اس دن نیویارک کی ہوا نمکین تھی
جس دن اقوام متحدہ کے دفتر میں
وہ لوگ ’’غلامی کی نصف صدی‘‘منانے
اس چھت تلے اکٹھے ہوئے
جس چھت تلے کئی برس قبل
یاسر عرفات نے کہا تھا:
’’میرے ایک ہاتھ میں پستول
اور دوسرے ہاتھ میں شاخ زیتون ہے
تم کو میرا کون سا ہاتھ قبول ہے؟‘‘
آج فلسطین کے دونوں ہاتھ خالی ہیں۔
آج پورا فلسطین خالی ہے
خلا میں تیرتے ہوئے خواب جیسا وطن کہاں ہے؟
پوچھ رہے تھے وہ سب شہداء
جو اب موسموں میں مٹتی ہوئی قبروں میں قید ہیں!
وہ لیلیٰ خالد بوڑھی خالہ بن چکی ہے جس کی انگلی کو
ابھی تک وہ انگوٹھی کاٹتی ہے
جس میں ایک عرب کاریگر نے
ہینڈ گرنیڈ کی پن سجائی تھی!
مگر کہاں ہے وہ لڑکی؟
جس نے لکھا تھا:
’’ماں میں یہ راز چھپا نہیں سکتی
مجھے فلسطین سے عشق ہے‘‘
کہاں ہے وہ محمود درویش؟
وہ وطن میں جلاوطن شاعر
جس کو جیل میں’’ماں کی کافی‘‘
بہت یاد آئی تھی!
کہاں ہیں وہ فدائی؟
جو اس تصور پر فدا ہوئے
جو تصور ٹینک کے نال پر
بیٹھی ہوئی تتلی جیسا تھا!
کہاں ہے وہ امریکی لڑکی؟
جس کی جوان ہڈیاں
بلڈوزر کے نیچے ٹوٹ گئیں!
کہاں ہے جارج حباش؟
جس کا دل آتش فشاں جیسا تھا؟
کہاں ہے وہ ایڈورڈ سعید
جس نے کہا تھا:
’’فلسطین ایک مقدس مقصد ہے‘‘
وہ غلیل اب خالی ہے
جس سے انتفادہ نے
دل کے پتھر پھینکے تھے!
وہ کاغذ اب کورا ہے
جس پر نقش تھا وہ نقشہ
جو دل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے جیسا تھا!
اور وہ گیت اب کوئی نہیں گاتا
اس گمنام شاعر کا گیت
جس نے لہو کی سیاہی سے لکھا تھا:
’’ہم وہاں جانا چاہتے ہیں
جہاں سمندر میں مچھلیاں
ہماری زباں میں تیرتی ہیں
جہاں پرندے ہماری زباں میں اڑتے ہیں
جہاں پھول ہماری زباں میں کھلتے ہیں!
ہم وہاں جانا چاہتے ہیں
جہاں جہاز ہماری زباں میں
ٹیک آف کرتے ہیں
جہاں نوجوان لڑکے
نوجوان لڑکیوں سے
ہماری زباں میں
عشق کا اظہار کرتے ہیں‘‘
وہ فلسطین اب اس تابوت میں قید ہے
جس تابوت کو جلتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ
ایک عورت نے اس طرح چوما تھا
جس طرح چومے
شہید کے ماتھے کو
ایک بیوہ محبوبہ!
فلسطین تم اس دن کہاں تھے؟
جس دن نیویارک کی ہوائیں
جیارکے ان بہے اشکوں سے
بہت نمکین تھیں
بہت غمگین تھیں!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔