فرمودات مشرفی ۔۔۔۔
پاکستان کی 70ویں سالگرہ میں چند دن رہ گئے ہیں ۔70ویں سالگرہ سے چند دن پہلے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک دلچسپ اور عجیب و غریب انٹرویو دیا ہے ۔انٹرویو اتنا شاندار تھا کہ دل کرتا ہے ،ا سکے ایک ایک پوائنٹ پر بات کی جائے ،تو آیئے پرویز مشرف کے انٹرویو کا جائزہ لیتے ہیں ۔پرویز مشرف نے کہا کہ جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ یا بادشاہت عوام کو فرق نہیں پڑتا ،عوام کو تو روز گار ،خوشحالی اور سیکیورٹی چاہیئے ۔مشرف کے اس پہلے پوائنٹ سے کسی حد تک اتفاق کیا جاسکتا ہے ۔لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جہاں جہاں جمہوریت ہے ،وہاں وہاں آزادی ،خوشحالی اور ترقی زیادہ سے زیادہ ہے۔محترم نے فرمایا ایشیاٗ میں جتنی ترقی ہوئی ،اس کی وجہ فوجی ڈکٹیٹرز تھے ۔پاکستان کو بھی فوجی ڈکٹیٹرز ٹھیک کیا ،سویلین نے پاکستان کا بیڑہ غرق کیا ۔یہ شاہ آف ایران ،جنرل سہارتو،مارکوس ،یاک چگ فرام کوریا ،ضنرل حسین محمد ارشاد ،اور ضیاٗالرحمان ،ان تمام کا تعلق ایشاٗ سے تھا ،یہ کونسی ترقی لائے تھے؟بنگلہ دیش میں کچھ برسوں سے جو معاشی ترقی کی ہے ،ا سکے پیچھے کونسے فوجی ڈکٹیٹر کا ہاتھا ہے؟سمجھ نہیں آتی یہ فوجی ڈکٹیٹر دنیا کو الٹا کرکے کیوں دیکھتے ہیں ؟پھر کہتے ہیں پاکستان توڑنے میں فوج کا نہیں ،بھٹو کا قصور تھا ،ٹھیک پاکستان میں ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان بھٹو کی وجہ سے ٹوٹا ،وہ طبقہ کون ہے ،اس بارے میں بھی سب جانتے ہیں؟یہ وہی طبقہ ہے جس نے الشمس اور البدر بنائی تھی ،جس کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا۔ساتھ محترم پرویز مشرف یہ بھی فرماتے ہیں کہ پاکستان توڑنے میں تھوڑا سا الزام یحیی پر بھی جاتا ہے ۔کہتے ہیں ایوب خان کے دور میں بڑی ترقی ہوئی ،ترقی کے تمام رکارڈ ٹوٹ گئے ۔ویسے دیکھا جائے تو مشرف صاحب درست فرماتے ہیں ادھر ایوبی دور کے ترقی کے رکارڈ قائم ہوئے ،ادھر پاکستان ٹوٹ گیا ۔مشرف صاحب فرماتے ہیں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جنرل ضیاٗ نے ملک کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا ،لیکن مجاہدین اور امریکہ کی مدد کا فیصلہ درست تھا ۔بھیا فیصلہ درست تھا تو پھر مذہبی انتہا پسندی کس نے کی ؟پھر کہتے ہیں افغان جنگ میں کچھ لوگوں نے ہوسکتا ہے ،پیسہ بنایا ہو ،لیکن فوج نے بطور ادارہ پیشہ نہیں بنایا ،بھیا ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ عام فوجی سپاہی ،کیپٹن ،میجر وغیرہ نے پیسہ نہیں بنایا ،صرف جرنیلوں نے پیسہ بنایا ۔پرویز مشرف نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے 1999 میں عوام کے مطالبے پر سویلین حکومت کا تختہ الٹا ۔کہتے ہیں آئین قوم سے زیادہ مقدس نہیں ،قوم کو بچانے کے لئے آئین کو تھوڑا سا نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔اب میں یہ سوچو کہ آرٹیکل سکس میں کیا لکھا ہے ،میں نے تو پاکستان بچانا ہے ،لٹکا سکتے ہو تو لٹکادو ۔اصل میں کہنا یہ چاہتے تھے کہ جو اکھاڑ سکتے ہو ،اکھاڑ لو ۔کیا کسی کو یاد ہے کہ 12 نومبر 1999 کو کڑوروں پاکستانی سڑکوں پر یہ مطالبہ کررہے ہوں کہ مشرف صاحب آجائیں ،نواز شریف کو نکال دیں ؟حقیقت یہی ہے کہ اس وقت بھی گو مشرف گو ہورہا تھا ۔ایک بات سچ ہے کہ آمر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے ،چاہے وہ بچے دے یا انڈے دے ،اس کی مرضی ،مشرف کی گفتگو سے تو یہی کچھ سمجھ میں آتا ہے ۔ویسے مشرف صاحب بہت پاپولر ہیں ،فیس بک پر کڑروں لوگ ان کے مداح ہیں ۔ویسے سوچیں 1965 کی جنگ ایوب خان کی بجائے کسی سویلین وزیر اعظم کی وجہ سے ہوتی تو اس کا کیا حشر ہو نا تھا ؟اسی طرح سندھ طاس معاہدہ جس میں تین دریا بھارت کے حوالے کردیئے گئے کسی سویلین وزیر اعظم نے ایسا کیا ہوتا ،تو ا سکے ساتھ کیا ہو سکتا تھا ؟آگے مشرف صاحب فرماتے ہیں کہ وہ فوج کے سربراہ رہے ہیں ،اس لئے فوج ان کی بھلائی ہی سوچے گی ،فوج نے تو بھیا آپ کی بھلائی کی ،اس ملک سے آپ کو باہر نکال دیا ،لیکن کیا آپ نے فوج کی بھلائی سوچی؟2012 میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف شجاع پاشا نے دبئی میں آپ سے میٹنگ کی تھی ،اور کہا تھا کہ اس وقت پاکستان مت آئیں ،لیکن آپ آئے ،مشکل میں پھنسے تو آپ کو کسی نہ کسی طرح باہر نکال دیا گیا ۔2008 میں ریٹاٗرڈ فوجیوں کی ایک تنظیم نے متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کی تھی ،جس میں کہا گیا تھا کہ آپ پر آرٹیکل سکس کے تحت غدار کا مقدمہ قائم کیا جائے ،پھر بھی فوج کے سرونگ جرنیلوں نے آپ کو بچالیا ۔ایک تھا میجر جنرل احتشام ضمیر جو 2002 میں آئی ایس آئی میں پولیٹیکل ونگ کا سربراہ تھا ،اس نے2008 انٹرویو میں کہا تھا کہ جو کیا مشرف کے کہنے پر کیا ،ق لیگ مشرف کے احکامات پر بنائی ،مشرف کے کہنے پر سیاست کو گندہ کیا ،جس پر شرمندہ ہوں۔ایک سوال کے جواب میں مشرف صاحب نے فرمایا کہ راحیل شریف نے ملک سے باہر نکلنے میں ان کی مدد کی ،وجہ یہ بتائی کہ وہ راحیل شریف کے باس تھے ،کہتے ہیں یہ عدالتیں سیاسی فیصلے کرتی ہیں ،اس کی وجہ یہ بتائی کہ کورٹس پر دباو ہوتا ہے ،سمجھ نہیں آتی جس آئین کو محفوظ کرنے کا فوجی جرنیل حلف اٹھاتا ہے ،پھر بعد میں کیوں اسی آئین کی دھجیاں اڑا دیتا ہے ،پھر کہتا ہے کہ آئیں تو صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے ،مشرف صاحب مہربانی کریں لندن یا نیویارک میں رہیں ،پاکستان مت آئیں ،ورنہ دوبارہ آپ کو ملک سے نکالنے کے لئے فوج کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ،مشرف کی تمام گفتگو سن کر ایسا لگتا ہے کہ ابھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ،اب ایسے بحرا کی کیفیت میں وہ وآپس لوٹ رہے ہیں ،ان کے آنے سے فوج کے امیج کو کیسا دھچکا لگے گا ،اس پر وہ اب بھی سوچنے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔مشرف صاحب بطور پاکستانی میں ایک جمہوریت پسند انسان ہوں ،کسی قسم کی فوجی آمریت کے خلاف ہوں ،نواز شریف پر تنقید اس وجہ سے ہمیشہ کرتا آیا ہوں کہ اس نے پارلیمنٹ کو وقعت نہیں دی ،یہ وہی نواز شریف ہے جب اس کو مشورہ دیا گیا کہ باسٹھ ترسٹھ کو آئین سے ختم کیا جائے ،تو اس نے کسی کی نہ سنی ،یہ امیر المومنین بننے کا خواہش مند رہا ،اس لئے ان کی رائیٹ ونگ پالیسیوں کی وجہ سے ہم جمہوریت پسند اس کے خلاف ہیں ۔کیوں یہ نواز شریف وکیل کے لباس میں میمو گیٹ کے خلاف پٹینشر بن کر گیا ،ہم تو اس لئے اس نواز شریف کے خلاف ہیں ۔جب وہ اور اس کے وزیر پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے ،تو ایسا تو ہونا تھا ؟نوازشریف اس لئے مجھے پسند نہیں کہ اس نے کبھی پارلیمنٹ کی عزت نہیں کی ،پاناما کا ایشو بھی تو پارلیمنٹ میں جاسکتا تھا ،لیکن وہ عدالت گیا ،اس لئے ایسے نواز شریف کو نااہل ہونا چاہیئے تھا ،جس کے اندر سے تیس سال بعد بھی جنرل ضیاٗ باہر نہیں نکل رہا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔