پاکستان میں زرد صحافت یا جرنلزم عروج پر۔۔۔
ایک عالمی رپورٹ کے مطابق اب ایک ایسا دور ہے جس میں جھوٹ کو سنسنی خیز انداز میں سچ بناکر پیش کیا جاتا ہے ۔موجودہ دور صحافت کا زرد دور کہلاتا ہے ۔اب صحافت میں پہلے سے زیادہ ریڈ لائنز آگئی ہیں ۔ان ریڈ لائنز کی وجہ سے بھی صحافت خوف کا شکار ہے ۔اب صحافت کو جو پاکستان اور دنیا بھر میں سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ہے جعلی یا فیک خبروں کا ۔پاکستان میں تو مسخ شدہ خبروں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔جھوٹی خبر کو ایسے بھیانک ناک انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے ۔پاکستان میں صحافت کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا ہاوسز کے مالکان اب ایڈیٹر بن گئے ہیں ،اپنے مفادات کی خبریں چلاتے ہیں ،پروپگنڈہ کے طور پر اپنے چینلز کا استعمال کرتے ہیں ۔میڈیا ہاوسز کے مالکان کی اپنی ہی دنیا اور اپنے ہی مفادات ہیں ،وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ،کسی کو برباد کردیتے ہیں اور کسی کی تسبیح کی جاتی ہے ۔سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنایا ان کا کام ہے ۔دوسری طرف صحافیوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہے ۔صحافی اب صحافی نہیں ہیں بلکہ میڈیا ہاوسز مالکان کے ملازم ہیں ۔صحافی بھی اب اپنے آپ کو ملازم کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔صحافی اور میڈیا ہاوس کے مالک کا تعلق پاکستان میں زمیندار اور ہاری جیسا ہے ۔صحافت میں بھی اب مختلف کیٹاگریز بن چکی ہیں ،ایک وہ صحافی ہیں جو اپرکلاس کے صحافی کہلاتے ہیں ،جنکا کام اسٹیبلشمنٹ ،حکومت ،اپوزیشن اور میڈیا مالکان کے اشاروں پر ناچنا ہے اور پروپگنڈہ کرنا ہے ،کوئی حکومت کے خلاف پروپگنڈہ کرہا ہے ،کوئی اپوزیشن کے خلاف پروپگنڈہ کررہا ہے ،کوئی اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے پڑا ہے ۔اب یہ اس بات پر منحصر ہے کہ میڈیا مالک کا رخ کس طرف ہے ۔یہ صحافی زیادہ تر اینکر پرسنز کہلاتے ہیں ،یعنی دوسروں کو ننگا کرنے والے ،ان کے خلاف نفرت اور تعصب پھیلانے والے ،اینکر پرسن کے لئے تعلیم یافتہ ہونا اہم نہیں ،اس کے لئے اہم یہ ہے کہ وہ مہمانوں کو لڑواتا کیسے ہے ،تعصب اور نفرت پھیلانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔کتاب اور شعور کا اینکرز کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہین ۔میڈیا ہاوس کے مالک نے جو لائن دی ہے ،یا اسٹیبلشمنٹ نے جو لائن دی ہے یا حکومت نے جو لائن دی ہے ،اس کو فالو کرنا ،جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنا اینکرز کی اہم زمہ داریوں میں ایک زمہ داری ہے ۔عوام کو گمراہ کرنا اور لچڑ بازی کا سماں پیدا کرنا ریٹنگ کے لئے بھی ضروری ہے اور مالکان کی خوشنودی کے لئے بھی اہم ۔یہ اینکرز پاکستانی صحافت میں برہمن میڈیا پرسنز کہلاتے ہیں ۔ان کا لائف اسٹائل باقی صحافیوں میں بہترین ہوتا ہے ۔ان برہمن صحافیوں کے پاس بڑی بڑی گاریاں ،شاندار گھر اور اعلی و ارفع جہالت وافر مقدار میں ہوتی ہے ۔ان کے نیچے جو صحافی ہوتے ہیں ،ان کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے ،ان صحافیوں کو اچھوت اور کمی کمین صحافی کہا جاتا ہے ،جو ڈیسک پر کام کرتے ہیں ،خبروں کو ایڈٹ کرتے ہیں ،ان کے پاس جو فکر اور خیال ہوتا ہے ،اس سے وہ پروپگنڈہ مشینری میں رنگ بھرتے ہیں ،لفظوں میں رنگ بھرنا ،جھوٹ میں دلکشی اور ریٹنگ والے عناصر لانا ان کا کام ہے ،ان کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہیں ،وسائل بھی کم ہوتے ہیں ،کبھی ان کو تنخواہ مل جاتی ہے اور کبھی نہیں ملتی ،افسروں ،ڈائریکٹر نیوز کی خوشامد کرنا اور تھوڑی بہت تنخواہ بڑھوالینا ان کا کام ہے ۔اس کی وجہ ہے کہ ان بیچاروں کو مہینے کے آخر میں کرایہ دینا ہوتا ہے ،بچوں کی فیس دینی ہوتی ہے ،وغیرہ وغیرہ اس لئے کمی کمین بن کر رہنا ان کی مجبوری ہے ۔پاکستان میں ایسے صحافیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ،یہ کاپی ایڈیٹرز کہلاتے ہیں ،پروڈیوسر،سینئیر پروڈیوسرز ،ایگزیکٹو پروڈیوسرز کہلاتے ہیں ،کبھی کبھار انہیں رپورٹرز بھی کہا جاتا ہے ۔ان کی اسٹڈی بھی ہوتی ہے ،نالج بھی ہوتا ہے ،یہ رائیٹسٹ ،لیفٹسٹ بھی کہلاتے ہیں ،لیکن بزدل اور خوف زدہ ہوتے ہیں ،کیونکہ ہر وقت انہیں نوکری کی پڑی رہتی ہے۔ابھی گئے کہ گئے ۔بس چوبیس گھنٹے یہی ان کے دماغ میں چلتا رہتا ہے ۔برہمن جو جہالت کی یونیورسٹی ہوتے ہیں ،وہ اسکرین پر ہوتے ہیں ،کمی کمین جو علم کا مینار ہوتے ہیں ،خوشامد کی دنیا کا حصہ ہوتے ہیں ۔میڈیا ہاوس کا مالک کبھی بھی نہیں چاہتا کہ پڑھا لکھا اینکر اسکرین پر بیٹھے ،ایسا ہوگا تو پھر کیسے ریٹنگ آئے گی ،پروپگنڈہ ہوگا اور مفادات کی گیم پروان چڑھے گی ۔صحافت اب سچ ،ایمانداری ،بہادری اور بغاوت کا شعبہ نہیں رہا ،جھوٹ ،منافقت ،فریب اور مکاری کا نام پاکستان میں صحافت ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافی اب کارخانے کا ملازم ہے ۔صحافت میں ٹریڈ یونینز بھی کمزور ہو چکی ہیں ۔اس لئے اب یہ پیشہ نہیں رہا ۔اب صحافی کا کام ہے اپنے وسائل بڑھانا ،کنسٹریکشن مافیا کا حصہ ہونا ،لینڈ مافیا کا حصہ ہونا ،اس سے وہ تو سکھی ہے لیکن قوم کا بیڑہ غرق ہورہا ہے اور یہ پاکستان کی صحافت کی سب سے بڑی ٹریجیڈی ہے ۔پاکستان کی صحافت میں وقار اور عزت نہیں رہی ۔جو وقار اور عزت کا انتخاب کرتے ہیں ،انہیں زلیل کیا جاتا ہے ،نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور رسک سمجھا جاتا ہے ۔غریب صحافی کا ایک کام ہے کہ وہ کیسے طاقتور قوتوں کو خوش رکھ سکتا ہے ۔پاکستان میں انویسٹی گیٹو یا تحقیقاتی صحافت کی کوئی گنجائش نہیں ۔اس لئے اس فیلڈ میں کوئی رسک لینا پسند نہین کرتا جو ایسا کرتا ہے ،اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔پاکستان کی صحافت کے ساتھ جو سب سے بڑی ٹریجیڈی ہے وہ یہ کہ آزادی صحافت کی آڑ میں کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے ۔یہ جو آزادی صحافت کی بات کرکے نفرت پھیلاتے ہیں یہ صحافی نہیں پیراشوٹرز ہیں ۔منافرت پھیلانا ،جھوٹے الزام لگانا ،بے بنیاد الزامات عائد کرنا ،ایسے الزامات کے جس سے انسان کی جان بھی جاسکتی ہے ،وہ بھی لگادیئے جاتے ہیں ۔مزید کچھ نہ ہی کہوں تو بہتر ہے ورنہ لکھتے لکھتے کئی سال لگ جائیں گے اور پاکستانی صحافت کی خوبیاں ختم نہیں ہوں گی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔