آج – 11؍اکتوبر 2005
ممتاز عالم، مترجم، ماہر لسانیات و شاعر جنہوں نے آکسفورڈ ڈکشنری کا اردو ترجمہ پیش کیا” شان الحق حقّیؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
شان الحق نام اور حقّیؔ تخلص تھا۔ ۱۵؍ستمبر ۱۹۱۷ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ اعلی تعلیم سینٹ اسٹیفنز کالج، دہلی اور علی گڑھ یونیورسٹی سے حاصل کی۔۱۹۵۵ ء میں لندن میں ذرائع ابلاغ کا کورس بھی مکمل کیا۔ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۸ء کی درمیانی مدت میں آپ مدیر اعلی ’’ماہِ نو‘‘ کراچی ونگراں مطبوعات ڈپٹی ڈائرکٹر محکمۂ اشتہارات ومطبوعات وفلم سازی حکومت پاکستان اور رکن سابق انفارمیشن سروس آف پاکستان رہے۔کراچی میں یونائیٹڈ ایڈورٹائزر کے ڈائرکٹر رہے۔پاکستان آرٹس کونسل کی مجلس انتظامیہ کے رکن بھی رہے۔ آپ کی چند تصانیف وتالیفات یہ ہیں:
’انتخاب ظفر‘ ، ’انجان راہی‘ (ترجمہ امریکی ناول)، ’تار پیراہن‘ (منظومات) ’دل کی زبان‘، ’پھول کھلے ہیں رنگ برنگے‘ (منظومات) ’نکتۂ راز‘ (تنقیدی مقالات)، ’لغات تلفظ‘، ’آپس کی باتیں‘، ’افسانہ در افسانہ(خودنوشت سوانح) ’حرف دل رس‘، ’اوکسفرڈانگریزی اردو لغت‘ ، ’شاخسانے‘ ۔ شان الحق حقی کو حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ عطا کیا گیا۔
وہ ۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۵ء کو کینیڈا میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:83
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
ممتاز شاعر شان الحق حقیؔ کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
لوگ تم سے بھی ستم پیشہ کہاں ہوتے ہیں
جو کہیں کا نہ رکھیں اور پھر اپنا نہ کہیں
—
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
—
بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست
قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی
—
جدائیوں سے شکایت تو ہو بھی جاتی ہے
رفاقتوں سے وفا میں کمی نہیں آتی
—
اے دل اب اور کوئی قصۂ دنیا نہ سنا
چھیڑ دے ذکرِ وفا ہاں کوئی افسانہ سنا
—
کر چکا جشن بہاراں سے میں توبہ حقیؔ
فصلِ گل آ کے مری جان کو رو جاتی ہے
—
نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے
درکار مرے دل کو تھے غم اور طرح کے
—
وہ مزا رکھتے ہیں کچھ تازہ فسانے اپنے
بھولتے جاتے ہیں سب درد پرانے اپنے
—
شمشیر کی زد پر ہیں کچھ اور ہمیں جیسے
ہنگامِ تقاضا کیا اے دل وہ جسے چاہیں
—
ہیں ابھی اہل ہوس سود و زیاں کے ہی اسیر
پھیرتے ہیں یوں ہی باتوں سے گماں اور طرف
—
اے دل ترے خیال کی دنیا کہاں سے لائیں
ان وحشتوں کے واسطے صحرا کہاں سے لائیں
—
چپ ہے وہ مہر بہ لب میں بھی رہوں اچھا ہے
ہلکا ہلکا یہ محبت کا فسوں اچھا ہے
—
سجا کے لائے تھے کچھ لوگ نامۂ اعمال
میانِ حشر ہوا احتساب اور ہی کچھ
—
اک مہک سی دم تحریر کہاں سے آئی
نام میں تیرے یہ تاثیر کہاں سے آئی
—
ایمائے غزل کرتی ہیں موسم کی ادائیں
اک موجِ ترنّم کی ہوس میں ہیں فضائیں
—
جو ہو ورائے ذات وہ جینا ہی اور ہے
جینے کا اہلِ دل کے قرینہ ہی اور ہے
—
وہی اک فریبِ حسرت کہ تھا بخششِ نگاراں
سو قدم قدم پہ کھایا بہ طریقِ پختہ کاراں
—
بیانِ شوق نہیں قیل و قال کا محتاج
کبھی فغاں میں ادا کر کبھی نظر سے کہہ
—
یہ کس نے کیا یاد کہاں جاتے ہو حقیؔ
کچھ آج تو پڑتے ہیں قدم اور طرح کے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
شان الحق حقیؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ