1912سے 1955تک ۔۔۔
انیس سو بارہ سے انیس سو پچپن کا زمانہ مجھے بہت پسند ہے۔اس زمانے میں ایک ایسا انسان ہندوستان کی سرزمین پر تھا ،جس نے سوچ اور فکر کا نیا اور انوکھا انداز متعارف کرایا ۔اس انسان کے بارے میں سمجھ نہیں آتی کہ کیسے اور کس طرح بات کی جائے،کیسے اس انسان کی کہانی بیان کی جائے ۔کہاں سے اس کے بارے میں بات کی جائے ۔اس لئے کبھی موقع ملے تو انیس سو بارہ سے انیس سو پچپن تک کے زمانے میں اس انسان کی کہانی کو دیکھنے،سوچنے اور سمجھنے کی کوشش ضرور کیجیئے گا ۔بچہ تھا تو باغی تھا ،جسے ہندوستان کے تعلیمی نظام سے شدید نفرت تھی،رسمی تعلیم اسے زہر لگتی تھی ،میٹرک میں فیل ہو گیا ،لیکن انگریزی،فرانسیسی اور روسی ادب کا رسیا تھا ،وہ جو ہر وقت چلتا پھرتا رہتا تھا ،پڑھتا لکھتا رہتا تھا ،وہ جو بک اسٹالز سے کتابیں چوری کرکے پڑھتا تھا ،اسے رسمی تعلیم سخت ناپسند تھی ،لیکن کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا جنون تھا ۔وہ جس نے میکسم گورکی ،چیخوف،وکٹر ہوگو اور آسکر وائلڈ جیسے ادیبوں کو ایسے پڑھا جیسے پڑھنے کا حق ہوتا ہے ،ان عظیم ادیبوں کی کتابوں کو اردو ادب میں ڈھالا ،کمال کا انسان تھا ۔ان تمام ادیبوں کو پڑھا اور سوچا یہ کمال تو وہ بھی کرسکتا ہے ،اس سے اچھا وہ خود بھی لکھ سکتا ہے ،پھر اس نے لکھنا شروع کردیا ۔انیس سال کی عمر میں انیس سو اکتیس میں اس نے جلیانوالہ باغ واقعے کے پس منظر میں پہلی کہانی لکھی۔معلوم نہیں اسے مرنے کی کیوں جلدی تھی ،اس لئے وہ جلدی جلدی بہت کچھ لکھتا چلا گیا ۔چوبیس سال کے عرصے میں کہانیوں کے بائیس ،ریڈیو ڈراموں کے پانچ ،مضامین کے تین،اور شخصی خاکوں کے دو مجموعے لکھ ڈالے ۔ایک ناول اور آٹھ فلمیں بھی تحریر کی ۔چار پانچ نوکریاں بھی کیں ۔ان چوبیس سالوں میں اس پر یہ بھی الزام لگا کہ وہ ایک فحش نگار اور گھٹیا ادیب ہے ،اس لئے اس پر نصف درجن سے زائد مقدمے چلے ،کہا جاتا ہے کہ وہ ترقی پسند تھا ،لیکن ترقی پسند اور غیر ترقی پسند سب اس سے تنگ تھے ،سب کہتے تھے یہ بیہودہ انسان ہے ،یہ فحش نگار ہے ۔وہ رج کے شراب بھی پیتا تھا ،سب کام کاج کرکے وہ صرف تنتالیس سال کی عمر میں مر گیا ،انیس سو بارہ سے انیس سو پچپن کا زمانہ ویسے تنتالیس سالوں پر محیط ہے ،یہ 43سال کا عرصہ مجھے بہت دلکش لگتا ہے ،کسی نے اسکرین پر اس عرصے کو دیکھنا ہے تو وہ دیکھ سکتا ہے ،کیونکہ معروف اداکار نوازالدین صدیقی کے روپ میں وہ شخص دوبارہ تین گھنٹے کے لئے آرہا ہے ۔اصل میں وہ کیا تھا ؟کیا وہ ایک فحش نگار تھا ،کیا وہ ایک بے رحم کہانی کار تھا ،کیا وہ حقیقت پسند تھا ،یا ایک انارکسٹ تھا ،یہ سب کچھ جاننا ہے تو بالی وڈ کی ایک فلم آرہی ہے ،جس میں نواز الدین صدیقی وہی انسان بنا ہوا ہے ،جس کا میں زکر کررہا ہوں ،ضرور دیکھیئے گا ،میری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ وہ فلم ضرور دیکھیں ۔وہ اردو ادب کی دنیا میں ایک بریکنگ نیوز تھا ،اس نے ادب کی ایسی دنیا پیدا کی ،جس نے انیس سو بارہ میں ان کے ساتھ جنم لیا ،انیس سو پچپن میں وہ ادب کی دنیا اسی کے ساتھ انتقال کرگئی ۔اردو فکشن کی دنیا میں وہ بریکنگ نیوز تھا ۔کیا کمال انسان تھا وہ جو منافق دنیا میں ان سے پیار ،محبت اور ہمدردی کرتا تھا جن سے ساری دنیا نفرت کرتی تھی ،دنیا جن کو گھٹیا ،زلیل کہتی تھی ،وہ ان کو عظیم اور حقیقی کہتا تھا ۔دنیا جن کو برا کہہ کر دھتکارتی تھی ،وہ ان کو گلے سے لگاتا تھا ۔اس نے منافق دنیا میں برے لوگوں سے ہی محبت کی ،وہ جنہیں دنیا برا کہتی تھی ۔وہ ہمیشہ برے لوگوں میں ہی انسانیت تلاش کرتا تھا ۔یہ سب کچھ آپ مجسم شکل میں دیکھ سکتے ہیں ،بس نواز الدین صدیقی کی نئی فلم آنے والی ہے ۔اس فلم کو ضرور دیکھنا ہے ۔وہ جنہیں دنیا زاہد و عابد کہتی ہے ،وہ اشرافیہ جن کے پیچھے دنیا بھاگ کر جاتی ہے ،اس اشرافیہ کے جو معیارات تھے ،ان معیارات کو نواز الدین صدیقی نے خوب رگیدا ہے ۔جو کام وہ کر گیا ،ایسا کام آج تک کوئی ادیب نہیں کرسکا اور نہ ہی کبھی کوئی اور ادیب کرسکتا ہے ،کیونکہ آج کے ادیب بھی تو بزدل اور کمزور ہیں ،لیکن وہ کٹر قسم کا بہادر ادیب تھا ۔اردو فکشن میں اگر کوئی ادیب حقیقی باغی کہلانے کے قابل ہے تووہ تھا ۔وہ مفکر بھی تھا ،وہ شرابی بھی تھا ،وہ باغی بھی تھا ۔اردو ادب میں ایسا کوئی آیا ہے ،نہ آئے گا ،لیکن نوازالدین صدیقی اس کا روپ لیکر پردہ اسکرین پر آرہا ہے ۔وہ واحد افسانہ نگار تھا ،جس نے اردو زبان کو عالمی ادب کے درجے پر لاکر کھڑا کردیا ۔آج دنیا کے مختلف ممالک کی پندرہ زبانوں میں اس انسان پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جاچکی ہے ۔انگریزی زبان میں اس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ،پاکستان میں اس پر ایک فلم بن چکی ہے ،جس میں سرمد کھوسٹ وہ انسان بنا تھا ،وہ فلم بھی اچھی تھی ،لیکن اب نواز وہ روپ لیکر آرہا ہے ،اور نواز حقیقت میں وہ ادیب بنکر آرہا ہے ۔اس کو انیس سو بارہ سے انیس سو پچپن تک بھی نہیں سمجھا گیا ،اور بدقسمتی سے آج بھی اسے گالیاں پڑتی ہیں ،آج بھی بہت سے لوگ اسے فحش نگار کہتے ہیں ۔وہ ناگزیر ترقی پسند تھا ،لیکن ترقی پسند تحریک کا حصہ نہ تھا ۔اس نے کہا تھا ترقی پسندوں میں بھی کچھ انسان منافق ہوتے ہیں ،اس لئے ترقی پسند تحریک والے بھی اسے منہ نہیں لگاتے تھے ،اور وہ بھی ترقی پسندوں کو گھاس نہیں ڈالتا تھا ۔زمانے کی کرواہٹوں اور نفرتوں نے اسے مار دیا۔کہتے ہیں وہ بہت شراب پیتا تھا ،جس سے اس کا جگر ختم ہوگیا ،اس لئے وہ مرگیا ،لیکن وہ شراب کی وجہ سے نہیں مرا ،اس کو ہم سب نے ملکر مارا ہے ،ہم سب اس کے قاتل ہیں ۔اسے دھتکارا گیا ،اس سے نفرت کی گئی ،اس لئے اس نے شراب کی دنیا میں جاکر پناہ لی ،اور مرگیا ۔شراب نے نہیں ،اسے انہوں نے مارا جو اسے فحش نگار کہتے تھے ،وہ جنہوں نے اسے ہمیشہ عذاب میں مبتلا کئے رکھا ،وہ جنہوں نے اس پر مقدمات کئے ۔ایک خط میں اس نے اپنی ایک دوست عصمت چغتائی کو لکھا کہ پاکستان کی سرزمین پر اس کا دم گھٹ رہا ہے ،وہ مررہا ہے ،خدا را اسے وآپس بلوایا جائے ۔اس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ جنسی اشاروں کا استعمال کرتا ہے ،فحاشی کے مقدمات بنائے گئے ،اسے زلیل کیا گیا ،رسوا کیا گیا ،بھوکا اور تنگ دست رکھا گیا ،رسالوں میں ایڈیٹرز نے اس کی کہانیاں شائع کرنے سے انکار کردیا ۔وہ مظلوم کا ساتھی تھا ۔وہ مفلسوں اور غریبوں کا ساتھی تھا ۔وہ ان کے ساتھ رہتا تھا ،جن سے دنیا بھاگتی تھی ۔وہ مختلف ،منفرد اور عجیب کردار تھا ۔وہ نام نہاد وضع داروں کے سماج پر قہقہے لگاتا تھا ،وہ شریفوں اور رواداروں کے منکرات پر طنز بکھیرتا تھا ،اس لئے وضع دار اس پر مقدمات کرتے تھے ،اس کا داناپانی بند کردیتے تھے ،تو وہ ڈرتا نہیں تھا ،پھر شراب کو تھام کر کہتا تھا ،جھوٹے سماج پر لعنت ،منافق مزاج پر لعنت ،منافق سماج پر لعنت ۔جہاں انسانیت کی تقسیم کا درس دیا جاتا ،وہ ان کے سامنے آجاتا اور کہتا تم سب نفسیاتی مریض ہو ۔وہ کسی قسم کی تقسیم کا قائل نہ تھا ،صرف انسان تھا وہ شخص ،اور شاید اسی وجہ سے روادار اور زاہد و عابد اس سے نفرت کرتے تھے ۔برائی میں انسانیت ڈھونڈنے کا مرض اسے لاحق تھا ،شاید اسی لئے وہ مرگیا ۔اب وہ دوبارہ کچھ لمحات کے لئے نوازالدین صدیقی کے روپ میں آرہا ہے ،میری تمام پاکستانیو سے اپیل ہے کہ وہ اسے ایک بار ضرور دیکھیں ۔باقی آپ کی مرضی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔