ملالہ کےخواب،خیالات اورمقاصد
آج سے نو سال پہلے پاکستان کے علاقے سوات میں طالبان کا کنٹرول ہوچکا تھا ،بچیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑایا جارہا تھا ،سوات میں تقریبا تمام اسکول بند ہو چکے تھے ،افراتفری،انتہاپسندی اور دہشت گردی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح ہر کسی کو خوفزدہ کررہی تھی ۔۔۔اسی زمانے میں سوات کے علاقے منگورہ سے ایک بچی کی آواز ہر طرف پھیل رہی تھی ،وہ منگورہ کے بھرے بازار میں یہ کہہ رہی تھی کہ اس کا اسکول کھولا جائے ،وہ اسکول جانا چاہتی ہے اور پڑھنا چاہتی ہے ۔۔اس چھوٹی سی ،بہادر لڑکی کی عمر اس وقت گیارہ سال تھی ،وہ بات کرتی گئی ،اس کا ایک ہی مطالبہ اور فرمائش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے ،پڑھنا چاہتی ہے ،اس حوالے سے وہ بات کرتی چلی گئی ،ڈائری میں معصوم سی زبان میں علم و دانش کی باتیں کرتی چلی گئی ،اور پھر ایک وقت آیا کہ سوات میں اسکول کھل گئے ،وہ اسکول جانے لگی ،ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اسکول جارہی تھی کہ انتہا پسندوں نے اسے اور اس کی دو سہیلیوں کو گولیاں مار دی ۔۔۔شدید زخمی حالت میں اس کا اعلاج کیا گیا ،پھر علاج کے لئے اس بچی کو لندن منتقل کیا گیا ۔۔۔چھ سال بعد کچھ روز پہلے وہ پاکستان آئی تھی ،جب وہ پاکستان آئی تو اس کے ہاتھوں میں نوبل پیش پرائذ کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ایوارڈز تھے ،اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ،اس کے شعور میں روشنی تھی ،اس کے خیالات میں پختگی تھی ۔۔۔جی ہاں ہم بات کررہے ہیں دنیا کی بہادر ترین لڑکی ملالہ یوسف زئی کی ۔۔۔۔چار روز پاکستان گزارنے کے بعد ملالہ یوسف زئی برطانیہ جاچکی ہیں ۔۔۔دو دن پہلے پاکستان کے معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے ملالہ یوسف زئی سے گفتگو کی ،آج میں آپ کو ملالہ کی اس گفتگو کا احوال بیان کردیتا ہوں ۔۔۔حامد میر صاحب نے جب سوال کیا کہ پاکستان آنے پر وہ کیسا محسوس کررہی ہیں ،تو اس پر ملالہ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو برطانیہ میں بیٹھ کر نقشے پر دیکھتی تھی اور یاد کرتی تھی ،ایسا لگتا تھا کہ پاکستان بہت دور ہے ۔۔سوچتی تھی کہ کسی دن پاکستان جاوں گی ۔۔۔پاکستان آنے پر بہت خوش ہوں ۔۔۔ابھی بھی ایک خواب سا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان آگئی ہوں ۔۔۔ملالہ کہتی ہیں کہ وہ پوری زندگی دنیا کی تمام بچیوں کی تعلیم کے لئے کام کریں گی ۔۔۔جب تک دنیا کی ہر بچی کو اعلی تعلیم نہیں ملتی ،ان کا مقصد جاری و ساری رہے گا اور وہ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گی ۔۔ایک سوال کے جواب میں ملالہ نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہیں کہ پاکستان میں لوگ متحد ہو رہے ہیں ،آزادی کے لئے سرگرمی دیکھا رہے ہیں اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کررہے ہیں ۔۔۔ملالہ کہتی ہیں وہ مستقل طور پر پاکستان میں رہیں گی ،یہ اس کا ملک ہے ،اس ملک پر اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے پاکستانی کا حق ہے ۔۔۔پاکستانیت کا حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔۔ایک سوال کے جواب میں ملالہ کا کہنا تھا کہ ہمیں بطور انسان ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیئے ،مدد صرف پیسوں سے نہیں کی جاتی ،کسی کا خیال رکھنا ،کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا ،کسی کو محبت سے سلام کرنا ،یہ بھی عظیم عادتیں ہیں جن کو پاکستانی معاشرے میں فروغ دینا چاہیئے ۔۔۔انسانوں اور انسانیت کی مدد کرنا ہی عین اسلام ہے ۔۔۔ملالہ کہتی ہیں کہ ملالہ فنڈ کا مقصد دنیا کی ہر غریب بچی کی تعلیم و تربیت ہے۔۔۔کہتی ہیں ان کا سب سے بڑا خواب ہی یہی ہے کہ پاکستان کی تمام بچیاں اور بچے اسکول جائیں اور اعلی تعلیم حاصل کریں ۔۔۔کہتی ہیں کہ وہ سوات کے مختلف علاقوں میں اسکول ،اسپتال قائم کریں گی ،تاکہ غریبوں ،بے سہاروں کو بنیادی حقوق حاصل ہو سکیں ۔ملالہ کے نام سے اسپین میں ایک پارک کا نام رکھا گیا ہے ۔۔وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پر مغز خطاب کرچکی ہیں ،اس کے علاوہ ملالہ نے کینیڈین پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا ۔۔۔جب حامد میر نے ان سے سوال کیا کہ پاکستان میں بھی لاکھوں انسان آپ کا احترام کرتے ہیں اور عزت کرتے ہیں ،لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ پر تنقید کرتے ہیں ،اس بارے میں وہ کیا کہتی ہیں ؟اس پر ملالہ کا کہنا تھا کہ جب انتہا پسند زہنیت ان پر تنقید کرتی ہے تو برا نہیں لگتا کیونکہ انہوں نے تو تنقید کرنی ہی کرنی ہے ،لیکن جب تعلیم یافتہ زہنیت ایسا کرے تو عجیب سا لگتا ہے اور حیرت ہوتی ہے ۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ کسی پر بے بنیاد الزامات نہیں لگانے چاہیئے ،کہتی ہیں وہ جو گالیاں دیتے ہیں اور منفی کمنٹس سوشل میڈیا پر کرتے ہیں ،اس بارے میں وہ پریشان اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ ان کمنٹس کو پڑھتی ہیں نہیں اور نہ ہی زیادہ نیوز چینلز پر وقت برباد کرتی ہیں ۔۔کہتی ہیں کہ وہ نیوز میڈیا ،سوشل میڈیا وغیرہ سے بہت دور ہیں ۔۔۔ملالہ کہتی ہیں کہ پاک فوج اور حکومت نے ان کی سیکیورٹی یقینی بنائی ،جب انہیں گولی لگی تھی ،باہر بھیجا جس سے وہ بچ گئی ،اس پر وہ حکومت کی شکر گزار ہے ۔۔۔کہتی ہیں کہ پاکستان کے ڈاکٹرز ان کا اعلاج وقت پر نہ کرتے تو آج وہ زندہ نہ ہوتی ،اس پر وہ پاکستانی ڈاکٹروں کی بھی شکر گزار ہے ۔۔۔کہتی ہیں ان کا سب سے بڑا خواب ہی یہی ہے کہ وہ پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں آزادنہ گھوم سکے ،جیسے پہلے زندگی تھی ویسے گزار سکے ،وہ زندگی خوبصورت تھی ۔۔۔کہتی ہیں سوشل میڈیا اور پاکستانی میڈیا پر لوگ انہیں کیا کہتے ہیں ،یہ اہم بات نہیں ہے اور نہ ہی اس بات پر وقت ضائع کرنا چاہیئے ،اہم بات بچیوں کی تعلیم و تربیت ہے جس پر ان کا سارا فوکس ہے ۔۔۔کسی کو ملالہ پسند ہے یا نہیں ہے ،یہ ایشو ہی نہیں ہونا چاہیئے ۔۔۔اہم یہ کہ پاکستان کی تمام بچیوں کو بنیادی تعلیمی سہولیات میسر ہوں ،اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں سب کا احترام ہو ،اہم بات یہ ہے کہ پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے ،اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں تمام انسانوں کو ایک جیسے حقوق حاصل ہوں ۔۔۔ملالہ یوسف زئی کی زندگی پر بالی وڈ میں ایک فلم بھی بن رہی ہے جب یہ سوال حامد میر نے ملالہ سے کیا تو اس پر اس نے کہا مجھے اس بارے میں معلوم نہیں اور نہ ہی کسی نے ان سے رابطہ کیا ہے ۔۔۔کہتی ہیں پاکستان میں حقیقی تبدیلی اس وقت آئے گی جب نوجوان تبدیلی کے لئے سب سے آگے ہوں گے۔۔۔ملالہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ مرحومہ عاصمہ جہانگیر ان کے لئے رول ماڈل ہیں ،ملالہ کا کہنا ہے کہ انتقال کرنے سے پانچ روز پہلے عاصمہ جہانگیر صاحبہ سے ان کی ملاقات ہوئی تھی ،عاصمہ صاحبہ نے انہیں کہا تھا کہ انٓصاف کے لئے بولنا چاہیئے ،کسی سے ڈرنا نہیں چاہیئے ۔۔۔ملالہ کا کہنا ہے کہ عاصمہ جہانگیر ایک عظیم ،باکمال اور حقیقی بہادر خاتون تھی ۔۔۔کہتی ہیں کہ بہادری اگر مجسم شکل میں دیکھنی ہے تو عاصمہ جہانگیر اس کی بہترین مثال ہیں ۔۔۔جب ملالہ سے سوال کیا گیا کہ آخر پاکستان میں انتہا پسندی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟اس پر ملالہ نے کہا کہ انتہاپسندی اور شدت پسندی کو صرف جدید تعلیم کے ہتھیار سے شکست دی جاسکتی ہے ۔۔۔کیونکہ بچے جب جدید تعلیم حاصل کریں گے تو وہ انتہاپسندانہ ہاتھوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔۔۔کہتی ہیں ہمارے عظیم نبی ﷺ نے لوگوں کو معاف کیا ،انہیں امن ،محبت اور پیار کا درس دیا ۔۔۔اسلام امن اور محبت کا نام ہے ۔۔۔لیکن مذہب اور عقیدے کے نام پر اس ملک میں قتل غارت گری کی جارہی ہے ۔۔۔کشمیر کے حوالے سے جب ملالہ سے سوال کیا گیا تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ کشمیر نہ بھارت کا ہے اور نہ ہی پاکستان کا ،کشمیر ،کشمیریوں کا ہے ،ان کا یہ حق ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں ،پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا انڈیا کے ساتھ ۔۔یہ بنیادی ھق انہیں ملنا چاہیئے ۔۔۔کہتی ہیں جب سے پاکستان اور بھارت دو ملک معرض وجود میں آئے ہیں ،کشمیر میں مسلسل انسان مررہے ہیں ،بچے بچیاں مررہے ہیں ،ان انسانوں نے کبھی امن نہیں دیکھا ۔۔۔یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ انہیں امن اور آزادی جیسے عظیم حقوق سے نوازا جائے ۔۔۔امن میں رہنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے ،بولنے ،سوال کرنے اور احتجاج کرنے کی آزادی کا نام ہی انسانیت ہے ۔۔۔پاکستان اور بھارت کو چاہیئے کو وہ مل بیٹھیں ،کشمیر کے مسئلے پر بات کرے اور اس مسئلے کو پرامن انداز میں حل کریں ،جنگوں میں مقابلہ بازی کرنے کی بجائے پاکستان اور بھارت کو اقتصادی دنیا میں مقابلہ کرنا چاہیئے تاکہ دونوں ملکوں کے کروڑوں انسانوں کو امن مہیا ہوسکے ۔۔۔فاٹا کے حوالے سے ملالہ کا کہنا تھا کہ فاٹا کے لوگ بھی اتنے پاکستانی ہیں جتنے پنجاب ،بلوچستان ،سندھ کے لوگ ہیں ،اس لئے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کیا جائے ۔۔۔جب ملالہ سے سوال کیا گیا کہ وہ پاکستانی اور مغربی نظام تعلیم میں کیا فرق دیکھتی ہیں تو اس پر گل مکئی کا کہنا تھا کہ پاکستان کا نظام تعلیم بہتر ہورہا ہے ،مغرب کے نظام تعلیم کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہاں تنقید کو ،سوال کرنے کو اہم سمجھا جاتا ہے ۔۔۔وہ بچوں کو سوال کرنا سکھاتے ہیں ،جبکہ یہاں پر رٹا سکھایا جاتا ہے ۔۔۔وہ بچوں سے کہتے ہیں کہ سوال کرو ،کود سوچو،،ملالہ کے مطابق سوال کرنا سب سے اہم بات ہے ۔۔۔جب تمام پاکستان سوال کریں گے تو اس سے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے ۔۔۔یہ باتیں ملالہ نے حامد میر صاحب کے ساتھ انٹرویو میں کیں ۔۔۔۔کیا ان باتوں سے لگتا ہے کہ وہ پاکستان دشمن ہیں ،کسی کی ایجنٹ ہیں ۔۔۔۔وہ جو ملالہ کو گالیاں دے رہے ہیں ،بنیادی طور پر وہ خود کو گالیاں دے رہے ہیں ۔۔۔ملالہ تو عظیم مقصد کے لئے کام کررہی ہیں ،حامد میر نے ٹھیک کہا کہ وہ جو بڑے مقصد کے لئے کام کرتے ہیں ،وہ زخم بھی کھاتے ہیں اور نصیب والے انسان ہوتے ہیں ،ملالہ بھی ایک نصیب والی لڑکی ہیں ۔۔۔وہ جو ملالہ کے زخموں کا مزاق اڑا رہے ہیں ،حقیقت میں وہی تو ہیں جو بدنصیب ہیں ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔