان میں پہنچ کر خاں صاحب نے رائے صاحب کی طرف ایک ملتجیانہ نگاہ سے دیکھا۔ رائے صاحب نے گلوگیر آواز میں کہا۔
’’قاضی صاحب نکاح پڑھیے۔‘‘ اور دونوں کے گالوں پر موتی ڈھلک آئے۔