ولی رضوی سے تصدق سہیل تک
دو دن قبل اردو صحافت کے بہت ہی سینئیر صحافی اور سچے لیفٹسٹ ولی رضوی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ۔پاکستان کے اس عظیم درویش لبرل صحافی نے انچاس سال تک مسلسل صحافت کی ۔وہ 1968 سے مسلسل صحافت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک درویش ،فقیر صفت انسان تھے ،انتہائی بے چین قسم کی طبعیت کے حامل تھے ،اس لئے انہیں بے چین روح بھی کہا جاتا تھا ۔ایوب خان کے مارشل لاٗ کے خلاف طلباٗ تحریک کے سرگرم رکن تھے ۔ہمیشہ تمام آمروں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ،لبرل اور روشن پاکستان کی تحریک میں صف اول کے کارکن تھے ۔پاکستان کو ایک انسانی ریاست کے طور پر دیکھنے کے متمنی تھے ۔ولی رضوی کا جھکاو ہمیشہ لیفٹ کی طرف رہا ۔وہ بائیں بازو کے خیالات سے مزین تھے ،انہیں لیفٹ کی تحریک کا درویش بھی کہا جاتا ہے۔پریس کلب کے عہدیدار رہے ،ہنس مکھ انسان تھے ،ہمیشہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر عیاں رہتی تھی ۔ستر سال کی عمر میں بھی ولی رضوی سرگرمی سے زندگی گزار رہے تھے ۔ایک اخبار تھا جس کا نام مشرق تھا ،پہلے اس سے وابستہ رہے ،اس کے بعد روزنامہ جنگ سے منسلک رہے ،روزنامہ ایکسپریس میں بھی زمہ داریاں سرانجام دیتے رہے ۔کئی نیوز چینلز سے بھی وابستہ رہے ۔فقیر آدمی تھے ،اوپر سے بائیں بازو سے تعلق تھا ،اس لئے پیسہ نہیں کمایا ۔آخری دنوں میں شاعری کرنا بھی شروع کردی تھی،اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں ان کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے ۔ایک درویش انسان ،اچھے صحافی اور اعلی پائے کے کالم نگار کے طور پر انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔یہ تو تھی ولی رضوی کی کہانی ،اب میں آپ کو ایک اور انسان کی کہانی سناتا ہوں ،جن کا تین دن پہلے انتقال ہو گیا تھا ۔معروف مصور اور کہانی کار تصدق سہیل ستاسی سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ان کا تعلق جالندھر سے تھا ،پھر یہ لاہور آئے اور اس کے بعد کراچی کے ہو کر رہ گئے ۔بنیادی طور پر ان کا تعارف یہ ہے کہ وہ ایک کہانی کار تھے ،ایک خواب گر یا ڈریمر تھے ،انہیں قصہ گو کا خطاب بھی دیا گیا تھا ۔ایک دن اچانک بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ انہیں تو مصور ہونا چاہیئے ۔پھر کیا تھا مصوری سیکھنے انیس سو اکسٹھ میں لندن چلے گئے ۔پھر قصہ گو سے مصور ہو گئے ۔ایسی ایسی پینٹنگز تخلیق کی کہ دنیا حیران رہ گئی ۔ان کی پینتگز کی نمائش دنیا کی بڑی بڑی آرٹ گیلریوں میں ہو چکی ہے ،درخت ،غار ،پرانے قلعے ،پانی ،مچھلی ،جنت اور دوزخ اس طرح کے رنگ اور افسانوی خیالات ان کی پینٹگز میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔لیجنڈ مصور پکاسو ان کے پسندیدہ ترین مصور تھے ۔تصدق سہیل بھی ایک دلچسپ انسان تھے ،کہا کرتے تھے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیئے ،اگر جھوٹ بولنا ہے تو وہ بہت بڑا ہو،کیونکہ چھوٹا موٹا جھوٹ ہمیشہ پکڑا جاتا ہے۔کہا کرتے تھے کہ آرٹ کو پرندے کی طرح آزاد ہونا چاہیئے ،وہ آزاد ہوگا تب ہی وہ عظیم ،بے مثال اور حقیقی طور پر تخلیقی ہوگا ۔کہا کرتے تھے کہ وہ اس دنیا کو ایک کم سن بچے کے خوابوں کی طرح دیکھتے ہیں ،اس لئے انہیں اس دنیا سے محبت ہے ۔ایک افسانوی اور خیالی انسان تھے ،جنہیں خوبصورت خواتین بہت پسند تھی ۔یہ تو تھی تصدق سہیل کی کہانی اور آخر میں ایک شعر کہ ۔۔۔۔۔۔چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار،میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے ۔۔۔۔خدا حافظ ۔۔کل پھر ملیں گے ۔۔۔۔۔۔ویسے عجیب دور آگیا جب تمام بڑے بڑے فنکار خاموشی سے دنیا کو چھوڑ کر جارہے ہیں ،ہر طرف بونوں کا راج ہے ،افسانوی انسان جو پہلے ہی اس معاشرے میں کم ہیں ،جلدی سے دوسری دنیا کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں ۔یہ بھی معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ جہاں لیجنڈز کی موت ہورہی ہے اور بونے راج کررہے ہیں ۔تصدق سہیل انتقال سے قبل اپنی کتاب دی ڈریم ویور شائع کرنا چاہتے تھے ،اتنی جلدی تھی کہ کتاب بھی شائع نہ ہوسکی ،معلوم نہیں اب یہ کتاب شائع ہوگی بھی یا نہیں ۔تصدق سہیل شادی جیسے انسٹی ٹیوشن کے خلاف تھے ،کہا کرتے تھے شادی انسان کی اندر کی دنیا تباہ کردیتی ہے ،اس لئے ستاسی سال تک وہ غیر شادی شدہ ہی رہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔