آج – 4/جنوری 1941
بھارت کے جدید شعراء میں نمایاں مقام رکھنے والے مشہور شاعر” رؤف خلشؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام سیّد رؤف ، تخلص خلشؔ، 4 جنوری 1941ء کو حیدرآباد دکن بھارت میں پیدا ہوئے۔ تعلیم : ڈپلوما ان آرکیٹکچر (جواہر لعل نہرو ٹکنالوجیکل یونیورسٹی حیدرآباد) ، کتابیں : ’’نئی رتوں کا سفر ‘‘ (شعری مجموعہ 1979 ء (2) ’’صحرا صحرا اجنبی‘‘ (شعری مجموعہ) 1988 ء (3) شاخِ زیتون (شعری مجموعہ) 1998 ء (4) ’’شاخسانہ ‘’ (شعری مجموعہ 2007 ء (5) ’’حکایت نقد جاں کی‘‘ (مضامین و تبصرے) 2012 ء (6) تلخیص ابن الوقت‘‘ (تنقید و تبصرہ ) 2014 ء ، ایوارڈ ’’کارنامۂ حیات ایوارڈ‘‘ 2015 ء اردو اکیڈیمی تلنگانہ۔
رؤف خلش حیدرآباد کے جدید شعراء میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے شاعری کے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نا مے ، بدلتے اسلوب کو ایک نیا پن دیا ہے ۔ جدید شاعری کی خشک ہواؤں اور تازہ جھونکوں میں رؤف خلش نے بھی اپنے احساسات کو روشن رکھا ۔ علامتی اور استعاراتی اظہار نے ان کی غزلوں کی تہہ داری اور رمزیت میں اضافہ کیا ہے ۔ انہوں نے مضامین کی جدت اور اظہار کی ندرت کے ساتھ جدید غزل کی تعمیر و تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں اردو کی شعری روایت کا تسلسل اپنے تمام تر تہذیبی و سماجی تناظر کے ساتھ ان کے انفرادی لہجے میں ڈھلتا ہے ۔ رؤف خلش کی نظمیہ کائنات میں بھی ان کے انفرادی لہجے کی کھنک موجود ہے ۔ ان کا کلام پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ جذبے بولتے ہیں، دھڑکنیں گویا ہوتی ہیں، زخم روشنی دیتے ہیں ۔ منظر سے پس منظر ابھرتے ہیں۔
رؤف خلش، 2 جنوری 2020ء کو حیدرآباد میں انتقال کر گئے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
بھارت کے معروف شاعر رؤف خلشؔ کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت..
قاتل سبھی تھے چل دئیے مقتل سے راتوں رات
تنہا کھڑی لرزتی رہی صرف میری ذات
تہذیب کی جو اونچی عمارت ہے ڈھا نہ دوں
جینے کے رکھ رکھاؤ سے ملتی نہیں نجات
خوابوں کی برف پگھلی تو ہر عکس دھل گیا
اپنوں کی بات بن گئی اک اجنبی کی بات
کانٹوں کی سیج پر چلوں شعلوں کی مے پیوں
سنگین مرحلوں کا سفر کون دے گا سات
سورج بھی تھک چکا ہے کہاں روشنی کرے
ورثے میں بٹ گئی ہے اندھیروں کی کائنات
سرگوشی بھی کروں تو بکھر جائے ایک گونج
بہروں کے اس ہجوم میں سنتا ہے کون بات
جھنجھلا کے کیوں نہ چھین لوں ٹوٹا ہے وہ عذاب
پھر وقت گھومتا ہے لئے درد کی زکات
✧◉➻══════════════➻◉✧
سلسلے یہ کیسے ہیں ٹوٹ کر نہیں ملتے
جو بچھڑ گئے لمحے عمر بھر نہیں ملتے
شور کرتے رہتے ہیں جسم و جاں کے سناٹے
جب طویل راہوں میں ہم سفر نہیں ملتے
دھوپ کی تمازت سے جو بچاؤ کر پاتے
سورجوں کے شہروں میں وہ شجر نہیں ملتے
چاہتوں بھرے کمرے دل کھلے کھلا آنگن
اب تو ڈھونڈنے پر بھی ایسے گھر نہیں ملتے
سب نے ہر ضرورت سے کر رکھا ہے سمجھوتا
لوگ ملتے رہتے ہیں دل مگر نہیں ملتے
وقت نے تو بستی کی شکل ہی بدل دی ہے
جن پہ رونقیں تھیں وہ بام و در نہیں ملتے
اپنے نفع و نقصاں کا سب حساب رکھتے ہیں
ہم سے ملنے والے بھی بے خبر نہیں ملتے
ان دنوں خلشؔ اکثر منظروں کے وہ تیور
اجنبی دیاروں کی خاک پر نہیں ملتے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
رؤف خلشؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ