آج – 12؍مئی 1945
مشہور و معروف شاعر” جلیل عالیؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمد جلیل عالی اور تخلص عالیؔ ہے۔ ۱۲؍مئی ۱۹۴۵ء کو امرتسر کے قصبہ ویروکے میں پید اہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں ایم اے (اردو)، ۱۹۶۹ء میں ایم اے(عمرانیات) کے امتحانات پاس کیے۔ ۱۹۷۰ء سے شعبہ تدریس سے منسلک ہیں۔ پہلے فیڈرل گورنمنٹ کالج، واہ کینٹ میں بطور اردو کے استاد رہے۔ بعدازاں ایف جی کالج ، راول پنڈی سے وابستہ رہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’رابطے‘ (غزلوں کا مجموعہ)، ‘ خواب دریچہ‘ (شعری مجموعہ)، ’شوق ستارہ‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:378
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
═══════════════════
معروف شاعر جلیل عالیؔ کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
—
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے
—
دل پہ کچھ اور گزرتی ہے مگر کیا کیجے
لفظ کچھ اور ہی اظہار کئے جاتے ہیں
—
اپنے دیئے کو چاند بتانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں
—
دنیا تو ہے دنیا کہ وہ دشمن ہے سدا کی
سو بار ترے عشق میں ہم خود سے لڑے ہیں
—
کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں
خود ڈر گئے تو سب کو ڈرانا پڑا ہمیں
—
تو زندگی کو جئیں کیوں نہ زندگی کی طرح
کہیں پہ پھول کہیں پر شرر بناتے ہوئے
—
تمہارا کیا تمہیں آساں بہت رستے بدلنا ہے
ہمیں ہر ایک موسم قافلے کے ساتھ چلنا ہے
—
اسے دل سے بھلا دینا ضروری ہو گیا ہے
یہ جھگڑا ہی مٹا دینا ضروری ہو گیا ہے
—
ذرا سی بات پر صید غبار یاس ہونا
ہمیں برباد کر دے گا بہت حساس ہونا
—
وقت دیتا ہے جو پہچان تو یہ دیکھتا ہے
کس نے کس درد میں دل کی خوشی رکھی ہوئی ہے
—
عشق خود سکھاتا ہے ساری حکمتیں عالؔی
نقد دل کسے دینا بار سر کہاں رکھنا
—
یہ شہر طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے
پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ کہ بلا ہے
—
جاں کھپاتے ہیں غمِ عشق میں خوش خوش عالؔی
کیسی لذت کا یہ آزار بنایا ہوا ہے
—
ہم کہ ہیں نقش سر ریگ رواں کیا جانے
کب کوئی موج ہوا اپنا نشاں لے جائے
—
غرورِ عشق میں اک انکسار فقر بھی ہے
خمیدہ سر ہیں وفا کو علم بناتے ہوئے
══━━━━✥•••••◈•••••✥━━━━══
جلیل عالیؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ