آج – 24/نومبر 1946
ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر ، اپنے شعر ’بڑے غورسے سن رہا تھا زمانہ ۔۔۔‘ کے لئے مشہور شاعر” ثاقبؔ لکھنؤی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام میرزا ذاکر حسین قزلباش ، تخلص ثاقبؔ ۔ ۲؍جنوری ۱۸۶۹ء کو اکبر آباد میں پیدا ہوئے۔ میرزا کی ولادت کو تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ان کے والد نامساعد حالات کی بنا پر اکبرآباد چھوڑ کر مستقل طور پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کرلی۔میرزا کی ابتدائی تعلیم قدیم اسلوب پر ہوئی۔ انگریزی تعلیم کے لیے آگرہ بھیجے گئے جہاں تقریباً چار سال قیام رہا۔ وہیں میر مومن حسین صفی کی صحبت میں ان کی شاعرانہ اہلیت بروئے کار آئی۔ پہلے تجارت شروع کی، مگر ناکام رہے۔ ۱۹۰۸ء میں کلکتہ میں ایران کے سفیر کے پرائیوٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۸ء ہی میں ریاست محمود آباد میں میر منشی کے عہدے پر مامور ہوئے ۔
۲۴؍نومبر ۱۹۴۶ء کو لکھنؤ میں انتقال کرگئے۔ایک دیوان ان کی یادگار ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
ممتاز شاعر ثاقبؔ لکھنؤی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
—
آدھی سے زیادہ شبِ غم کاٹ چکا ہوں
اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے
—
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
—
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے
—
جس شخص کے جیتے جی پوچھا نہ گیا ثاقبؔ
اس شخص کے مرنے پر اٹھے ہیں قلم کتنے
—
بوئے گل پھولوں میں رہتی تھی مگر رہ نہ سکی
میں تو کانٹوں میں رہا اور پریشاں نہ ہوا
—
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
—
اپنے دلِ بے تاب سے میں خود ہوں پریشاں
کیا دوں تمہیں الزام میں کچھ سوچ رہا ہوں
—
ایک قطرہ بحرِ عصیاں کا تھا جو یوں سر چڑھا
پلتے پلتے دامنِ عالم میں طوفاں ہو گیا
—
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
—
اس کے سننے کے لئے جمع ہوا ہے محشر
رہ گیا تھا جو فسانہ مری رسوائی کا
—
دیدۂ دوست تری چشمِ نمائی کی قسم
میں تو سمجھا تھا کہ در کھل گیا مے خانے کا
—
تصویر بنا دیجیے مجھ کو کسی صورت
لے جائیے پہلو سے مرا دل بھی جگر بھی
—
تمام عمر کی غفلت کے بعد خواب آیا
اٹھا جو پردۂ ہستی مجھے حجاب آیا
—
سننے والے رو دئیے سن کر مریضِ غم کا حال
دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے
—
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
—
آپ اٹھ رہے ہیں کیوں مرے آزار دیکھ کر
دل ڈوبتے ہیں حالتِ بیمار دیکھ کر
—
زبان والوں سے سن سن کے ہے یقیں ثاقبؔ
کہ بولتے تو صنم بھی خدا خدا کرتے
—
چل اے ہم دم ذرا سازِ طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اٹھ آئیں گے محفل سے
—
کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
—
ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا
دل کی گتھی شانہ ہائے زلف سلجھائیں گے کیا
—
میں وہ ہوں جس کا زمانے نے سبق یاد کیا
غم نے شاگرد کیا پھر مجھے استاد کیا
—
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ
کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
ثاقبؔ لکھنؤی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ