پشتون تحفظ موومینٹ اور غداری کارڈ
پشتون تحفظ موومینٹ کی واضع موقف کہ وہ ملک کے قانونی اور آئینی فریم ورک کے اندر پرامن طریقے سے اپنی حقوق کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہے کے باوجود فوج کے ماتحت بعض ادارے عوام کو یہ تاثر دے رہے ھیں کہ پی ٹی ایم فوج یا ریاست کے خلاف ہے ۔ تحریک کے خلاف گٹھیا اور بے سروپا الزامات کا سلسلہ زور وشور سے جاری ہے ۔ پاکستان کی سیاسی کلچر میں یہ الزامات کوئی انوکھی بات نہیں البتہ ماضی میں یہ الزامات اتنی تواتر ، بھونڈے اور بیجا طریقے سے لگائے گئے ھیں کہ ان کی اھمیت اور وقعت کم ھوگی ہے اور ایک محدود حلقے کے علاوہ اب لوگ ان الزامات کو سنجیدہ نہیں لیتے الٹا اب اس کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ھیں ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حقوق مانگنے والہ ھمیشہ غداری کا لقب پاتا ہے آج جتنے بھی حقیقی عوامی لیڈرز ہے وہ تقریباً سارے غدار ھیں ۔ میاں نواز شریف ، اسفندیار ولی ، محمود خان اچکزئی ، الطاف حسین ، عطاء اللہ مینگل وغیرہ سب غدار ھیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک پشتون ، بلوچ اور سندھی قیادت کی نسبت پنجاب اور مہاجروں کی قیادت محب وطن تھی مگر اسٹبلشمنٹ کی بڑھتی ھوئی جمہوریت اور عوام دشمنی اور عوامی حقوق اور بیداری کےحوالے سے ان کا برداشت اور حوصلہ کم ھورہا ہے اور اب حالت یہ ھوگئی ہے کہ روایتی طور پر اسٹبلشمنٹ نواز اور محب وطن کہلائے جانی والہ پنجاب کا عوامی اور نمائیندہ لیڈر میاں محمد نواز شریف اور مہاجروں کا محبوب راھنما الطاف حسین اب سوپر غدار ھیں ۔
اب تحریک یا مقصد کی سچائی ناپنے کا یہ پیمانہ بن گیا ہے کہ ریاستی ادارے جس شخصیت اور تحریک کی زیادہ مخالفت کرتی ہے تو اتنے زیادہ لوگ اس کو سچا اور راہ حق پر سمجھتے ھیں ۔ تنگ نظر مفادت ، محدود وژن کی حامل اور خود فریبی میں مبتلا اسٹبلشمنٹ کا ذھن ماوف ھوچکا ہے اور یہ حقیقت نہیں جان سکتی کہ وہ دور گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے اب پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے ۔ اب ان کی حالات کو قابو میں کرنے اور مینی پولیشن کی صلاحیت کمزور ھور رہی ہے ۔ معلومات کی فراھمی اور رسائی پر ریاستی کنٹرول نہ ھونے کے برابر اور اس تک عوام کی رسائی اسان اور تیز تر ھوگئی ہے۔
ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ اور فرسٹریشن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تصور کہ کچھ ادارے اور شخصیات تنقید سے مبرا یا مقدس گائے ھیں ختم ھوگیا ہے اور اب یہ تصور عام ھو رہا ہے کہ جو بھی سرکاری اھلکار قانون شکنی کرئیگا چاہے وہ وردی پوش ہے یا بغیر وردی کے وہ قانون کے سامنے برابر اور قابل قانونی گرفت ہے ۔ قانون کے سامنے سب برابر ھیں یہ اور بات ہے کہ ریاستی ادارے قانون سے بالاتر ھونے کا سوچ چھوڑنے کیئے تیار بھی نہیں اور بزور یا چالاکی بچ نکلنے کی کوشش کرتے ھیں ۔ راو انوار اور مشرف کے کیسوں میں ھم نے دیکھا کہ ریاستی ادارے اپنے بندوں کو بچانے کیلئے کیا کیا ڈرامے کرتے ھیں ۔
عوام یہ بے تُکی منطق سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب عوام اپنے اوپر روا ھونے والے ظلم ، زیادتیوں اور بے انصافی کے خلاف آواز آٹھاتے ھیں تو ریاستی اداروں کو تحفظ پاکستان کیوں یاد آجاتا ہے ۔ حق مانگنے سے ملک کی سالمیت خطرات سے کیسے دوچار ھوجاتی ہے ۔ غداری کے ٹھپے کیوں عام ھوجاتے ھیں ۔ ظلم کے خلاف یا بنیادی حقوق کیلئے آواز بیرونی ایجنڈا یا ملک دشمنی کیسے بن جاتی ہے ۔ آیا یہ انگریز نوآبادیاتی دور سے ورثے میں ملی غلامانہ ذھینیت کا آثر ہے جہاں ھر آزادی کی آواز کو غداری کے مترادف سمجھا جاتا تھا یا کچھ اداروں کی تنگ نظر ادارہ جاتی مفاد کو خطرہ لاحق ھوجاتا ہے۔ جو بھی ہے اس سے عوام میں ریاست سے دوری اور بیگانگی بڑھ رہی ہے ۔ اور عوام کی سینس آف اونرشپ کمزور ھو رہی ہے ۔
ریاستی دباوُ کے تحت پاکستان کی مین سٹریم میڈیا نے پشتون تحفظ موومینٹ کی سرگرمیوں کا بلیک آوٹ کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود ملک کے اندر اور باھر لاکھوں افراد نے پی ٹی ایم کے جلسوں اور ریلیوں کو یا تو لائیو دیکھا یا اس کی ریکارڈنگ ۔ پی ٹی ایم کی مقبولیت اب بڑھ رہی ہے ۔ محسود تحفظ موومینٹ سے شروع کیاگیا سفر اب روکنے والہ نہیں۔ ملک کی دیگر مظلوم طبقات بھی پی ٹی ایم کی طرف دیکھ رہی ھیں ۔ اب پنجاب میں وہاں کے مظلوم عوام کو آواز ملے گی اور سندھ میں سندھی اور مہاجر مظلوم عوام کی مشکلات اور مسائل پر بات ھوگی ۔ غرض پی ٹی ایم اب مظلوم عوام کی تحریک بن رہی ہے کیونکہ پی ٹی ایم کی کئے مطالبات مثلا ماورائے عدالت قتل عام اور جبری گمشدگی کے مسلے سے بلوچ ، سندھی اور مہاجر بھی دوچار ھیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ناروا سلوک کے حوالے سے ان کی شکایات بھی ھیں ۔
پی ٹی ایم کے زیادہ تر سرکردہ افراد پشتون بیلٹ میں جاری شورش کے برائے راست متاثرین میں سے ہے اور انہوں نےپہلے طالبان اور بعد میں فوجی آپریشنوں کے دوران زیادتیاں اور ناروا سلوک دیکھا اور سہا ہے اور تباہی و بربادی قریب سے دیکھی ہے۔ پشتونوں کا اجتماعی شعور زخمی اور دردناک کرب میں مبتلا ہے ۔ پی ٹی ایم اس دکھ اور درد کو زبان دے رہا ہے۔ اگر وہ بعض ادارواں کی غلط پالیسیوں کے خلاف آواز آٹھاتے یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی اور ان کی مضر اثرات بیان کرتے ھیں اور دیگر شہریوں کی طرح مساویانہ سلوک اور بے انصافی اور ذیادتیوں کا خاتمہ چاہتے ھیں تو اس سے کچھ لوگوں کو تکلیف ھوتی ہے۔
اسطرح ان نوجوانوں کی روئے میں جوش اور جذباتی پن کی وجہ بھی یہی حقیقت ہے کہ تحریک کے سرکردہ افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ گزشتہ چند سالوں میں شورش زدہ علاقوں میں ھونے والی زیادتیوں اور بے انصافیوں کے شاھد ھیں ۔ شورش زدہ علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ملک کے شہریوں سے دشمن ملک کے شہریوں جیسا سلوک اور رویہ اب اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ اب ڈر اور خوف ختم ھورہا ہے اور لوگوں کو حوصلہ اور زبان مل رہی ہے ۔ قبائلی علاقوں اور سوات وغیرہ میں آپریشنوں کے دوران جو تباہی بربادی ھوئی ہے اس کے سامنے کشمیر میں مظالم کچھ نہیں ہے۔
پالیسی سازی کے عمل سے عوامی سیاسی ، مذھبی اور سماجی حلقوں کی بڑھتی ھوئی بیدخلی اور پالیسیوں کی تنگ نظر اور محدود مفادات کی ترجمانی اور تحفظ کی وجہ سے وسیع عوامی حلقوں میں ان پالیسیوں کی احساس ملکیت کم اور اس سے لاتعلقی بڑھ رہی ہے ۔ اس طرح داخلی اور خارجہ پالیسیاں تنگ نظر ادارہ جاتی مفادات کی تابع ھونے اور اس کی محدود مشاورتی بنیاد کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کی عوامی حمایت یعنی سپورٹ بیس بہت سکڑتی جارہی ہے۔ اب ماضی کی طرح سیاسی اور مذھبی پارٹیاں ان کی جاھیز اور ناجاھیز کاموں میں فریق بننے یا حمایت کیلئے کندھا دینے کیلئے تیار نہیں اس وجہ سے اب اسٹبلشمنٹ بیرونی دباؤ کو کاؤنٹر کرنے یا داخلی پالیسیوں کیلئے سازگار ماحول مہیا کرنے یا میاں نوازشریف ، الطاف حسین اور اب منظور پشتین جیسے غداروں کے خلاف غیرمعروف افراد اور گڈ طالبان یا عسکری تنظیموں کو استعمال کرتی ہے ۔
عسکری ذھن کو وار سائنس کا ایک اھم اصول سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ اچھا سپہ سالار ایک وقت میں ایک محاذ کھولتا ہے اور زیادہ محاذوں کو کھولنے سے اجتناب کرتا ہے ۔ اسٹبلشمنٹ نے کئی محاذ کھولے ھیں ۔ دوسری بات سیکوریٹی کے بدلتے ھوئے تصورات ھیں۔ اب دنیا میں روایتی تصور کی بجائے ھیومن سیکورٹی کا تصور بھی کافی اھمیت اختیار کرگیا ہے۔ ھیومن سیکورٹی کا تصور شہریوں کی آزادیوں کو یقینی بنانا اور تحفظ ہے۔ ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری ، تعلیم ، صحت ، روزگار اور زندگی کی دیگر آسائشات وغیرہ تک ان کی رسائی اور اس کی فراھمی اھمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ اگر شہری خوشحال اور مطمن نہ ھو تو ملک کی دفاع مضبوط نہیں ھوسکتی ۔ اگر معاشی خود کفالت نہیں تو کھبی اقتدار امریکہ تو کبھی عرب ممالک اور کبھی چین کے پاس گروی رکھنا پڑے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ تمام مظلوم طبقات چاہے لسانی یا مذھبی اقلیتیں ھوں یا سماجی گروپ اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف پارلیمان ، آئین اور قانون کی بالادستی اور بنیادی انسانی حقوق کے کم سے کم ایجنڈے پر متفق ھوجائے ۔ اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر نیا میثاق جمہوریت کرے۔ ورنہ اسٹبلشمنٹ اس طرح سیاسی قوتوں کو آپس میں تقسیم کرکے کھلم کھلا یا درپردہ رہ کر حکمرانی کرئیگی اور سیاسی تقسیم اور مظلوم پستے رھیں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔