آج – ٢٧؍جولائی ١٩٢٣
انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری، مقبول نغمہ نگار اور ممتاز شاعر” ظہور نظرؔ صاحب “ کا یومِ ولادت …
نام ظہور احمد اور تخلص نظرؔ تھا۔ ۲٧؍ جولائی ۱۹۲۳ء کو ساہیوال میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے الیکٹریشن کے فرائض انجام دیے، ٹھیکیداری اورکاشتکاری کی، ہوٹل میں نوکری کی، مرغیاں پالیں اور مزدوری کی۔باقاعدہ تعلیم جاری رکھنا ممکن نہ تھا، مگر انھوں نے اپنے طور پر مطالعہ جاری رکھا۔ہفت روزہ ’’ستلج‘‘ بہاول پور کے مدیر رہے۔انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری بھی رہے۔وی شانتا رام کی فلم ’’پڑوسی‘‘ کے مقبول گانے ظہورنظر نے ہی لکھے تھے۔زندگی کے آخری دنوں میں ریڈیو پاکستان ، ملتان اور ریڈیو پاکستان بہاول پور کے لیے ڈرامے لکھے۔ ظہورنظر کی نظموں کا انگریزی ،روسی، چینی ،ڈچ اور اطالوی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ وہ ۷؍ستمبر ۱۹۸۱ء کو بہاول پور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’بھیگی پلکیں‘، ’ریزہ ریزہ‘، ’زنجیرِ وفا‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:149
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر ظہور نظرؔ کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ تحسین…
قحط وفائے وعدہ و پیماں ہے ان دنوں
زوروں پہ احتیاط دل و جاں ہے ان دنوں
—
ہاتھ میرا اے مری پرچھائیں تو ہی تھام لے
ایک مدت سے مجھے تو سوجھتا کچھ بھی نہیں
—
یہ کیسا عہدہ ہے کہ مری چشمِ خواب میں
نقشِ قدم بھی دیدۂ جبراں ہے ان دنوں
—
نظرؔ چمن میں اگر واقعی بہار آتی
تو پھول خواہش ابرِ بہار کیوں کرتے
—
خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی
میں جو مل جاتا تو اس میں آبرو اس کی بھی تھی
—
حیات وقفِ غمِ روزگار کیوں کرتے
میں سوچتا ہوں کہ وہ مجھ سے پیار کیوں کرتے
—
بعد ترکِ الفت بھی یوں تو ہم جئے لیکن
وقت بے طرح بیتا عمر بے سبب گزری
—
بے آب ہوا اب تو مرا دیدۂ نم بھی
اے گردشِ عالم تو کسی موڑ پہ تھم بھی
—
کس نئے غم سے چراغاں ہے نظرؔ محفلِ جاں
رنگ کچھ اور ہی اب کے ترے اشعار کا ہے
—
ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری
بس یہی غنیمت ہے تیرے بعد شب گزری
—
رات بھر نیند نہ آنے کا گلا کس سے کروں
اس میں بھی ہاتھ مرے طالعِ بیدار کا ہے
—
وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ کو دیکھ کر
میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
ظہور نظرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ