راتکو ملادویچ ۔۔۔۔۔۔۔
1992 سے 1995 کا زمانہ بوسنیا کے مسلمانوں اور کروشین عوام کے لئے خونی تھا ،اس زمانے میں سرب انتہا پسندوں اور نسل پرستوں نے لاکھوں انسان قتل کردیئے تھے ،کہا جاتا ہے کہ اس انیس سو بیانوے سے انیس سو پچانوے کے دوران دس لاکھ انسان نسل پرستی ،تعصب اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر قتل کئے گئے ۔1992 میں جب بوسنیا ہرزگووینا کے مسلمانوں کی نسل کشی جاری تھی،اس زمانے میں ٹائم میگزین پر ایک تصویر شائع ہوئی تھی ،اس تصویر میں بھوک ،پیاس اور تشدد زدہ ننگے انسان کھڑے ہیں ،تصویر میں جو انسان سب سے نمایاں نظر آتا ہے،اس کا نام فکرت علیج ہے ،بوسنیا کے اس مسلمان نے 25 سال بعد ہیگ میں اقوام متحدہ کے ٹریبونل کے سامنے اس مرکزی کردار کا انجام دیکھا جس کی وجہ سے لاکھوں انسان قتل ہوئے ۔ بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے مرکزی کردار کا نام ratko mladicراتکو ملادوچ ہے،گزشتہ روز ہیگ میں اقوام متحدہ کے ٹریبونل نے اس درندے کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے ۔اس وحشی درندے کو بوسنیا کا قصاب یعنی بچڑ آف بوسنیا Butcher of Bosnia بھی کہا جاتا ہے ۔فکرت علیج کا کہنا ہے کہ آج اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے لاکھوں انسانوں کے قاتل کو دیکھا اور یہی اس کی خواہش تھی کہ وہ اس درندے کا خوفناک انجام اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے ۔راتکو ملادویچ کی کہانی شروع ہوئی 1992 میں ،نوے کی دہائی میں ایک ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ،اس ریاست کا نام تھا یوگو سلاویہ ،اس سے پانچ نئے ملک نکلے ،ان میں سے کروشیا ،سربیا اور بوسنیا تین اہم ملک بنے۔بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ کروشیا اور سربیا کے پاس فوج اور اسلحہ نہ تھا ،لیکن سربیا کے پاس لاکھوں تربیت یافتہ فوج اور بے تحاشا اسلحہ و گولہ بارود تھا ۔سربیا نے کروشیا اور بوسنیا پر حملہ کردیا ،ان نئے ملکوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی ،جس کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کی نسل کشی کی گئی ،اب آتے ہیں راتکو ملادویچ پر ،یہ سربیا کا وار لارڈ تھا ،اس نے سربیا کی سرحد پر دس سے پندرہ ہزار بوسنیا اور کروشیا کے انسانوں کی نسل کشی کی تھی ،اس نسل کشی میں ڈچ فوجیوں نے بھی اس کی مدد کی ،ساری رات دس سے پندرہ ہزار انسانوں کا قتل عام ہوتا رہا اور یہ درندہ اپنے اور ڈچ فوجیوں کے ساتھ ملکر شراب پیتا رہا ۔یہ صرف ایک واقعہ ہے جو انفرادی طور پر اس نے ایک سازش کے تحت کرایا ۔کہا جاتا ہے کہ قتل ہونے والے دس سے پندرہ ہزار افراد میں جتنی خواتین تھی ،انہیں علیحدہ کرکے پہلے ان کا ریپ کیا گیا بعد میں ان تمام خواتین کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ۔اس کے بعد اس کے ڈیتھ اسکوائڈ نے تمام مردوں جن میں بچے جوان اور بوڑھے شامل تھے قتل کیا ۔اقوام متحدہ کے مطابق 1993 میں ڈیڈھ لاکھ بوسنیا اور کروشیا کے انسانوں کی نسل کشی کی گئی ۔پھر ان بدقسمت لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرکے ان قبروں کو بلدوز کیا گیا ۔معصوم انسانوں کی نسل کشی کرنے کے بعد یہ درندہ جسے راتکو ملادویچ کہتے ہیں فرار ہو گیا ،دو ہزار گیارہ میں اس درندے کو گرفتار کیا گیا ۔اسے اقوام متحدہ کے ٹریبونل کے سامنے جب گھسیٹ کر لایا جارہا تھا تو یہ ججوں کو غلیظ گالیاں دے رہا تھا ۔پھر ججوں نے پہلے اس درندے کو سامنے کھڑا کیا ،اس کے تمام جرائم کا زکر کیا ،درندے نے تمام جرائم کو قبل کیا ۔ٹریبونل میں بیٹھے تمام افراد کی آنکھوں میں آنسو تھے کی اس درندے نے کیسے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا اور اب بھی شرمندہ نہیں ہے ۔پھر ججوں نے فیصلہ سنایا کہ اس وحشی کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔فکرت علیج جو اس کے ظلم کا نشانہ بنا تھا ،اس نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ،علیج کی آنکھوں میں آنسو تھے ،اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ائے خدا تیری مہربانی کہ ظالم اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔